کرب وبلا کی یاد میں

آ ج شہا دت امام عالی مقام حضرت حسین رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کی منا سبت سے دنیا بھر میں مختلف مذ ہبی تقاریب تز ک و احتشام کے ساتھ منعقد کی جا تی ہیں۔ دس محرم سنہ ہجری ۶۱ میں پیغمبر اسلام صلعم کے نوا سے اما م عا لی مقامؓ نے میدان کر بلا میں حق وصداقت کی جوت جگا تے ہو ئے جوسر فرو شا نہ قربا نیا ں دین ِ حق کی سر بلندی کے لئے پیش کیں ،تا ریخ انسا نیت آج بھی اشکبا ر آنکھو ں سے ان پر ما تم ہی نہیں کر تی بلکہ فخر و عقیدت کے ساتھ ان کے تئیں سلام بھی پیش کر تی ہے ۔ وادی ٔ کشمیر کے عقیدت مند بھی آ ں جنابؓ کے حضور میں خراج عقیدت پیش کر نے کے ضمن میں ہر سال عزا داری کے جلو س جابجا نکا لتے ہیں۔ ان ما تمی جلوسوں میںمر ثیہ خوا نی اور سینہ کو بی کر کے عزادار امام حسینؓ اور آ پ کے جا نثا ر اہل بیت کے تئیں اپنی محبتو ں کا بے محابہ اظہا ر کرتے ہیں ۔ گو وادی کے طول و عر ض میں یہ خا لص مذہبی تقاریب آرام سے منعقد ہو تی ہیں لیکن بد قسمتی سے سری نگر میں انتظامی مشنری بقول اس کے امن شکنی کے ڈر سے سول لا ئنز میںما تمی جلو سوں پر مما نعت عاید کر نے کی عادی ہو چکی ہے ۔ چناں چہ محر م الحرا م کی آ ٹھ تا ریخ کو سر ینگر کے سول لا ئنز میںقد غنیںنافذ کرکے عزا داری کا جلوس پو لیس نے تتر بتر کر نے کے ضمن میں ٹیر گیس شیلنگ ،لا ٹھی چا رج ، ما دھاڑ اورعزاداروں کی گر فتا ریا ں عمل میں لا کر اسی دیرینہ روایت کا تسلسل بر قرار رکھا۔ اس بے ہودہ روایت کی آبیا ری تقریباً گز شتہ تین دہا ئیوں سے اربابِ اقتدار کر رہے ہیں ۔ حسب سابق اس بار بھی عزاداروں کو بزور با زو ما تمی جلوس نکا لنے سے روک دیا گیا ۔ ان کے خلاف طا قت کا غیر ضروری استعمال کیا گیااور تشدد کا استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ متعدد عزاداروں کو جرم بے گنا ہی کی پا داش میں بر سر مو قع حراست میں لیا گیا۔ ظا ہر سی با ت ہے کہ ان اشتعال انگیز کا رروائیوں سے شہا دت حسین رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کا ما تم منا نے والے تما م مسلما نو ں کے جذبا ت کو دیدودانستہ مجروح کر کے چھو ڑا گیا۔ ایسا نا قابل فہم طرز عمل صرف مذ ہبی آ زادی کے آئینی تصور کے منا فی ہی نہیں بلکہ اگر اسے حکو مت کے نا قدین مدا خلت فی الدین کانام دیتے ہیں تو ان کو جھٹلا نا واقعی خلاف حقیقت با ت ہو گی ۔19ستمبرکو سرینگر کے سول لائنز میں ما تمی جلو س کو روکنے، اُسےمنتشر کر نے کے لئے طاقت کا استعمال کرنے، یا سول لائنز اور اسکی متصل حدود میں آ نے والے 9 تھا نو ں میں سخت گیرا نہ نا کہ بندی نا فذ کر نے کے لئے چو ک چورا ہو ں میں کا نٹے دارتار بچھا نے سے عام را ہ گیروں کوآ زادانہ چلت پھرت سے محروم کرنااورگا ڑ یو ں کی نقل و حر کت رو کنے جیسے اقدامات قا نو ناً درست ہوسکتے ہیں لیکن نہ کو ئی دستور وآ ئین نہ کو ئی ضابطۂ اخلا ق اور نہ تہذیب و شرافت کی بنیا دی قدریں اس با ت کی اجا زت دیتی ہیں کہ کو ئی انتظا می مشنری امکانی یا فرضی نقص امن کی صورت حا ل کا مردا نہ وار مقابلہ کر نے سے گریز کر کے عوام کو مفت میں یر غمال بنائے۔