سوال: رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اس مقدس مہینے میں اہل ایمان نمازوں اور روزوں کا جو خصوصی اہتمام کرتے ہیں وہ سب پر واضح ہے یہی وجہ ہے کہ عموماً رمضان میں مساجد زیادہ آباد ہوتی ہیں۔ اور روزوں کی وجہ سے پورے ماحول میں جو خوشگوار نورانی اثرات پیدا ہوتے ہیں وہ بھی مشاہدہ ہے۔مساجد یوں تو پورے رمضان کی ہر نماز میں نسبتاًمعمور ہوتی ہیں لیکن صبح اور شام میں مساجد میں عبادات کی رونق دوبالا ہوتی ہے لیکن موجودہ وبائی بیماری کی وجہ سے جو بندشیں ہیں اس کی بناء پر بہت سارے سوالات پیدا ہوگئے ہیں۔ اس لئے اختصار کے ساتھ عرض یہ ہے کہ اگلے ہفتے میں شروع ہونے والے رمضان المبارک کے مہینے کا نظام کیا ہوگا؟ نمازوں کی ادائیگی کیسے ہوگی؟ جماعت کی نماز کے مسائل کیا ہونگے؟ تراویح کے ادائیگی کے لئے کیا ترتیب قائم کی جائے گی؟ سحری اور افطاری کے متعلق کیا احکامات ہونگے؟ یاد رہے کہ طبی صورتحال کی بناء پر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایات ہر اس جگہ دی جارہی ہے جہاں اس وبائی بیماری کے اثرات پائے جا رہے ہیں۔ اس طرح ہمارے اس خطے میںبھی یہی صورتحال ہے۔ اس لئے درخواست یہ ہے کہ درج بالا مسائل کے متعلق واضح رہنمائی فرمائی جائے۔
اعجاز احمد خان، بمنہ سرینگر
کورونا وائرس کی پیداکردہ بحرانی صورتحال
ماہ رمضان میں جماعت وتروایح کا اہتمام اور طبی ہدایات پر عملدرآمد
شریعت کی روشنی میں مسائل کا حل
جواب:اسلامی علوم میں ایک اہم ترین علم ’’ علمِ مقاصد شریعت‘‘ بھی ہے۔ اس علم میں احکام دینی کی مصالح ، اسرار اور وجوہات کا بیان ہوتا ہے۔ یعنی اسلام میں اگر کسی چیز کا حکم دیا ہے تو اس حکم کے پیچھے مصلحتیں کیا ہیں اور اگر کسی چیز کو حرام قرار دیا ہے تو اس کوحرام قرار دینے کی وجہ کیا ہے۔ اس علم میں بنیادی طور پر یہ بتایا جاتا ہے کہ شریعت اسلامیہ کا مقصود انسان کی پانچ چیزوں کا تحفظ ہے۔ ان پانچ چیزوں میں سے ایک اہم ترین چیز انسان کی صحت ہے۔ چنانچہ بہت سارے احکام انسان کی صحت کی حفاظت کے لئے ہی مقرر کئے گئے ہیں مثلاً تمام منشیات کے حرام ہونے کی اہم ترین وجہ یہی ہے کہ اس سے انسانی صحت کو یقینی طور پر شدید نقصان پہنچتا ہے۔ چونکہ انسانی صحت کا تحفظ شریعت کے مقاصد میں سے ہے اس لئے اس تحفظ کے لئے اگر احکام میں تخفیف کی ضرورت پیش آئے تو بلا تامل تخفیف کر دی جاتی ہے۔ بلکہ بعض جگہ حکم ہی بدل دیا جاتا ہے۔ اسی اصول کی بناء پر موجودہ وبائی بیماری کے نتیجے میں شریعت اسلامیہ کی دی ہوئی رخصتوں کا فائدہ اٹھایا گیا اور جماعت کی نماز اور جمعہ مساجدوں کے باہر پڑھنے کی اجازت دی گئی۔ یہ اجازت جیسے رمضان کے علاوہ کے ایام کے لئے ہیں اسی طرح رمضان شریف کے ایام کے لئے بھی ہے۔ بلکہ جم غفیر سے روکنے کے لئے ترغیب اور تلقین کے ساتھ شریعت کا حکم یہ ہے کہ اپنے آپ کو بھی اور دوسروں کے لئے بھی اس وائرس سے بچنے اور بچانے کے لئے ان احکام پر عمل کیا جائے۔
موجودہ وبائی بیماری کے پھیلاؤ کا بڑا سبب تمام ماہرین کے رائے کے مطابق اور عمومی تجربہ کی بناء پر یہی ہے کہ یہ بیماری ایک دوسرے کے میل جول کے نتیجہ میں پھیلتی ہے ۔یہ ملنا جلنا جہاں بھی پایا جائے وہاں متاثرہ شخص سے دوسرے افراد کے اندر اس کے جراثیم منتقل ہونے کے تقریباً یقینی خطرات ہوتے ہیں، اس لئے اس سے بچاو کی ایک اہم ترین تدبیر اختلاط اور ملنے جلنے کو کم سے کم کرنا ہے ۔اس صورتحال میں رمضان المبارک کے متعلق درج ذیل احکام پر عمل کیا جانا چاہیے:
