کرناہ کا سرکاری شعبہ صحت ہی بیمار

 سرینگر // دور دراز علاقوں میں مریضوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے کے دعویٰ کے بیچ اکثر علاقوں میں ماہر ڈاکٹروں کی عدم دستیابی ایک سنگین مسئلہ بنی ہوئی ہے ۔ کرناہ سب ضلع ہسپتال میں ماہر ڈاکٹروں کی شدید قلت کے نتیجے میںمریضوں کو کپوارہ اور سرینگر کے ہسپتالوں کا رخ کرنا پڑ رہا ہے ۔ ہسپتال میں اس وقت کوئی بھی امراض خواتین کا  ماہرڈاکٹر موجود نہیں ہے اور نتیجے کے طور پر پچھلے ایک ماہ کے دوران حاملہ خواتین کو علاج ومعالجہ کیلئے وادی کے ہسپتالوں کو رخ کرنا پڑا ہے ۔قابل ذکر ہے کہ ہسپتال میں پچھلے 26برس سے ایک ہی امراض خواتین کاماہر ڈاکٹر کام کر رہا ہے اس ڈاکٹر نے اگرچہ کئی بار خود سوزی کی دھمکی دیتے ہوئے محکمہ صحت سے تبادلے کا مطالبہ کیا کہ اُسے 26برس بعد یہاں سے تبدیل کیا جائے یا پھر ہسپتال میں کوئی متبادل ڈاکٹر فراہم کیا جائے لیکن سرکار اور محکمہ صحت کی عدم توجہی کے نتیجے میں اس جانب کوئی دھیان نہیں دیا گیا ۔ایک ماہ قبل مذکورہ ڈاکٹر چھٹی پر ہے اور ہسپتال کا کام مکمل طور پر مفلوج ہو کر رہ گیا ہے اور لوگوں کے غضب کا سامنا وہاں موجود عملے کو بھگتنا پڑھ رہا ہے ،یہی نہیں بلکہ ہسپتال میں بنیادی سہولیات کے فقدان اور ماہر ڈاکٹروں کی عدم دستیابی کے نتیجے میں حالیہ دنوں ڈاکٹر محمد یوسف نے بلاک میڈیکل افسر کے عہدے سے استعفیٰ پیش کیا جس کے بعد محکمہ ہیلتھ نے بلاک میڈیکل افسر ٹنگڈار کی چارج ڈاکٹر پرویز احمد کو دی لیکن ڈاکٹر پرویز نے بھی یہ عہدہ لینے سے انکار کیا اب اگرچہ ہسپتال میں بلاک میڈیکل افسر کے فرایض ڈاکٹر شفیق احمد نبھا رہے ہیں لیکن انہیں بھی ماہر ڈاکٹروں کی عدم دستیابی کے نتیجے میں لوگوں کے غضب کا سامنا ہے ۔ہسپتال میں موجود ایک سینئر ڈاکٹر نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ جب بھی ہسپتال سے کسی حاملہ خاتوں کو سرینگر یا پھر کپوارہ علاج ومعالجہ کیلئے سرینگر منتقل کیا جاتا ہے تو اُن کے اہل خانہ ہسپتال میں اس وجہ سے ہنگامہ کرتے ہیں ۔انہوںنے کہا کہ نئے بلاک میڈیکل افسر نے ہسپتال میں اچھا نظام بنایا ہے لیکن جب ماہر ڈاکٹر ہی نہیں تو اُس کی پوری محنت پر بھی پانی پھر جاتا ہے ۔محمد اقبال لون نامی حاجی ناڑ کرناہ کے ایک شہری نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ ایک ہفتہ قبل دردزہ میں مبتلا اُس کی اہلیہ کو سب ضلع ہسپتال ٹنگدڑار علاج ومعالجہ کیلئے لایا گیا تھا جہاں ڈاکٹر نے اُس کا الٹر ساونڈ کرنے کے بعد اُسے سرینگر کے لل دید ہسپتال پہنچانے کا مشورہ دیا۔اقبال کے مطابق کرناہ سے 200کلو میٹر دو جب اُسے سرینگر لل دید ہسپتال لایا گیا تو وہاں ڈاکٹروں نے اُس کا الٹرساونڈ کرنے کے بعد اُسے یہ کہہ کر گھر واپس بھیج دیا کہ زچہ بچہ دونوں ٹھیک ہیں ۔اقبال کے مطابق اس لاپروہی کے نتیجے میں نہ صرف اُس کے ہزاروں روپے ضائع ہوئے بلکہ پورے گھر کے افراد کو بھی زہنی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ہسپتال میں ماہر ڈاکٹروں کی عدم دستیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں بچوں کا کوئی بھی ماہر ڈاکٹر دستیاب نہیں ہے اور اگر کوئی بچہ اس دوران بیمار ہو جائے تو اُسے بھی سرینگر یا پھر کپوارہ لایا جاتا ہے ۔ مقامی لوگوں کے مطابق پورے کرناہ میں محکمہ صحت میں عملے کی کمی ایک سنگین مسئلہ ہے اور کرناہ سب ضلع ہسپتال جس پر 80ہزار آبادی کا دادومدار ہے یہاں ، 2سرجن ڈاکٹر 2فزیشن دو ماہر امراض خواتین دو بچوں او رایک ماہر امراض چشم کا ڈاکٹر ہونا ضروری ہے کیونکہ سرما کے موسم میں جب برف باری کی وجہ سے علاقہ ضلع ہیڈکواٹر سے کٹ جاتا ہے تو اس بیچ ہسپتال میں ڈاکٹروں کی کمی کی وجہ سے بیمار گھٹ گھٹ کر دم توڑ دیتے ہیں ۔لوگوں کامحکمہ صحت نے کرناہ کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑا ہے ۔لوگوں نے گورنر انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ اس علاقے کی جانب دھیان دے کر یہاں ماہر ڈاکٹر تعینات کئے جائیں تاکہ لوگوں کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