محمد شاہد محمود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتاب: دھندلے عکس(ناول)
ناول نگار : کرن عباس کرن ؔ
پبلشر: پریس فار پیس فاؤنڈیشن (یو کے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرن عباس کرن ؔ صاحبہ کا ناول دھندلے عکس پڑھنے کا موقع ملا ۔ افسانہ نگاری ، ناول نگاری اور کہانی نویسی میں فنِ مصوری سے مستعار لی گئی کئی ایک اصطلاحات موجود ہیں۔ مصوری کی فرانسیسی اصطلاح “مونٹیج” عموماً فلم سازی اور ناول نگاری میں استعمال کی جاتی ہے۔ زیر نظر ناول مونٹیج تکنیک کی مثال ہے۔ جبکہ ناول فلسفہ ، نظریات ، صوفی ازم اور روحانیت کا امتزاج ہے۔ تشبیہات کا استعمال سہل انداز میں خوبصورتی کے ساتھ اس طرح نظر آ رہا ہے جو گراں نہیں گزر رہا۔ناول کی ابتداء تقریباً سوا صفحات پر مشتمل فلیش بیک میں کی گئی ہے ، یہ نومبر سن دو ہزار بیس کا دور ہے۔ناول کا پہلا حصہ ، یہ دور مارچ سن دو ہزار دس سے شروع ہو رہا ہے۔ناول کا دوسرا حصہ سن دو ہزار پندرہ سے شروع کیا گیا ہے ، اس بار مہینے کا نام نہیں لکھا گیا۔ناول کا تیسرا حصہ سن دو ہزار بیس سے شروع کر کے ماضی کو حال سے ملایا گیا ہے۔ افسانوی اسلوب مدنظر رکھتے ہوئے ناول ، من و عن طویل افسانہ نگاری بھی شمار کیا جا سکتا ہے۔
ناول پڑھنے کے دوران ہینری فیڈرک کا قول یاد آتا ہے :”وہ شخص جس کے اندر اپنی کوئی دنیا نہیں بستی ، وہ ماحول کا غلام ہے۔”یہ ایسے ہی کرداروں کی کہانی ہے جو ماحول کے غلام نہیں ہیں۔ بلکہ ان کے اندر جہاں آباد ہیں۔ایک اور نقطہء نظر سے دیکھا جائے تو ہر اک انسان ایک مکمل کائنات ہے۔ کچھ ایسے ہیں جو اپنی کائنات تسخیر کرنے میں سرکرداں دور نکل جاتے ہیں ، تب مائیکل اینجلو جیسے لوگ جنم لیتے ہیں۔ مائیکل اینجیلو کسی بھی دور میں پیدا ہو سکتا ہے اور اپنے بنائے مجسمے کے پاؤں پر ہتھوڑا مار کر کہہ سکتا ہے کہ بول ، بولتا کیوں نہیں ؟
بارش کسی کی جان ہے تو کسی کے لیے وبالِ جان ہے۔ کہانی اسی منظر کے ساتھ شروع کی گئی ہے۔ اسراء ایسا کردار ہے جسے پکار کر یا دستک دے کر متوجہ کیا جا سکتا بصورت دیگر وہ خیالات میں کھوئی رہتی ہے۔ دیگر فلسفوں کے ہمراہ صفحہ اڑتیس پر الفاظ کا فلسفہ خوبصورت ہے ، بلا شبہ الفاظ اثر انداز ہوتے ہیں۔ الفاظ گالی کی شکل میں ہوں تو غصہ دلاتے ہیں ، سریلے گیت کی صورت میں الفاظ جھومنے پر مجبور کرتے ہیں ، اظہار رائے الفاظ کی محتاج ہے۔ الفاظ شادی کے وقت دو لوگوں کو رشتہء ازدواج میں جوڑتے ہیں تو طلاق بھی الفاظ کی مرہونِ منت ہے۔ جو رشتے یا لوگ الفاظ کے محتاج نہیں ہیں ، الفاظ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ کہانی میں زخمی پرندے کی مذکورہ پینٹنگ ایک فرضی فرشتے کی علامت ہے۔ اس فرضی فرشتے کے نام مختلف عقائد کے مطابق مختلف ہیں۔ لیکن لفظی اصطلاح “گرا ہوا فرشتہ” کی ہے۔ بطور سزا اس فرشتے کے پر نوچ لئے گئے تھے۔ کتاب دی سیکریٹ دنیا کی بیسٹ سیلر بک ہے ، رہونڈا بیرن کی کتاب دی سیکریٹ میں لہروں اور سوچ پر بات کی ہے اور سائنٹفکلی ثابت کیا گیا ہے۔ زیر نظر ناول میں اسی طرح کی مثبت باتیں پڑھی جا سکتی ہیں۔
صفحہ اکتالیس پر لکھا ہے :انسان زمین پہ خدا کا خلیفہ ہے۔ ہر انسان کو اللہ نے اپنی کسی نہ کسی صفت سے نوازا ہے۔نائب اسے مقرر کیا جاتا ہے جس میں بادشاہ کی تمام صفات پائی جائیں ، نا کہ رعایا سے ایسے الگ الگ لوگ ڈھونڈ کر نائب مقرر کئے جاتے ہیں کہ جن میں بادشاہ کی کوئی نہ کوئی صفت موجود ہو۔ ہر انسان اللہ کا نائب مقرر ہے۔ لہٰذا ہر انسان میں وہی صلاحیتیں ہیں جو خالق میں ہیں۔ یہی بات درجِ بالا جملوں سے قبل کچھ یوں لکھی گئی ہے کہ دنیا کے بیشتر انسان اپنی پہچان نہیں کر پاتے ، عین بمطابق ہے یعنی صفات کا ہونا لیکن پہچان نہ پانا یا صفات کے الٹ چلنا ہے۔ پہلے حصے کے اختتام پر اور اس کے بعد کرن عباس کرن ؔ صاحبہ نے شاعرانہ ذوق کا اظہار بھی کیا ہے۔
ایک مختصر پیرا گراف نقل کرنا چاہوں گا ، دوسرا حصہ صفحہ باسٹھ:”ان کے گھر میں ہر ہفتے ایک نشست رکھی جاتی ، جس میں وہ روح کے راز یوں کھول کر بیان کرتے کہ جو بھی آتا سیر ہوئے بغیر نہ جاتا۔”
ناول میں شامل خطوط اور پلاٹ میں ایک مزید کہانی جو سن پندرہ سو پچاس کے پس منظر میں ہے ، دلچسپی کا باعث بن رہی ہے۔ سیکڑوں برس قبل کی ایک لڑکی کا حالیہ دور میں آ کر خوابوں میں ملنا ناول کا خاصہ ہے۔ ناول میں ایک لڑکی کے انتقال بعد اس کی ڈائری پڑھی گئی ہے۔ ڈائری کی کہانی بظاہر الگ ہے لیکن دو کہانیاں آپس میں ملا رہی ہے۔ ناول شب دیگ کی طرح ہے جو دھیمی آنچ پر ساری رات رکھی جاتی ہے۔ ناول اس خمار کی طرح ہے جو دھیرے دھیرے چڑھتا ہے۔ زمانہ حال میں موجود دو لوگ ایک ہی ہال میں تھے ، لیکن ان کے درمیان فاصلہ سات سو سال کا تھا۔ ناول کا پلاٹ بظاہر دس برسوں کا احاطہ کر رہا ہے لیکن صدیوں پر محیط ہے۔ کرن عباس کرن ؔ صاحبہ اور آپ کے تخلیقی سفر کے لئے نیک خواہشات۔
<[email protected]