(۱) تمام بالغ مرد اور عورتیں اہتمام اور ایمانی جذبے کے ساتھ روزوں کا اہتمام کریں۔ اس میں ہرگز کوئی کوتاہی نہ کریں اور اس حکم کو بوجھ بھی نہ سمجھا جائے۔ ہاں جو لوگ واقعتاً روزہ رکھنے سے معذور ہوں اور شریعت اسلامیہ نے ان کو روزہ قضا کرنے کی رخصت دی ہو، وہ اس کا فائدہ اٹھا ئیں مگر رمضان کی بے حرمتی کرتے ہوئے کھلم کھلا کھانے پینے سے اپنے گھروں میں بھی پرہیز کریں۔
(۲) گھروں کے اندر فرض نمازوں کے ساتھ نفل نمازوں کا بھی خوب اہتمام کیا جائے۔ نفل نمازوں میں تہجد کی نماز کم سے کم دو رکعت زیادہ سے زیادہ بارہ رکعت ، اشراق کی نماز دو رکعت یا چار رکعت، چاشت کی نماز آٹھ رکعت یا بارہ رکعت اور اوابین کی نماز چھ رکعتیں اور اس کے علاوہ کسی بھی وقت صلاۃ الحاجت دو رکعت یا اس سے زیادہ جتنی پڑھ سکیں ادا کرنے کا اہتمام کریں۔ نیز قرآن کریم کی تلاوت اور صبح و شام کی تسبیحات اوراد و وظائف تعدادی اضافہ کے ساتھ ادا کی جائے۔
(۳) مسا جد میں اذان اور جماعت پورے اہتمام سے قائم رکھی جائے مگر نمازیوں کی تعداد کم سے کم ہو۔ چنانچہ امام، موذن اور دو تین آدمی مزید شامل ہو کر جماعت کی نماز ادا کریں۔ بقیہ تمام حضرات اپنے اپنے گھروں میں جماعت کی نمازیں ادا کریں۔ گھروں میں اپنے گھر کی خواتین کے ساتھ جماعت قائم کرنا درست ہے۔ اس طرح جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کا اجر برقرار رہے گا۔ اس سے زائد افراد مسجد میں آنے کی کوشش نہ کریں۔ اس لئے کہ یہ ان تمام احتیاطی تدابیر کے خلاف ہے جو تدابیر اس وائرس سے بچنے کے لئے مقرر کی گئی ہیں۔
(۴) مساجد کی انتظامیہ باقاعدہ مشورہ کر کے سحری اور افطاری کے اوقات میں اعلانات کرنے ، وقت پر اذانیں پڑھنے کا مضبوط نظام بنائیں۔ اور جس آدمی کو یہ ذمہ داری سونپی جائے وہ بہت اہتمام اور چستی کے ساتھ ٹھیک وقت پر اختتام سحر اور وقت افطار کا اعلان کرے۔ تاکہ گھروں میں موجود لوگوں کا روزہ خراب ہونے سے محفوظ رہے۔ خصوصی طور پر مساجد کے مؤذن حضرات کے کندھوں پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اذان فجر اور اذان مغرب کو صحیح وقت پر ادا کرنے کا اہتمام کریں۔ حدیث میں ہے: الموذن موتمن (ترمذی) اور مساجد کے منتظمین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی سختی کے ساتھ نگرانی کریں کہ وقت پر اذانیں ہوں اور صحیح وقت پر سحری اور افطاری کا اعلان ہو۔ دراصل پوری بستیوں کی نمازیں اور روزوں کا درست ہونا انہی اعلانوں کے درست وقت پر ہونے پر موقوف ہے اگر ان میں کوتاہی ہوئی تو روزوں کے خراب ہونے کا خطرہ ہے۔
(۵) مساجد میں جو افراد نماز پڑھنے کے لئے آئیں گے وہ صفائی کی وہ تمام تدابیر لازماً اختیار کریں جس کی تلقین ڈاکٹروں کی طرف سے کی جا رہی ہے۔ اور مساجد میں بھی جراثیم کش ادویات کا استعمال اہتمام سے کیا جائے۔
(۶) مساجد میں جو حضرات نماز کی ادائیگی کے لئے مقرر ہوں وہی حضرات اہتمام کے ساتھ تراویح بھی ادا کریں گے۔ تراویح کی نماز میں اگر کوئی حافظ قرآن مہیا ہو اور وہ تراویح میںمکمل قرآن کریم پڑھنے کا اہتمام کرے تو امید ہے کہ یہ سنت پورے محلے کی طرف سے ادا ہو جائے گی۔ اور اگر کسی مسجد میں حافظ کا انتظام نہ ہو سکا تو حسب معمول تراویح چھوٹی سورتوں کے ساتھ ادا کی جائے۔ جس کو یہاں کے عرف میں سورہ تراویح کہتے ہیں۔ یعنی سورہ فیل (الم تر) سے اخیر تک کی سورتیں پڑھی جائیں۔
