چلے آؤ کہ کرگل کا ترانہ پھر سے ہو جائے
مجھے یاروں سے ملنے کا بہانہ پھر سے ہو جائے
نئی تازہ برف ہر سو گری کیا خوبصورت ہے
نکل آؤ گھروں سے تم نظارہ پھر سے ہو جائے
تخیل کا سماں چھایا طبیعت پھر مچل اُٹھی
غزل کے تیر سے کوئی نشانہ پھر سے ہوجائے
کبھی گر کرسنبھل جائیں سنبھل کر پھر لڑھک جائیں
وہ بچپن کی طرح کوئی تماشا پھر سے ہو جائے
ٹھٹھرتے ہاتھ پاؤں میں وہ بجلی گر چلی جائے
لب و رخسار جمنے کا فسانہ پھر سے ہو جائے
سسک اٹھتی فضا ہر پل لگے جیسے کوئی نشتر
کوئی مضبوط جینے کا قرینہ پھر سے ہو جائے
وطن سے دور بیٹھا ہوں بڑی خاموش بستی میں
کسی شاعر کا محفل میں ترانہ پھر سے ہو جائے
کھلے ہیں باب ماضی کے مجھے فاروقؔ سربستہ
ادھوری اس کہانی کا نمونہ پھر سے ہو جائے
ڈاکٹر ابو الیفہ فاروق قاسمی
اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ عربی یونیورسٹی آف لداخ
موبائل نمبر؛9797295005