کسانوں کا دلی ہمدرد

بہار میں ان دنوں چاروں طرف چمپارن ستیاگرہ صدی کے جشن کی دھوم ہے – ایک طرف حکومت بہار سرکاری سطح پر ریاست کے تمام اضلاع میں مختلف طرح کے تعلیمی اور کلچرل پروگرام منعقد ہو رہے ہے تو دوسری طرف رضاکار تنظیموں کی جانب سے بھی مہاتما گاندھی کی زندگی اور کارناموں پر مذاکرے ہو رہے ہیں-ان سب کا واحد مقصد ہے کہ نئی نسل کو گاندھی جی کے اصولوں اور پیغام سے واقف کرایا جائے – بے شک آج کے حالات میں گاندھی جی کے نظریے اور پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ملک میں جس طرح کا فرقہ وارانہ ماحول بنا نے کی کوشش کی جا رہی ہے اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ، شدت پسندی کے اس دور میں گاندھی کی یادوں کے سہارے ملک میں قومی اتحاد کا ماحول سازگار کیا جا سکتا ہے- چمپارن ستیہ گرہ ہندوستان کے آزادی کی تاریخ کا ایک اہم اور روشن باب ہے کہ اسی تحریک کے ذریعے گاندھی جی نے قومی سطح پر کسانوں کے مسائل کو اجاگر کیا تھا اور چمپارن میں نیل کی کھیتی کے ذریعے انگریز حکومت کس طرح یہان کے کسانوں پر ظلم ڈھایا جا رہا تھا ۔اس کی مخالفت شروع ہوئی تھی – اس میں کوئی شک نہیں اس تحریک میں جان پھونکنے کا کام گاندھی جی نے کیا لیکن ایک ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ گاندھی جی کی چمپارن آمد 1917ء سے بہت پہلے سے یہاں کے کسان اور مقامی لیڈر انگریزوں کے خلاف آواز بلند کر رہے تھے مگر ان کی آواز علاقائی سطح تک محدود تھی لیکن گاندھی جی کی چمپارن آمد کے بعد یہ تحریک پورے ملک میں پھیلی اور انگریزی حکومت کے خلاف آواز بلند ہونے لگی –  چمپارن میں انگریزی حکومت بری تعداد میں نیل بنانے کی کوٹھی بنا رکھی تھی – یہاں کے ہر ایک کسانوں کے لئے ضروری تھا کہ وہ اپنے ایک ایکر زمیں میں تین کتھا زمیں انگریزوں کے لئے نیل کی کھیتی کریں – اس کے لئے انگریز کسانوں کو کچھ بھی محنتانہ نہیں دیتے  تھے – اس کو "تین کٹھیاں" انگریزی ٹیکس کہا جاتا تھا – اس ظلم کے خلاف یہان کے کسان برسوں سے آواز بلند کر رہے  تھے  لیکن انگریز اسے دبا دیتے تھے ۔ پنڈت رام چندر شکل اور پیر مونس جیسے سماجی رہنما نے کسانوں کی آواز کو گاندھی جی تک پہنچایا اور آخر کار17 اپریل 1917 کو گاندھی جی چمپارن آئے اور انگریزوں کے اس ظلم کے خلاف تحریک چھیڑی – اس ظلم کے خلاف تو آواز سب سے پہلے پیر مونس نے 1910 میں الہٰ آباد میں اٹھائی تھی جب انھوں نے پنڈت سندر لال کے گھر پر چمپارن کے کسانوں کا دکھ درد کانگریس کو سنایا ۔اس کے بعد وہ مسلسل اس ظلم کے خلاف وقت کے مختلف ہندی اخباروں اور رسالوں میں مضامین لکھتے رہیں، جن میں خاص کر پرتاپ ، نیا زمانہ ، پاٹلی پتر ، بھارت میتر ، ابھیودے جیسے مقبول ہندی اخبار اور رسائل شامل تھے – اپنے مضامین سے انہوں نے انگریزوں کی نیند حرام کر رکھی تھی اور انگریز انہیںایک خطرناک صحافی مان کر دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دے رکھا تھا مگر پیر مونس کو ہٹانے میں وہ کامیاب نہ رہے ۔ جب گاندھی جی چمپارن آئے تو پہلی میٹنگ انہی کے گھر پر 23؍ اپریل 1917ء میں کی جہاں ہزاروں کسانوں گاندھی جی کا خیر مقدم کیا –پیر مونس کا پورا نام پیر محمّد مونس تھا – ان کے والد کا نام فتنگی میاں تھا جوایک غریب مزدور تھے – مونس کی پیدائش 1892 میں ہوئی تھی اور انتقال 14؍اگست 1949 کو ہوا – شروع میں مونس نے بیتیا راج کے اسکول میں ماسٹری کی لیکن یہاں سے بھی اپنے انگریز مخالف تیور کی وجہ سے نکالے گئے ۔ اس کے بعد پوری زندگی اپنے مضامین سے چمپارن کے کسانوں کادُکھ درد اُجاگر کرتے رہے اور ساتھ ہی ساتھ قومی ایکتا کے لئے کام کرتے رہے- انہوں نے پرتاپ میں 1916ء میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں قومی ایکتا کی ضرورت اور اس کے راستے میں جو کانٹے ہیں اس پر بھرپور روشنی ڈالی – انہوں نے لکھا تھا کہ ہندوؤں میں دھرم کا ڈھنڈورا پیٹنے والے پنڈت اور مسلمانوںمیں ہمیشہ مذہبی جھگڑے فساد ہوتے رہتے ہیں جو سچ پوچھئے تو ہندو مسلم ایکتا کو بھنگ کر تے ہیں – ان دنوں انگریز ہندو مسلم مذہبی نفرت پھیلانے کی سازش کر رہے تھے جس کی طرف مونس اشارہ دیتے رہتے ، آج بھی سماج کو کچھ انہی خطوط پر تقسیم کر نے کے لئے طرح طرح کی سازشیں ہو رہی ہیں ، اس لئے آج بھی پیر مونس کے نظریے ، خلوص اور سوچ کو  عام کرنے کی اشد ضرورت ہے –
جب گاندھی جی نے چمپارن تحریک شروع کی تو ان کے قدم سے قدم ملا کر چلنے والوں میں پیر مونس بھی ایک اہم شخصیت تھے لیکن افسوس ہے کہ ہمارے مورخین نے انہیں فراموش کر دیا ہے – آج بھی جب چمپارن ستیہ گرہ کی صدی کا جشن منایا جا رہا ہے تو پیر مونس حاشیے پر دیکھے جاتے ہیں – دوسروں کی بات تو چھوڑئیے اپنے لوگ بھی مونس کی قربانیوں کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ ایسے وقت میں تو گاندھی جی کے ساتھ پنڈت رام چندر شکل ،پیر مونس اور حاجی دین محمد ، شیخ گلاب ، اور شیتل رائے کو بھی یاد کیا جانا چاہیے کہ گاندھی جی اور راجندر پرساد کے ساتھ یہ سبھی انگریزوں کے خلاف کسانوں کے مسائل کے حل کے لئے آخری دم تک لڑتے رہے – پیر مونس کے بارے میں اس وقت کے انگریز کلکٹر نے لکھا تھا کہ "گاندھی کو مدد پہچانے میں سب سے اہم آدمی پیر مونس ہے جو بیتیا راج کے اسکول میں ماسٹر تھا ،جسے 1915 ء میں برخواست کیا جا چکا ہے -"اسی طرح ہندی کے ایک برے مصنف شوپجن ساہے نے لکھا ہے کہ" مونس نے ’’پرتاپ ‘‘اخبار کے ذریے چمپارن کے کسانوں پر انگریزوں کے ظلم کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا کام کیا –"مختصر یہ کہ آج جب ہم چمپارن ستیہ گرہ کی صدی منا رہے ہیں اور گاندھی جی کی قومی خدمات پر روشنی ڈال رہے ہیں، ایسے وقت میں پیر محمد مونس کی قومی خدمات اور ذاتی قربانیوں کو بھی یاد کیا جانا چاہیے کہ چمپارن تحریک کا ایک عظیم سپاہی وہ بھی تھے مگر انہیں ہم سب نے فراموش کر رکھا ہے – گاندھی جی کے لئے سب سے بری خراج عقیدت یہ ہوگا کہ چمپارن تحریک میںان کے تمام رفقاء کو بھی یاد کیا جائے بالخصوص پیر محمد مونس کی حیات اور خدمات کسی صورت نظرا نداز نہیں ہونے چاہیے – یہ بھی ایک لاینحل معمہ ہے کہ اگرچہ پیر محمد مونس پوری زندگی ہندی صحافت کے لئے خون جگر بہاتے رہے مگر افسوس کہ ہندی اخباروں میں بھی پیر محمد مونس کا ذکر بر سبیل تذکرہ بھی نہیںآتا –
09431414586