کرہء ارض پر حضرت انسان کا تانڈو ماحولیات

معراج زرگر

گلوبل وارمنگ اورموسمی تغیر یا کلائمیٹ چینج ایک فینامینن ہیں۔ جس طرح کشش ثقل، زمین کی روزانہ اور سالانہ گردش، حیاتیاتی نشو و نما، کائنات کا دھیرے دھیرے پھیل جانا، وغیرہ وغیرہ مستقل قدرتی نطام کا حصہ ہیں اور باضابطہ فینامینن ہیں۔ گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تغیر کا انسانی زندگیوں پر ایک گہرا اور خطرناک اثر پڑ چکا ہے۔ اور آج کا انسان ان خطرناک ترین عوامل کی بھرپور جانکاری رکھتے ہوئے بھی انجان بنا ہوا ہے۔ اور شتر مرغ ک طرح ریت میں سر دبائے ہوئے بانڈھہ پا تھر اور دھمال پاتھر میں مست اور مگن ہے۔ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ بھی حالات پر نظر رکھتے ہوئے مباحث اور فروعات میں پھنسا ہوا ہے اور ہمارا دیندار طبقہ گناہ اور ثواب کی درجہ بندیوں میں یہ بھول چکا ہے کہ اگر کبھی جسم کے حصے پر کلہاڑی کی شدید ضرب آئے تو اسے جھاڑ پھونک اور تعویز گنڈوں سے نہیں بلکہ ہسپتال جاکر ٹانکیں لگوانے اور اینٹی بیاٹیکس لیکر اس کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ اور اگرخدانخواستہ کسی کو کینسر ہوجائے تو اسے آستانوں پرسری پایوں کی تہری بانٹنے یا کسی مخبوط الحواس انسان کی ٹانگیں دبانیں سے علاج نہیں کیا جاسکتا، بلکہ کسی ہسپتال میں جاکر ریڈیوتھیراپی یا کیمو تھیراپی سے علاج کیا جاسکتا ہے۔
مختلف معتبر ذرایع پر دستیاب اعداد و شمار کے مطابق پچھلے سو سالوں میں دنیا میں جنگلات کا تقریباً 50 فیصد صفایا کیا گیا ہے۔ جنگلات کی کٹائی کی بڑی وجوہات میں زراعت، شہری ترقی، اور لکڑی کے لیے کٹائی شامل ہیں۔ یہ جنگلات کی کٹائی ماحولیات اور جنگلی حیات پر گہرے اثرات ڈالتی ہے۔ ہندوستان میں پچھلی چند دہائیوں میں جنگلات کی کٹائی ایک اہم مسئلہ رہی ہے، لیکن پچھلے سو سالوں کے اعداد و شمار میں مختلف تخمینے موجود ہیں۔ کچھ رپورٹس کے مطابق ہندوستان نے پچھلے سو سالوں میں اپنے جنگلات کا تقریباً 30-40 فیصد حصہ کھو دیا ہے۔ تاہم، حکومت کی مختلف مہمات اور شجرکاری پروگراموں کے ذریعے جنگلات کے تحفظ اور ان کی بحالی کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔ 1980 کے بعد جمون وکشمیر کے جنگلات کا 20 سے 30 فیصدی حصہ کٹائی اور غیر قانونی قبضے کی وجہ سے ختم ہوا ہے۔
پچھلے سو سالوں میں دنیا کی آبادی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ 1920کی دہائی میں عالمی آبادی تقریباً 2 ارب تھی، جبکہ 2020 تک یہ بڑھ کر تقریباً 7.8 ارب تک پہنچ گئی۔ اس کا مطلب ہے کہ پچھلے سو سالوں میں عالمی آبادی تقریباً چار گنا بڑھ چکی ہے۔ ہندوستان کی آبادی بھی اسی عرصے میں کافی بڑھی ہے۔ 1920 کی دہائی میں ہندوستان کی آبادی تقریباً 30 کروڑ تھی، جو 2020 تک بڑھ کر تقریباً 1.38 ارب ہو گئی، یعنی ہندوستان کی آبادی تقریباً چار سے پانچ گنا بڑھ چکی ہے۔ 1920 میں جموں و کشمیر کی آبادی تقریباَ پندرہ لاکھ افراد تھی، جبکہ 2020 میں یہ آبادی 1یک کروڑ پچیس لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ یہ اضافہ تقریبا آٹھ گنا ہے۔
