سوال :اگر خوامخواہ والدین ناراض ہو جائیں اور اپنی اولاد کے ساتھ سخت رویہ اختیار کریں ،چاہے وہ بیٹا ہو یا بیٹی ۔۔۔اس صورت میں کیا کرنا چاہئے؟
محمد عباس ۔کولگام
بچوں کو غلطیوں سے دور رکھنے کا طریقۂ کار
جواب : حقیقت یہ ہے کہ عام طور پر والدین اپنے بچوں سے بلا وجہ ناراض نہیں ہوا کرتے ۔وہ عموماًبچے کی کسی ایسی غلطی پر ناراض ہوتے ہیں ،جس غلطی کو بچہ غلطی سمجھتا نہیں۔اس لئے وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ یہ خوامخواہ ناراض ہورہے ہیں۔دراصل والدین کے لئے یہ بڑی نازک ذمہ داری کا معاملہ ہےکہ وہ بچے کی صحیح تربیت کریں،اس تربیت میں اگر بچے کی غلطی کی اصلاح کرنے کا معاملہ ہو تو بہت نرمی اور شفقت سے پہلے اس غلطی کو واضح کریں اور اُس غلطی کے نقصانات اُس کے سامنے لائیں،اور اُس غلطی کے سدھار کے فائیدے بتائیں پھر نرمی اور محبت سے اُس غلطی کو دور کرنے کی ترغیب دیںاور تلقین کریں۔جو بچے اُس غلطی سے بچ گئے ہوں ،اُن کی مثالیں دیں اور پھر سدھار کے لئے دعا بھی کریں۔اگر بچے نے غلطی کا سدھار کرلیا تو بہت تحسین کریں اور اس پر بہت حوصلہ افزائی کریں،بلکہ اُسے کچھ انعام دیں اوربار بار خوشی ظاہر کریں۔اگر اُس نے غلطی کا سدھار نہیں کیا تو سختی نہیں کرنی چاہئے ،ڈانٹ ڈپٹ اور سخت کلامی ہرگز نہ کریں،البتہ بہت شفقت ،محبت اور درد مندی سے اُس کو پھر دوبارہ سمجھائیں اور بار بار سمجھائیں۔بچوں سے بلا وجہ ناراض ہونا تو والدین کی شفقت پدری کے منافی ہے، البتہ جس وجہ کی بنا پر والدین ناراض ہوں ،اگر وہ وجہ بچوںکے سامنے نہ آئے اور اُن کو یہ باور نہیں کرایا گیا کہ ناراضگی کی وجہ تمہاری کون سی غلطی ہے تو وہ ناراضگی مزید خرابیوں کا ذریعہ بن سکتی ہے۔اس کے ساتھ ہی بچوں کو یہ بات اچھی طرح سےاپنے ذہن میں بٹھانی چاہئے کہ خوامخواہ ناراض ہونا تو والدین سے بہت بعید ہے ۔ہوسکتا ہے کہ میں اُس غلطی کو سمجھ نہ پارہا ہوں یا اُس غلطی کو غلطی ماننے کے لئے آمادہ نہ ہوں اور اُلٹا میرے ذہن میںشیاطین نے یہ ڈالا کہ والدین بلا وجہ ناراض ہیں۔مثلاً آج کل بکثرت بچے موبائل کے غلط استعمال میں مبتلا ہیں یا فضول خرچی ،فیشن اور کپڑوں وغیرہ میں دوسروں سے مقابلہ آرائی اور نمود و نمائش کے خبط میں مبتلا ہیں اور جب بچے اس غلطی کا تدارک نہیں کرتے تو والدین ڈانٹ ڈپٹ کے بجائے دل ہی دل میں کڑھتے ہیں اور ساتھ ہی بچے سے خوش نہیں رہتےاور ان کا کبیدہ خاطر رہنا برحق ہوتا ہے۔ مگر نادان بچے سمجھتے ہیں کہ یہ خوامخواہ ہم سے ناراض ہیں ۔بس اس حدیث پر جواب کااختتام ہے،حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ کی خوشی والدین کی خوشی میں ہے اور والدین کی ناراضگی میں اللہ کی ناراضگی ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:(۱) موجودہ دور میں مستورات کی دینی تربیت کی کوئی خاص تجویز بتائیںکیونکہ موجودہ دور میں وہ مسجد نہیں جاسکتیں۔گھروں میں بھی تربیت کا کوئی خاص نظام نہیںاور مدرسہ بھیجنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں،اور ہمارے یہاں درسگاہ تو ہے لیکن کوئی مقامی معلمہ نہیں ہے۔
