پیرزادہ مسرت شاہ
جون جولائی کا مہینہ تھا۔گرمی کی حدت کافی تھی اور عاشق پسینے سے شرابور پلنگ پر لیٹا ہوا تھا۔چھت پر لگا ہوا پنکھا بجلی کے و ولٹیج کے حساب سے اپنی رفتار کبھی بڑھاتا تھا اور کبھی رفتار کم ہوتی تھی۔پنکھے کے ایک پنکھ پر کالا دھبا تھا جسکی سیاہی عاشق کے دل کو کٹھکنے لگی۔یہ دھبہ ہر محور کے بعد عاشق کے نظروں سے گزرتا تھا۔عاشق نے آنکھوں کی ساری توانائی کالے دھبے کو دیکھنے میں لگائی۔کالا دھبہ دھیرے دھیرے بڑھتا گیا۔ عاشق کو ایسا لگنے لگا کہ یہ دھبہ نہیں بلکہ اسکی زندگی کی پوری کہانی ہے، جو نامرادی اور نا کامی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
کالا دھبہ کھلتے ہی عاشق کو اپنا بچپنا ،پھر جوانی، پھر کالج کے دن،پھر وہ پیار و محبت کی دنیا، جو اس کے لئے اجڑ چکی تھی ، یاد آتے تھے۔ عاشق کو وہ کھیت کھلیان،پانی کے جھرنے،سبزہ زار، وہ دلفریب وادیاں اور اسی ماحول میں اس کا پلنا پھر جوان ہونا اب دکھائی دے لگا۔اپنی یادوں کے دریچوں میں اسے اپنی ہی ہمسایگی میں رہنے والی حسنی کے صورت بھی نظر آنے لگی۔گویا کہ اس کے لئے یادوں کا جہاں کھل گیا اور وہ پھر انہیں مسرتوں کے بیچ کھو گیا۔
اسے یاد آیا کہ جب حسنی اور وہ گاوں کی کھلی ہوئی آزاد فضاوں میں ایک ساتھ کھیلتے تھے،شام دیر گئے تک غم جہاں سے آزاد ایک دوسرے کے ساتھ کسی گناہ کے سوچے بناء ایک دوسرے کے ساتھ کھیت کی پگڈنڈیوں سے گزرتے تھے۔عاشق کا باپ گائوں کا ایک مشہور جاگیر دار تھا، جس کے پاس روپیہ پیسوں کی کوئی کمی نہیں تھی۔اس کے گھر میں نوکر چاکر اور خادم بھی تھے۔گاوں کے ماحول کے مطابق اس کے ہاں گائے،بھینس اور بھیڑ بکریوں کے ریورڑ تھے۔ریئسانہ ٹاٹھ باٹھ کے عین مطابق ان کے ہاں ایک ایمبیسڈر گاڑی بھی تھی۔باپ کا اکلوتا بیٹا ہونے کے باعث عاشق کے پاس سائیکل بھی ہوا کرتی تھی۔اس کے برعکس حسنی کا باپ کافی غریب تھا،جو محنت مزدوری کر کے اپنے بیمار بیوی اور بچوں کی کفالت کرتا تھا۔غرض عاشق اور حسنی ایک گلوب کے دو سِروں کے مانند تھے جو کبھی بھی ایک دوسرے کے ساتھ نہیں مل سکتے تھے۔عاشق کو گاو ں کے سرکاری سکول میں داخل کروایا گیا۔حسنی کے لئے سکول جانا دیوانے کے خواب کے برابر تھا۔پھر بھی عاشق چاہتا تھا کہ حسنی بھی اس کے ساتھ سکول جا سکے۔ذہن میں یہ ترکیب سوجھی کہ کیوں نہ میں اپنی پرانی کتابیں حسنی کو دوں جو دوسرے درجے میں داخلے کے بعد کسی کام کی نہیں تھیں۔یہ ترکیب کافی فائیدہ مند ثابت ہوئی۔اس نے نئے درجے کی نئی کتابیں رکھ لیں اور پرانی کتابیں حسنی کو دیں۔اس طرح ایک درجہ پیچھے وہ عاشق کے ساتھ سکول جانے لگی۔عاشق اکثر سکول سائیکل پر جایاکرتا تھا۔حسنی پچھلی سیٹ پر اس کے ساتھ ہوا کرتی تھی۔
عاشق نے آٹھویں جماعت کا امتحان پاس کیا اور اس کا داخلہ پاس والے گائوں کے ہائی اسکول میں ہوا۔ ایک سال عاشق کے بغیر پڑھتی رہی لیکن عاشق پھر بھی ہر دن پہلے اس کا ساتھ اس کے اسکول تک دیتا تھا پھر اپنے اسکول جایا کرتا تھا۔