اسی طرح پچھلی ایک صدی کے عرصے میں آبی ذخائر میں نمایاں کمی آئی ہے۔ عالمی سطح پر، تازہ پانی کے ذخائر میں کمی کے کئی عوامل شامل ہیں، جیسے کہ بڑھتی ہوئی آبادی، صنعتی ترقی، زراعت کے لیے پانی کا زیادہ استعمال، اور موسمیاتی تبدیلیاں۔ عالمی سطح پر زیرزمین پانی کے ذخائر میں تقریباً 50 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔ کئی بڑے جھیلوں اور دریاؤں میں پانی کی سطح میں نمایاں کمی آئی ہے۔ مثال کے طور پر ارال سمندر، جو کبھی دنیا کی چوتھی سب سے بڑی جھیل تھی، اب تقریباً خشک ہو چکی ہے۔ گلیشیئرز جو کہ کئی دریاوں اور جھیلوں کے لئے پانی کا ذریعہ ہیں، تیزی سے پگھل رہے یں، جس کی وجہ سے تازہ پانی کے ذخائر میں کمی آ رہی ہے۔ ہیدوستان میں بھی زیرزمین پانی کے ذخائر میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے، خاص طور پر شمالی ہندوستان میں، جہاں زیرزمین پانی کے ذخائر میں تقریباً 60 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔ کئی بڑے دریاوں جیسے گنگا اور یمونا میں پانی کی سطح میں کمی آئی ہے۔ یہ کمی ماحولیاتی اور انسانی زندگی پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہے، اس لیے پانی کے تحفظ کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ کشمیر میں آبی ذخائر اور جنگلات میں کمی کے بارے میں درست اعداد و شمار مختلف تحقیقی رپورٹس اور مطالعات پر مبنی ہوتے ہیں، لیکن عمومی طور پر کشمیر میں آبی ذخائر، خاص طور پر جھیلیں اور دریا، ماحولیاتی تبدیلیوں، آلودگی، اور انسانی سرگرمیوں کے باعث متاثر ہوئے ہیں۔ جھیل ڈل کا رقبہ گزشتہ چند دہائیوں میں کافی کم ہو گیا ہے۔ کچھ اندازوں کے مطابق، ڈل کا رقبہ 1960 کی دہائی کے بعد تقریباً 50 فیصد کم ہو چکا ہے۔ ولر جھیل، جو کشمیر کی سب سے بڑی جھیل ہے، کا رقبہ بھی گزشتہ چند دہائیوں میں کم ہوا ہے، جس کی ایک بڑی وجہ جھیل میں گاد کی بڑھتی ہوئی مقدار ہے۔
سڑکوں، عمارات، اور صنعتوں میں دنیا، ہندوستان، اور یہاں جموں وکشمیر میں پچھلی صدی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ یہاں کچھ عمومی اندازے فراہم کیے گئے ہیں۔ عالمی سطح پر سڑکوں کا نیٹ ورک 65 ملین کلومیٹر تک پہنچ گیا ہے۔ جو پچھلی ایک صدی میں پانچ سے سات گنا تک بڑھ گیا ہے۔ شہری آبادی کے اضافے کے ساتھ، دنیا بھر میں عمارات کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ بڑے شہروں میں رہائشی اور کمرشل عمارات کی تعداد 1920کے بعد سے کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ صنعتی ترقی میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ 1920کی دہائی کے مقابلے میں، آج دنیا بھر میں صنعتی پیداوار کئی سو فیصد زیادہ ہے۔ ہندوستان میں 1920 کی دہائی میں سڑکوں کی کل لمبائی تقریباً 0.4 ملین کلومیٹر تھی، جو 2020 تک بڑھ کر تقریباً 5.8 ملین کلومیٹر تک پہنچ گئی۔ یہ تقریباً 14 گنا اضافہ ہے۔ شہری ترقی کی وجہ سے ہندوستان میں رہائشی اور کمرشل عمارات کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ بڑے شہروں میں 1920کے مقابلے میں عمارات کی تعداد 10-20 گنا زیادہ ہو چکی ہے۔ ہندوستان کی صنعتی پیداوار 1920 کی دہائی کے مقابلے میں تقریباً 50-100 گنا زیادہ ہے۔ ملک بھر میں صنعتی علاقوں اور فیکٹریوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔
کشمیر میں سڑکوں کی تعمیر میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ 1920 کی دہائی میں کشمیر میں سڑکوں کی لمبائی محدود تھی، لیکن آج تقریباً 50,000 کلومیٹر تک پہنچ گئی ہے، جو 1920 کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔ سری نگر، جموں، اور دیگر شہری علاقوں میں جدید رہائشی اور کمرشل عمارات کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ 1920 کے مقابلے میں، عمارات کی تعداد تقریباً 10-15 گنا بڑھ چکی ہے۔ جموں وکشمیر میں صنعتوں کی تعداد بھی بڑھی ہے، خاص طور پر ہینڈلوم، ہینڈی کرافٹس، اور ٹورزم سے متعلق صنعتوں میں۔ 1920 کی دہائی کے مقابلے میں صنعتی یونٹوں کی تعداد میں 10-20 گنا اضافہ ہوا ہے۔
دنیا، ہندوستان، اور ہماری سابقہ ریاست میں ٹریفک میں پچھلے سو سالوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔1920میں دنیا بھر میں موٹر گاڑیوں کی تعداد چند لاکھ تھی۔ جو 2020 تک بڑھ کر 4۔1 بلین تک بڑھ چکی ہے۔ اور پچھلے چار سال میں اور بھی کئی لاکھ گاڈیوں کا اضافہ ہوا ہوگا۔ جو پچھلی ایک صدی کے مقابلے میں ہزاروں گنا زیادہ ہے۔ 1920 کی دہائی میں ہندوستان میں ایک اندازے کے مطابق صرف چند ہزار تھی، جو اب بڑھ کر 300 ملین تک پہنچ چکی ہے۔ بڑے شہروں جیسے دہلی، ممبئی، بنگلور، اور چنئی میں گاڑیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ جموں و کشمیر میں ایک سو سال پہلے گاڑیوں کی تعداد چند سو کے قریب تھی اور پچھلی ایک صدی میں یہ تعداد بڑھ کر تقریبا 20 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔
پچھلی ایک صدی میں دنیا کے تقریبا سارے ممالک میں گھر اور دیگر عمارتیں کچی ہوتی تھی اور زیادہ تر عمارات کے چھت گھاس یا مٹی کے بنے ہوتے تھے۔ اور ایک صدی گذر جانے کے بعد اب سارے گھر کنکریٹ کے ہیں، چھتیں کنکریٹ اور ٹین کی ہیں۔ یہی حال ہندوستان اور ہماری ریاست جموں و کشمیر کا ہے۔ کل ملاکر اب یہ صورت حال بنتی ہے ہے کہ نصف جنگلات کا صفایا ہوچکا ہے۔ آبادی پانچ گنا بڑھ چکی ہے, زمین آہستہ آہستہ صحرا میں تبدیل ہورہی ہے۔ آبگاہیں گناہ گاہوں میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ جس قدر بھی سورج کی گرمی زمین کی طرف آتی ہے وہ کنکریٹ, اسٹیل اور سنگلاخ سطح سے ٹکراکر اور بھی شدید اضافے کے ساتھ کرہ باد میں چلی جاتی ہے۔ نتیجے کے طور گلیشیر پگھل رہے ہیں اور پورا کرہ ارض گرم سے گرم ترین ہورہا ہے۔ اللہ عز و وجل کا قائم کردہ واٹر سائیکل حضرت انسان نے “پیسہ سائیکل” میں بدل دیا ہے۔
مولوی اور پنڈت آج بھی جدید دور میں لفظ “گناہ” کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ اور دور جدید کے سب سے بڑے گناہ “مادہ پرست انسان” کو اشرف المخوق گردانتا ہے۔ ایسا اشرف المخلوق جو اپنے آپ کو ایک پریشر کوکر یا اسٹیمر میں پنھساکر جائے نماز پہ بیٹھا دعائیں کر رہا ہے کہ اے اللہ مجھے گرمی اور سردی سے نجات دلادے۔ عنقریب اسٹیمر یا پریشر کوکر پھٹے گا اور کائنات بِگ بینگ غبارے میں واپس سمٹ جائے گی۔ اللہ بڑا غیرت مند ہے۔ وہ اپنی سُنت تبدیل نہیں کرتا۔
ای میل۔ [email protected]