سوال :(۲) امام صاحب کا وضو ٹوٹ گیا،اگر وہ جہری نماز پڑھا رہا ہے اور سورت پڑھ رہا ہے ،اب جو مقتدی اس کی جگہ آئے گا ،اگر وہ سورت اُس کو یاد نہیں ہوگی تو وہ کیا کرےگا،اسی طرح اگر امام صاحب سری نماز پڑھا رہا ہو تو وہ کیا کرےگا؟
محمد شفیع ۔سوپور
بچیوں کی دینی تربیت والدین اور سماج کی اہم ذمہ داری
اصول، احتیاط اور مناسب طریقۂ کارلازم
جواب۔:۱خواتین کی دینی تربیت و تعلیم اُمت کا اہم ترین مسئلہ ہے اور اس میں غفلت برتنے کے سنگین نتائج سامنے آتے ہیںاور آئندہ بھی زیادہ بُرے نتائج سامنے آنا ممکن ہیں۔بچیوں کی دینی تعلیم و تربیت کی پہلی ذمہ داری والدین کی ہے۔وہ جس طرح اپنی بچیوں کی عصری تعلیم کے لئےسخت فکر مند ہوتے ہیں اور اچھے سے اچھے سکول میں پڑھانے کی کوشش کرتے ہیں،اُسی طرح جب دینی تعلیم و تربیت کے لئے فکر مند ہونگےتو ضرور اس اہم ضرورت کا حل بھی نکلے گا ۔پہلا کام یہ ہے کہ اپنے گھر میں دین کی بنیادی تعلیم کا انتظام کریں،چاہے گھر کی کوئی خاتون پڑھائے یا پڑھانے والا باہر سےآئے،مگروہ محرم ہو۔دوسرے ہر محلہ میں مکتب قائم کئے جائیںاور یہ محلے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کیلئے دو مکاتب قائم کریں۔طلبا کے لئے الگ اور طالبات کے لئے الگ۔پھر طالبات کے لئے معلمات کا انتظام کرنا پورے محلے والوں کی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو پورا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ مسجد کی انتظامیہ ہی مکتب کا انتظام سنبھالے،یا محلے میںالگ سے مکتب کی انتظامیہ کھڑی کی جائے۔وہ جگہ ،معلم اور معلمہ کا انتظام کرے۔معلم اور معلمہ کا تقرر ،تنخواہ اور معائنہ انتظامیہ کی ذمہ داری ہوگی۔اگر یہ نہ ہو تو ہر باپ اپنی بیٹی ،ہر بھائی اپنی بہن اور ہر شوہر اپنی زوجہ کے لئے کسی دیندار ،قابل اور تجربہ کار خاتون سے آن لائن پڑھانے کا انتظام کرےاور ویب سائٹوں پر جو معتبر ،مستند اور مکمل دیندار خواتین بچیوں کے پڑھانے کا کام کرتی ہیں ،اُن سے استفادہ کیا جائے۔ایسی ویب سائٹس جن کے ذریعے درست قرأت ،ضروری مسائل اور خواتین کی تربیت سے متعلق امورتفصیل سے بتائے جاتے ہیں اور دینی ذہن بنایا جاتا ہے،اُن سے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ساتھ ہی بچیوں کی تربیت کے متعلق ضروری ہے کہ کم از کم تین چیزوں سے سخت پرہیز کرائیں،ہر نامحرم لڑکے سے دوری قائم رکھنا چاہئے ،وہ ماموں زاد ،خالہ زاد ،پھوپھی زاد ،چاچا زاد ہی کیوں نہ ہو۔دوسرے موبائیل کے غلط استعمال سے دور رکھنا ،تیسرے فلموں ،ڈاموں سے دور رکھنا اور بے دین خواتین سے دور رکھنا ۔ان امور کے اپنانے سے امید ہی نہیں یقین ہے کہ خواتین خصوصاً بچیوں کی تعلیم و تربیت کا کام مفید ہوگا ۔