عاشق دسویں جماعت میں دخل ہوا تو حُسنی نویں جماعت میں اسی سکول میں داخل ہوئی۔اب سائیکل کے بجائے عاشق سکوٹر پر سکول جانے لگا۔حسنی ہر دن پچھلی سیٹ پر اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھکر ہوتی تھی۔عاشق کو اب جیب خرچہ کے نام پر گھر سے اچھی خاصی رقم بھی ملنے لگی۔اس رقم سے وہ حسنی کی ضروریات کا پورا خیال رکھنے لگا۔دونوں ہنسی خوشی کالج کی سطح تک پہنچ گئے۔اب عاشق اس کی فضول خرچی،بنائو سنگھار،کپڑے اور باقی ضروریات پوری کرنے میں خوشی محسوس کرتا تھا۔اب حُسنی کے چہرے پر سے معصومیت کے نقوش مٹ چکے تھے اور وہ جوانی کی دہلیز پر اپنی خوبصورتی کے جلوے بکھیر رہی تھی۔ایک ٹھنڈی رات جب عاشق کے گھر والے کسی رشتے دار کی شادی میں چلے گئے۔تو عاشق کو پڑھائی کے سبب گھر پر ہی رہنے کو کہا گیا اور اس کی خدمت ایک نوکر کے سپرد رکھی گئی۔ شام کے کھانے سے فارغ ہو کر عاشق اپنے کمرے میں چلا گیا۔اسے ایک سایہ سا دکھائی دینے لگا۔وہم سمجھ کر اس نے سایہ کی موجودگی کو نظر انداز کیا اور ٹھنڈ کی وجہ سے جلدی بستر کے اندر چلا گیا۔رات کی تاریکی میں اس کے ٹھنڈے بدن کو ایک پرمسرت اور روح پرور گرمی محسوس ہوئی اور اسے لگا کہ جیسے وہ کسی دہکتے آگ کے گولے سے لپٹا ہوا ہے۔ اس کے ہاتھ کسی نرم گداز ململ سی نرم کسی چیز پر تھے۔اچانک اس کے ہاتھ میں روئی جیسانرم گولا آیا جس کے لمس سے اس کے بدن میں بجلی سی دوڑنے لگی۔کچھ دیر خاموشی کے عالم میں اسے مدھم سانسوں کے چلنے کی آواز سنائی دینے لگی اور اس کی سانسیں بھی تیزی سے چلنے لگیں اور اس کا دل زورزور سے دھڑکنے لگا۔کچھ دیر بعد اس نے چند عجیب آوازیں سنیں اور خود بھی ان انجان آوازوں کے ساتھ آواز ملاتا ہوا جیسے کسی لطف کو پا رہا تھا۔ مدہوشی کے عالم میں اس نے حُسنی کو اپنے ساتھ لپٹے دیکھا جو اس نے سوتے وقت ہی سایہ کے روپ میں دیکھی تھی۔یہ کھیل کبھی کبھار وہ لطف اندوزی کے لئے کھیلتے تھے۔حسنی کا حسن اتنا نکھر آیا تھا کہ دیکھنے والے کے منہ سے بس آہ نکلتی تھی۔اب عاشق کے پاس قیمتی مرسیڈیذ بھی تھی، جسکی بغل والی سیٹ خالص حسنی کے لئے مخصوص تھی۔
عاشق اب حسنی کو سونے چا ندی میں تولنے لگا اور اس پر بے پناہ دولت لٹاتا گیا۔لیکن بدقسمتی سے ایک دن اس کی کار میں کچھ خرابی پیدا ہوئی اور کار کو ٹھیک کروانے کے لئے ورکشاپ چلا گیا۔حسنی کو کسی ضروری کام سے یونیورسٹی جانا پڑا۔حسنی کو عیش و آرام کی زندگی عاشق کی وجہ سے میسر تھی لیکن آج نہ عاشق اس کے ساتھ اور نہ عاشق کی گاڑی ۔ وہ یونیورسٹی پہنچنے کے لئے گاڑی کا انتطار کر رہی تھی کہ اچانک ایک چمچماتی سرخ رنگ کی گاڑی اس کے قدموں کے قریب رک گئی۔حسنی بے ڈھرک کار میں سوار ہوئی۔کار میں بیھٹنے کے چند لمحات کار کے مالک نے خاموشی توڑ دی۔
