کرونا وائرس جس نے پوری دنیا پر قیامت صغرہ برپا کردی اور گزشتہ دو سالوں میں لاکھوں لوگوں کی قیمتی جانیں اس وبائی مرض کی نذر ہوگئیں۔اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ ابتدائی دور میں اس کرونا نامی وبائی بیماری کو اکثر لوگ بیماری تصور ہی نہیں کرتے تھے۔لیکن جوں جوں اس نے اپنا گہراثردکھایا اور لوگ اس بیماری سے متاثر ہوکر بے بسی کے عالم میں اپنی جانیں گنوانےلگے، تب انہیں احساس ہوا کہ کرونا حقیقت میں انتہائی خطرناک بیماری ہے۔اوائل میں اس بیماری کا کوئی علاج منظر عام پر نہیں آیا لیکن بہت جلد متعدد ممالک کے ساتھ ساتھ ہندوستان نے بھی کرونا کے خاتمے کے لئے ویکسین تیار کی اور اب تک پورے ملک میں 18 سال سے زائد عمر کے لگ بھگ ہر فرد کو یہ ویکسین لگائی جا چکی ہے۔
کرونا کی پہلی لہر جس زور سے پھیلی اسکے مد مقابل دوسری لہرانتہائی خطرناک رہی تھی۔لیکن اس لہر کے آنے تک ہندوستان نے کرونا کی ویکسین تیار کر لی تھی۔ اس وبائی بیماری نے لاکھوں گھروں کے چراغ بجھا دیئے تھے۔ ہر طرف خوف ہی خوف کا ماتم تھا۔ملک میں اس وبائی مرض کے دوران آکسیجن کی کمی کی وجہ سے لوگ ہسپتالوں میں دم توڑ گئے تھے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اگرچہ دوسری لہر میں ایک لاکھ افراد موت کے شکار ہوئے تھے لیکن غیر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق کم از کم دس لاکھ افراد لقمہ اجل بنے۔
دوسری لہر کے خاتمے کے بعد لوگوں نے قدرے راحت کی سانس لی تھی اور تباہی کے دہانے پر پہنچے کاروبار ایک بار پھر شروع ہو رہے تھے کہ اچانک اومی کرون کی شکل میں کرونا کی تیسری لہر نے ملک میں دستک دے دی ۔ جس کے بعد دوبارہ سے کئی لوگوں کی موت واقع ہوچکی ہے۔ملک کی تمام ریاستوںمیں اس وبائی بیماری نے ایک بار پھر زور پکڑا تھا۔ واضح رہے کہ ڈی ڈبلیو نیوز کے مطابق ملک میں اس بیماری سے مرنے والوں کی اب تک کی مجموعی تعداد 4 لاکھ 82 ہزار ہوچکی ہے۔ یہ اعداد اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اس بیماری نے ملک میں تباہی مچادی۔کرونا کی تیسری لہر کے آتے ہی جنوری کے اوائل میں قومی راجدھانی دہلی اور مضافات میں ویک اینڈ لاک ڈاون لگایا گیاتھا۔ جس کے بعد تقریبا تمام ریاستوں میں اس کا نفاذکیا گیا۔
جہاں ملک کے دوسرے حصوں میں کرونا کی تیسری لہر کا خوف ہے وہیں جموں کشمیر میں بھی ایک بار پھر اس وبائی بیماری نے دستک دی ۔اگرچہ ضلع پونچھ کی بات کی جائے تو گزشتہ دو سال سے یہاں کی عوام اس وبائی بیماری سے جھوج رہی ہے۔ یہاں کے تعلیمی ادارے بند ہیں۔ لوگوں کا کاروباری نظام درہم برہم ہوچکا ہے۔کرونا کی پہلی اور دوسری لہر کے بعد لوگوں نے دوبارہ اپنے کاروبار شروع کئے ہی تھے اور معمولات زندگی بحال ہوہی رہی تھی کہ اچانک کرونا وائرس کی تیسری لہر آگئی۔اگرچہ دوسری لہر کی طرح یہاں کیسیز میں اتنی تیزی نہیں ہے لیکن اسکے باوجود بھی ہفتے کے آخری دنوں میں لاک ڈاون لگنے کی وجہ سے نظام زندگی مفلوج ہوگئی ہے۔جس قدر بیوپاری لوگ اس وبائی بیماری میں متاثر ہوئے ہیں، اس سے کئی زیادہ مزدوروں پر قیامت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہیں۔زمینی سطح پر لوگوں سے انکے تاثرات جاننے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ لوگوں میں کرونا نامی اس بیماری کا خوف اب بھی برقرار ہے۔
پونچھ کے ایک رہائشی دکاندار عبدالمجید کا کہنا ہے کہ ’’کرونا وائرس کی اس بیماری کے دوران ہمیں کاروبار میں شدید نقصان ہوا ہے۔دکانیں بند رہنے کی وجہ سے ہمارے کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں اور ہمیں خوف ہے کہ یہ کرونا کی تیسری لہر کہیں ہمیں ایک بار پھر مصیبت میں نہ ڈال دے۔‘‘ پونچھ کی تحصیل منڈی سے تعلق رکھنے والے مختار احمد کہتے ہیں کہ ’’ہم مزدوری کی خاطر بیرون ریاست جاتے تھے تاکہ اپنے بچوں کا پیٹ آسانی کے ساتھ پال سکیں۔ لیکن گزشتہ دو سالوں سے ہماری مزدوری بند ہو چکی ہے کیونکہ کرونا نے ہمیں خوف میں مبتلا کررکھا ہے۔ ہم کسی قسم کا خطرہ مول نہیں لیناچاہتے ہیں‘‘ مختار جیسے ہزاروں مزدور ایسے ہیں جو موسم سرما میں مزدوری کی خاطر ہماچل پردیش،پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں میں جاتے تھے تاکہ اپنے گھر کے اخراجات برداشت کرسکیں۔لیکن اب وبائی بیماری کی وجہ سے ان لوگوں کا گھر سے باہر نکلنا مشکل ہو چکا ہے۔‘‘اس تعلق سے ضلع ہسپتال پونچھ میںتعئنات ڈاکٹر خلیق انجم نے بتایا کہ ’’کرونا وائرس کے لئے اگرچہ ویکسین تیار کی گئی ہے اور لوگوں نے یہ ویکسین لگوائی بھی ہیں۔لیکن اس کے باوجود عوام کو اس وبائی بیماری سے احتیاط برتنے کی اشد ضرورت ہے۔ ماسک کا استعمال اور احتیاطی تدابیر سے ہی انسان اپنی جان محفوظ رہ سکتا ہے۔ انہوں نے عوام سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اس وبائی بیماری سے خود کو بھی اور اپنے اہل خانہ کو بھی محفوظ رکھنے کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔‘‘
الغرض کرونا نامی وبائی بیماری اب سماج میں گھر کرچکی ہے اور اس سے بچاؤ کے لیے ہمیں اپنے آپ کو محفوظ رکھنا لازی ہے ۔بھلے ہی تسری لہر میں جانی نقصان کم ہوا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ بیماری ختم ہو چکی ہے۔اگر ہم نے احتیاطی تدابیر میں تھوڑی بھی نرمی دکھائی اور ماسک و سماجی دوری پر عمل نہیں کیا تو دوسری لہر سے بھی زیادہ سنگین نتائج بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔
����������������