دوران ِ نماز امام کا وضو ٹوٹ جائے تو۔۔۔؟
جواب:(۲) امام کا وضو ٹوٹ جائے تو وہ مقتدی حضرات میں جو مناسب تر شخص ہو ،اُسی کو اپنا نائب بنائے،پھر یہ نائب آگے کی نماز پڑھائے۔اگر سورہ فاتحہ کے بعد اتنی قرأت ہوچکی ہو ،جس سے نماز درست ہوجاتی ہے ،جس میں تین چھوٹی آیات ہوں تو اب یہ نائب آگے رکوع کرے،اگر اتنی قرأت نہ ہوئی ہو تو پھر اس کو اختیار ہے کہ جو سورت پڑھنا چاہے اُسے اختیار ہے۔کوئی مقررہ سورت لازم نہیںاور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ جو سورت امام صاحب پڑھ رہے تھےوہی سورت یہ بھی پڑھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال : مقروض کس صورت میں زکوٰۃ لینے کا مستحق بن سکتا ہے؟
محمد رفیق ۔بارہمولہ کشمیر
کیا مقروض زکوٰۃ لینے کا مستحق ہے؟
جواب :جو شخص مقروض ہو اور اُس کے پاس الگ سے اتنی رقم نہ ہو کہ وہ قرض ادا کرسکے ،نہ اُس کے پاس سونا چاندی اتنا ہو کہ وہ قرض کی رقم منہا کرکے صاحب نصاب ہو ،تو اس شخص کو زکوٰۃ لینے کی اجازت ہے۔اگر کسی کے پاس قرض کی مقدار کم کرنے کے بعد بقیہ رقم اتنی ہو ،تو اُس کو زکوٰۃ لینا جائز نہیں۔اسی طرح اگر کسی کے پاس رقم تو نہ ہومگر گاڑی ،اسکوٹر ،مہنگا سیل فون ،قالین وغیرہ مہنگی اشیا ہوں تو اُس کو بھی زکوٰۃ لینا صرف اس وجہ سے جائز نہیں کہ اُس پر قرضہ ہے۔اگر کسی کا اچھا ذریعہ ہو تو صرف بنک کے قرض کی بنا پر اس شخص کو زکواۃ لینا جائز نہ ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :کیا وضو سے پہلے استجا کرنا ضروری ہے ۔اس مسئلے کی وجہ سے کشمیر میں بہت کنفوژن ہے۔برائے کرم وضاحت فرمائیں۔
سجاد احمد ۔خیار بانڈی پورہ
وضو اور استنجاءکی ضرورت
جواب :وضو سے پہلے استنجاءصرف دو صورتوں میں ہے اور وہ یہ کہ اگر کسی نے پیشاب کیا یا بیت الخلا کی ضرورت پوری کی ہو تو ان دو صورتوں میں پہلے استنجاءکرنا ضروری ہے ،پھر وضو کرنا ہوگا ۔اگر ان دو صورتوں کے علاوہ کسی اور وجہ سے وضوٹوٹ گیا ہو ،مثلاً ہَوا خارج ہوگئی یا نیند پڑگئی ہو،تو ان صورتوں میں صرف وضو کرنا ہوگا ،استنجاءکرنے کی ضرورت نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :کیا راستے میں پڑی ہوئی کوئی تکلیف دہ چیز جیسے کیل،میخ اُٹھانا اور پھر اسے اپنے لئے استعمال کرنا درست ہے؟ یا اسے کہیں پھینک دینا بہتر ہے؟