آپ کہاں جا رہیے ہیں۔۔۔۔حسنی نے جواب دیا یونیورسٹی۔۔۔اوہ کار والے نے کہا۔۔اصل میں مجھے بھی یونیورسٹی ہی جانا ہے۔اسے وہاں جانا ہو یا نہ جانا ہو لیکن حسنی کا حسن اسے دیوانہ کر گیا تھا۔گفتگو کے دوران سنجیدگی کا جنازہ نکلا اور دونوں خوب قہقہے لگانے لگے،یونیور سٹی پہنچ کر کار والے نے حسنی کو اپنا فون نمبر دیا تاکہ جب وہ اپن کام مکمل کرے مجھے کال کرے تاکہ میں آپ کو واپس اسی جگہ پر ڈراپ کروں جہاں سے حسنی سوار ہوئی تھی۔ایک آدھ گھنٹے کے بعد حسنی نے انجان کار والے کو فون کیا اور دونوں واپس آنے لگے۔کار والے نے حسنی سے کچھ کھانے کی گزارش کی، پہلے حسنی نے منع کیا لیکن پھر حامی بھر لی۔ دونوں نے دوپہر کا کھانا لال چوک کے مشہور ہوٹل میں کھایا۔کھانے کے بعد دونوں ایسے گھل مل گئے جیسے مدتوں سے ایک دوسرے کو جانتے تھے۔کار والے کا ٹھاٹھ باٹھ عاشق سے زیادہ اچھا تھا جو حسنی کو اس کے ساتھ دوستی کرنے سے نہیں روک سکا۔
شام کو عاشق حسنی سے ملا اور خیر خبر پوچھی۔حسنی نے کار نہ ہونے اور عام گاڑی میںسوار تھکان کا بہانہ بنا کر ٹال دیا۔
رات میںا س کے فون کی گھنٹی بجی۔۔۔ہیلوہ کون ہے۔۔جی میں۔۔۔پہنچانا نہیں۔۔۔حسنی ہاں ہاں پہنچانا ۔۔
بولیے۔۔حسنی جیسے غیر شعوری طور اسکی کال کا انتظار کر رہی تھی۔دونوں کے درمیان خوب باتیں ہوئیں اور باتوں باتوں میں اگلی ملاقات کا وقت اور جگہ بھی مقرر ہوئی۔آہستہ آہستہ حسنی نے عاشق کو نظر انداز کرنا شروع کیا۔اسے انجان کار والے کی دولت کا چسکا لگ گیا اور وہ اب بہانہ بازی سے کام لینے لگی۔عاشق کے اصرار پر اس نے کہا دیکھو اب میں کوئی چھوٹی بچی نہیں ہوں اب میں جوان ہو چکی ہوں آپ کے ساتھ دیکھ کر لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں۔۔۔۔۔ میں ایک غریب باپ کی بیٹی ہوں ہمارے پاس سب سے بڑی دولت ہماری عزت ہوتی ہے۔ اس لئے بہتر یہ رہے گا کہ ہم ایک دوری بناے رکھیں۔ اسی میں ہماری بھلائی ہے۔
عاشق کی دنیا جیسے اُجڑ گئی اور وہ اس فیصلے پر نہ چاہتے ہوئے بھی عمل کرنے لگا لیکن ایک دن اس نے حسنی کو انجان کار والے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہوئے ایک مشہور شو روم سے خریداری کرتے دیکھا۔یہی ہے آپ کی عزت،غربت کا خوب تماشا بنا رہی ہو۔۔۔تم ذلیل ہو، مجھے تم سے نفرت ہوئی۔ یہ کہتے ہوئے عاشق وہاں سے چلا گیا۔جدائی کے غم سے وہ کافی دل برداشتہ ہونے لگا۔اسے لگا جیسے اس کی دینا اجڑ گئی ہو۔جیسے تیسے وہ اس حادثے کو بھلانا چاہتا تھا جو اس کے روح اور ذہن میں سرایت کر چکا تھا۔
اچانک بجلی چلی گئی اور پنکھے کی رفتار رک گئی۔کالا دھبہ چھوٹا ہونے لگا عاشق نے پلنگ پر رکھے ریشمی تولیہ سے آنکھوں سے چھلکتے پانی کو صاف کیا اور اسکی زبان سے بے ساختہ نکلا۔۔۔۔۔۔
جا حسنی تیری دنیا بھی میری طرح اُجڑ جائے۔
���
قمرواری سرینگر