یہ طر یق کا رکسی کار گر اور مو ثر ایڈ منسٹریشن کے شا یا ن ِ شان ہے نہ یہ کسی مسئلے کا تیر بہدف حل قرار پا سکتا ہے ۔ کیا ابھی تک ار با ب بست وکشاد یہ کھلی حقیقت سمجھنے سے قا صر ہیں کہ ہر سال یو م عا شو رہ کی مبا رک آ مد سے قبل ہی سرینگر کے زیر بحث علا قے میں ڈنڈے اور اشک آور گو لے استعما ل کر نے سے نارملسی کے دعو ے کھو کھلے اور بے معنی ہو کر رہ جا تے ہیں؟ جب امن کی بنیاد اتنی نا قابل بھرو سہ ہو کہ عزاداری کے جلو س بھی اس کے تن نا زک پر کوہ ہما لیہ سے زیا دہ بھا ری پڑیں تو پوچھا جا سکتا ہے کہ یہی ایڈ منسٹریشن کس جا دو ئی چراغ سے ہر سال یہا ں دیگرمذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے جلوسوں اوریاترائوں کی بحفا ظت آمدورفت ممکن بناتی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ انتظا میہ کے دو ش بدوش ان تقاریب خاص کر امرناتھ یاترا کے دوران نا زک تر ین حالا ت میں بھی اہل کشمیر نے ہر ممکن سہو لت بہم پہنچا نے میں اپنا تعا ون پیش کر نے میں بخل سے کا م نہ لیا تو آخرعزاداروں کا سرا پا غم وجود سرینگر کے سول لا ئنز علا قے میں امن کی دیو ی  کے لئے سا لہا سال سے وبا ل جان کیوں بن رہا ہے؟ یہ ایک حو صلہ افزا ء امر ہے کہ وادی ٔ کشمیر میں شیعہ سنی مسا لک کے درمیان روایتی بھا ئی چا رہ اوراتحا د اخوت اسلامی کے جو ش و جذ بے کے ساتھ مستحکم بنیادوں پر پروان چڑ ھ چکا ہے ۔اگرچہ ماضی میں اس اتحاد کو نقصان پہنچانے کی سرتوڑ کوششیں کی گئیں،لیکن بیدار مغز عوام نے اُن سازشوں کو کار گر ہونے سے پہلے ہی دفن کردیا، کیونکہ گذ شتہ تین دہائیوں  سے دو نو ں مسا لک  کے لو گ یکسا ں طور نا مسا عدحا لا ت کی چکی میں پسِ کر ایک دوسرے کے سکھ دکھ میں والہا نہ جذبو ں کے ساتھ شر یک و سہیم رہے ۔ اس لئے ان کے ما بین کدورتو ں اور منا فرتوں کا جب کو ئی وجو د ہی نہ ہو تو خو اہ مخواہ کسی فرضی خو ف سے لر زا ں و ترسا ں انتظا میہ کس منطق کے تحت سا لہا سال سے سر ی نگر کے سو ل لا ینز ایر یا میں ماتمی جلو سو ں کے اہتما م سے ڈر تی ہے؟ یہ ایک معمہ ضرور ہے ۔ با یں ہمہ اس با ت سے انکا ر کی مجال نہیں ہو سکتی کہ وادی ٔ کشمیر میں امن و قا نو ن کے حا لا ت کبھی بھی کو ئی بھی کروٹ لینے میں زیا دہ دیر نہیں لگتی۔ اس حقیقت کو نظر اندا ز کر نے کا رسک بھی نہیں لیا جا سکتا۔ زیا دہ سے زیا دہ اس سلسلے میں حفظِما تقدم کے طور احتیا طی تدابیر کی جا سکتی ہیں۔ اس کے اُلٹ میں پو لیس کوعزاداروں کا زد وکوب کر نے کے لئے با ر با ر میدا ن میں جھو نکنا قرین عقل و انصاف نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عا شورہ کے حو ا لے سے سر ی نگر کے تما م دوسرے علا قو ں کی ما نند سول لا ینز میں بھی شیعہ مسلمانو ں کے ما تمی جلوسوں کا پر امن انعقاد کر نے میں قانونی اڑ چنیں پیدا کر نے کی منفی روا یت کو خیر با د کہاجا ئے ۔