راستے میں اُٹھائی ہوئی چیز کا استعمال
جواب :راستے میں گری پڑی چیز اگر قابل استعمال اور قابل استفادہ ہو تو پھر ضائع کرنا درست نہیں،بلکہ استعمال کرنا بہتر ہے۔اب اگر کسی غریب شخص کو دے دی جائےتو بہت بہتر ،اور اگر خود اپنے استعمال میں لائے تو یہ بھی بہتر ہے تاکہ ضائع ہونے سے بچ جائے۔ساتھ ہی یہ نیت کرے کہ جس کی یہ چیز ہے اُسے اس کا ثواب مل جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال۱۔ایک لڑکی شادی کے دو سال بعد فوت ہوگئی مگراپنے پیچھے کوئی اولاد نہیں چھوڑی اُس کی وراثت میں ماں ، باپ کی طرف سے دیا ہوا جہیز اور مہر کی رقم ہے۔ اس کے خاوند نے دوسری شادی کر لی ہے اب وارثان میں متوفیہ کے ماں باپ،بھائی اوربہنیں ہیں ۔از روئے شریعت اس ورثے میں کس وراث کو کتنا حصہ ملے گا۔
سوال۲۔راقم نے ایک یتیم لڑکی کی پرورش اپنی بیٹی کی طرح کی بلکہ یوں سمجھیں کہ اپنی بیٹی ہی بنا لیا۔ اچھی تعلیم تربیت کی تعلیم و تربیت کے دوران اپنی اصل رقم کے ساتھ ساتھ عشر و زکوٰۃ کی رقم بھی مذکورہ بچی پر خرچ کی ۔مذکورہ بچی اس گھر کو اب اپنا گھر سمجھ کر اپنی کمائی ہوئی رقم خرچ کرتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اسکایہ رقم خرچ کرنامیرے لئے جائز ہے۔ قرآن سنت کی روشنی میں جواب … فرمائیں؟
ایک شہری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سرینگر
لاولد خاتون کی وراثت کی تقسیم
جواب۱۔فوت ہونے والی خاتون کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ اس لئے اس کا مہر، زیورات میکے اور شوہر کی طر ف سے دیئے گئے ہدایا اور تحائف سب کو جمع کیا جائے۔ پھر اُس جمع شدہ مجموعہ میں سے نصف اُس کے شوہر کو اور تیسر احصہ اُس کی والدہ کو اور بقیہ اُس خاتون کے والد کو دیا جائے۔ قرآن کریم میں وراثت کے سہام اسی طرح بیان کئے گئے ہیں ملاحظہ ہو۔سورہ النساء رکوع(۲) جس میں شوہر اور والدین کے حصہ وارثت کا بیان ہے۔
پروردہ شخص کا اپنے پرورش کرنے والے پر خرچ کرنا غلط نہیں
جواب۲۔یتیم بچی کی پرورش اپنی بیٹی کی طرح کرنے پر یقیناً اللہ کی رضا اور دنیا و آخرت میں اجر و انعام ملنے پر توقع کامل ہے۔ اب جب وہ بالغ ہوگئی ہے اور خود بھی کمانے لگی ہے تو اگر وہ اپنی رضا و خوشی سے اپنی کمائی میں سے کوئی رقم پرورش کرنے والے شفیق فرد پر خرچ کرے اور اس خرچ کرنے میں اُس پر کوئی جبر و زیادتی نہ ہو تو شرعاً اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔البتہ اس کی کمائی کے ذرائع کیا ہیں۔ یہ دیکھنا ضروری اور لازم ہے۔
اگر بے پردگی کے ساتھ اجنبی مردوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے اختلا ط پایا جاتا ہے تو اس طرح کمائی کرنا غیر شرعی عمل ہے۔