قسط : 2
اس لیے احتیاطی تدابیر سے کام لیں۔ یہی ایک صورت ہے ہم ’تیسری دنیا‘‘ کے پسماندہ شہریوں کو بچنے کی۔ تدبیر غیر فطری ہے نہ غیر اسلامی حرکت بلکہ انبیاء کی سنت اور قرآن کا مزاج ہے۔ مصر میں قحط کا دور آنے والا تھا تو وقت کے بادشاہ کو اللہ نے تمثیل کے پیرائے میںبذریعہ خواب اُس کی اطلاع دی اور قحط کے اثرات سے محفوظ کیسے رہا جائے، وہ تدبیر بھی اُسی خواب میں اُس ’مشرک‘بادشاہ کو اللہ نے سجھائی۔ جس پر وقت کے پیغمبر حضرت یوسفؑ نے عمل کر کے دکھایا۔ تدبیر ہمارے مذہبی شعور کا حصہ ہے۔ رسول اللہؐ نے اپنی زندگی میں اس کی تعلیم دی۔ توکل کے صحیح مفہوم کو واضح کیا۔ متعدی بیماریوں سے محفوظ رہنے کی راہ سجھائی۔ ایک کوڑھ مریض شخص بیعت کرنے کے لیے تشریف لائے تو رسول اللہ ؐ نے دور سے انہیں فرمایا کہ ’تیری بیعت ہم نے لے لی، آپ وہی سے واپس لوٹ جائیں۔‘ مریض کو تندرست شخص سے دور رکھنے کا حکم دیا۔بارش کے زمانے میں جب کہ صرف مدینہ میں کیچڑ زیادہ تھا، کوئی وائرس لاحق ہونے کا خطرہ نہیں تھا۔ اس کے باوجود حضرت بلالؓ کو اذان میں ’صلو فی رحا لکم‘(نماز گھروں میں ادا کرو) کی صدا بلند کرنے کا حکم دیا۔ تحفظِ جان مقاصدِ شریعت میں سے ہے۔ جو دین راستے سے ایک پتھر، کانٹا یا دیگر تکلیف دہ چیز ہٹانے کو صدقہ قرار دے، حالانکہ ان چیزوں سے گمانِ غالب ہے کہ بس ٹھوکر لگ کر معمولی زخم آجائے، وہ دین یہ کیسے برداشت کرے گا کہ ہماری وجہ سے کسی بھی ذی نفس انسان کی جان پر بن آئے؟ سماجی روابط، مذہبی اجتماعات اور احتیاطی تدابیر کے بغیر آوا جاہی سے اگر ماہرین کا خیال ہے کہ یہ وائرس عام ہو کر ہلاکت کا سبب بن رہا ہے تو یہ کیسی جہالت اور پستی ہے کہ ہم پھر بھی اپنے اندر اس چیز کا احساس پیدا نہیں کر رہے۔
خود کو گھروں میں محدود کریں۔ ہمارا مذہبی اور اخلافی فرض بنتا ہے کہ اس وقت اپنے ماہرین کی تجاویز کو ’نواجز‘ سے پکڑیں اور دل سے اُن پر عمل کریں۔Travel Historyہو تو خود آگے آکر انتظامیہ کو آگاہ کریں۔ اس سے ہم خود کو اور اپنے خاندان کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ ڈاکٹرز کا ماننا ہے کہ جو بھی ’کورونا وائرس‘ میں مبتلا ہوتا ہے اس کے ٹھیک ہونے کے 97 فی صد چانسز ہیں۔ اس لیے بروقت علاج کی طرف بڑھیں اور باقی لوگوں کوبھی محفوظ رکھیں۔
کشمیر نے اس سے بڑھ کر lockdown ، کرفیو اور کریک ڈائونز دیکھیں ہیں۔ چار چار، سات سات مہینہ، گلیوں، چوراہوں، نکڑوں پر پہرا رہا ہے۔ موبائل، ٹرانسپورٹ اور انٹرنیٹ کے بغیر بھی مہینوں’زندگی‘ جی لی ہے۔ ہمیں تو حکمرانوں کی ’مہربانی‘ سے اس کی عادت ہے۔ اِس وقت بس اپنے لیے، اپنے بچوں اور والدین کے لیے خود اختیاری قرنطینہ(Quarentine) میں چلے جائیں۔ تنہا رہیں، گھروں میں رہیں۔آپ اپنے گھروالوں کے لیے قیمتی سرمایہ ہو۔ تنہائی بھی ایک نعمت ہے۔ ہمارے اسلاف نے نظریہ وفکراورعلم و عمل کے میدان کبھی کبھی تنہا رہ کر ہی سر کیے ہیں۔ فی الوقت بقائے زندگی اسی سے وابستہ ہے۔ گھر میں محدود رہ کر بھی ہم مثبت نتائج اخذ کر سکتے ہیں۔ تقدیر کا یہی فیصلہ ہے ، ہمیں چاہیے کہ اس کا احترام کریں۔
رسالتمآبؐ مکہ کی آبادی سے تین میل دور’حرا‘ نامی غار میں کئی سال کبھی کبھی تنہارہ کر ہی فکر و عمل کی گمراہی کا علاج دریافت کرنے جاتے تھے۔ امام ابوحنیفہؒ اور امام احمد بن حنبلؒ نے جیل کی تنہائی میں رہ کر بھی فقہ کے بیشتر عقدے حل کیے۔ امام جعفر صادقؒ نے بھی تنہائی میں ہی فقہ کی گتھیاں سلجھائیں۔ امام سرخسیؒ نے ’المبسوط‘ تیس جلدوں میں ’اوزجند‘‘ کے گمنام کنویں میں رہ کر ہی املا کرائی۔ یہ کتاب فقہ حنفی کے مستند مأخذ میں شمار ہوتی ہے۔ ازاں جملہ’سرح السیر الکبیر‘ اور ا’اصول السرخسی‘ بھی قید کی تنہائی میں ہی آپ نے مرتب کی۔ علامہ ابن تیمیہؒ نے بھی جیل کی دیواروں سے ’قرطاس‘ کا کام لیا اور کوئلے سے ’قلم‘ کا۔ شیکسپیرؔ نے بھی خود اختیاری ’قرنطینہ‘ میں رہ کر دنیا کو شاہکار ڈرامے دیے۔ ہمارے صوفی بزرگ شیخ نوردین نورانیؒ نے آبادی سے کنارہ کش ہوکردین وملت کی خدمت کی۔شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی نے چار سال مالٹا کی جیل میں گزار کر امت کی زبوں حالی کی وجہ دریافت کی۔ محمد علی جناح نے رات کی تاریکی میں تنہا رہ کر پاکستان کے نقش میں رنگ بھرا اور آزادی کے منصوبے بنائے۔ آنجہانی گاندھی جی نے بھی آزاد ہندوستان کے لیے کئی جیل ’یاترائیں‘ کیں اور وہاں اُس تنہائی سے مثبت اثرات اخذ کیے۔ سر سید احمد خان بھی شب بیدار رہ کر بردرانِ قوم کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے منصوبے بناتے رہے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے’ تفہیم القرآن‘ کا بیشتر حصہ ملتان جیل میںرقم کیا۔ مولانا ابو الکلام آزادؔ نے تفسیر کا کچھ حصہ اور خطوط نگاری پر مبنی اپنی ادبی شاہکار ’غبارِخاطر‘ جیل کی کال کوٹھری میں ہی ثبت کیے۔ فیض احمد فیضؔ نے چند مشہور نظمیں لاہور میں قید و بند رہ کر ہی لکھیں اور ’ امر‘ ہو گئیں۔ فیض ؔکا ’زنداںنامہ‘اور’دستِ صبا‘جیل کی ہی یادگارہے۔مولاناحسرت موہانیؔ،مولانامحمدعلی جوہرؔاورسردارجعفری ؔنے بھی زنداںکی تنہائیوںاوروہاںکی سختیوں کو برداشت کرکے لوح وقلم کی پرورش کی۔حبیب جالبؔ نے ضیاء الحق کے خلاف جیل کی تنہائی میں رہ کر ہی’احتجاجی ادب‘ کو نکھارا۔ غرض ان سب نابغہ روزگار ہستیوں نے اپنی ’تنہائی‘ کو مثبت رُخ دے کر قوم و ملت کی خوب خدمت کی۔ کشمیر اور پوری دنیا کے لوگ بھی اس وقت اپنے ان محسنوں کے نقشِ قدم کی اتباع کرکے، وقتی تنہائی اختیار کرکے زیست کی ’جنگ‘ میں فتح کے جھنڈے گاڑ سکتی ہے۔ ہمیں بھی چاہئے کہ اپنی اس تنہائی سے تعمیری سوچ اوراعمال کوپروان چڑھائیں…اس کے ساتھ ساتھ:
۱۔ نمازوںکی پابندی کریںچاہے گھرمیںہی ہو۔
۲۔ د عامیںپوری دنیاکے انسانوںکویادرکھیں۔مسنون دعائوںکابھی وردکریں۔
۳۔ استغفاروتوبہ ہر وقت کامعمول بنائیں۔
۴۔ قرآن کی تلاوت وتفسیرکامطالعہ روزکریں۔بچوںکوبھی ترغیب دیں۔
۵۔ خودبھی اوربچوںکوبھی کتاب کامطالعہ کرنے پراکسائیں۔
۶۔ ان حالات میںاپنے گھروالوںکوزیادہ سے زیادہ وقت دیں۔خوف،مایوسی اورناامیدی سے خودبھی باہرآئیںاورانہیںبھی ان سے نکالیں۔
۷۔ اندرونِ خانہ ہی جوکھیل آپ کھیل سکتے ہوں،اس کے لئے بھی وقت نکالیں۔
۸۔ دوسروںکاتمسخر،ہنسی مزاق اڑانا،چاہے دوست ہویادشمن ایک اخلاقی گراوٹ ہے،اس سے اجتناب کریں۔
۹۔ آس پڑوس کے غریب،مفلوک الحال گھروںکویادرکھیںجوان حالات میںکچھ کمانہیںسکتے،اپنے بچوںکوکھلانہیںسکتے۔ان کی معاونت آپ کی،ہم سب کی مذہبی ذمہ داری ہے۔
۱۰۔ اورگھروںمیںہی رہیں،محفوظ رہیں۔اپنااوراپنوںکاخیال رکھیں۔یہ یادرکھیںکہ ’یہ دوربھی گزرجائے گا۔‘