(۷) جو نمازی رمضان المبارک میں تراویح کے اندر مکمل قرآن کریم سننے کا شوق رکھتے ہیں اور پورا قرآن سننے کا معمول بھی ہے اور ان کا یہ معمول پہلے سے چلا آرہا ہے وہ جب مساجد کی تراویح میں شریک نہ ہو سکیں گے تو ان کو قرآن کریم تراویح میں سننے سے محروم ہونے کا افسوس ہوگا۔ اس کا بہتر حل یہ ہے کہ شوقین حضرات اپنے گھر کے اندر تراویح میں قرآن سننے کے لئے کسی حافظ کا انتظام کریں۔ پھر چاہے وہ حافظ پورے مہینے قرآن کریم سناتا رہے یا ہمت کے مطابق مہینے سے پہلے ہی ختم قرآن کرے جیسا کہ بہت سے شوق رکھنے والے دس دن میں، چھ دن میں اور بعض تین دن میں بھی ایک ختم قرآن کرتے ہیں۔ جس کا مشاہدہ خود یہاں کشمیر میںبھی ہر رمضان میں ہوتا ہے اس طرح تراویح میں پورا قرآن سننے کی سنت بھی ادا ہو جائے گی اور گھروںمیں بھی رحمتیں اور برکتیں نازل ہونگی، انشاء اللہ۔
(۸) موجودہ وبائی صورتحال میں جبکہ اکثر وقت گھروں میں گذر رہا ہے تو وقت کو بے فائدہ اور بیکار ضائع کرنے کے بجائے اگر نمازوں میں صرف کیا جائے تو اس سے بہتر کیا ہوگا۔ جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن ایام میں مسجد میں تراویح ادا فرمائی تھی ان ایام میں پوری رات نمازیں پڑھی گئیں جیسا کہ حدیث کی کتابوں میں صراحت ہے۔ اب آج کی اس صورتحال میں جبکہ بیکار رہتے ہوئے بھی انسان تنگ آتا ہے اور وقت پاس کرنے کے مشغلے ڈھونڈتا ہے اس سے بہتر کیا ہوگا کہ ہم رات کا اکثر حصہ نمازوںمیں گذاریں۔ بلا شبہ قیام اللیل کی کامل مکمل ترتیب یہی ہے کہ رات کا کچھ حصہ تراویح میں گذرے اور اخیر شب کا کچھ حصہ تہجد میں گذرے۔ اور اس کے بعد خوب دعائیں کی جائیں۔ چنانچہ حدیث میں ہے اللہ تعالی شانہ اخیر شب میں پہلے آسمان پر اپنے شان عالی کے مطابق نزول اجلال فرماتے ہیں۔ اور اعلان ہوتا ہے کہ کون مانگنے والا ہے؟ وہ مانگے ہم عطا کریں گے۔ کون مغفرت چاہنے والا ہے؟ وہ مغفرت مانگے ہم بخش دیں گے۔(بخاری ، مسلم، ترمذی)
(۹) رمضان المبارک میں عموماً جمعہ کے دن بھی مساجد کے اندر کثیر ہجوم ہوتا ہے لیکن موجودہ صورتحال میں مساجد اس رونق سے خالی رہیں گی۔ اور لوگ اپنے گھروںمیں نماز پڑھنے پر مجبور ہوں گے اس لئے اپنے گھروں کے اندر ہی جمعہ کی نماز یا ظہر کی نماز ادا کرنی ہوگی جمعہ کی نماز صرف ان ہی جگہوں پر ادا کر سکتے ہیں جہاں پہلے سے جمعہ قائم ہے۔ یعنی وہ قصبات اور بڑے گاؤں جہاں جمعہ کسی ایک یا ایک سے زائد مسجدوں میں قائم ہے اور موجودہ صورتحال میں مساجد کے اندر جمعہ پڑھنے نہیں آسکتے تو ایسی بستیوں میں گھروں کے اندر جمعہ پڑھنے کی اجازت ہے۔ اس کے لئے شرط یہ ہے کہ کوئی خطبہ پڑھنے والا ہو اور کم از کم تین نمازی ہوں اور گھر کا دروازہ کھلا رکھ کر جس کو شریعت میں اذنِ عام کہتے ہیں جمعہ ادا کیا جائے۔ نیز محلوں کے اندر جو چھوٹی مساجد ہیں ان میںبھی کم تعداد کے نمازیوں کے ساتھ جمعہ پڑھ سکتے ہیں۔ لیکن جن بستیوں میں پہلے سے جمعہ قائم نہیں ہے اور وہ جمعہ کی ادائیگی کے لئے آس پاس کے کسی قصبے یا بڑے گاوں میں جاتے تھے وہ اپنے گاوں میں جمعہ کے دن مسجدوں میں اذان کے ساتھ ظہر کی نماز ادا کریں۔ لیکن مساجد میں محدود افراد ہی جمع ہوں۔ جن قصبات اور شہروںمیں لوگ اپنے گھروںمیں نماز ادا کریں گے اگر وہ جمعہ کے دن جمعہ کی نماز کے بجائے ظہر کی نماز ادا کریں تو یہ بھی درست ہے۔ البتہ گھروںمیں اذان پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مسجد کی اذان پورے محلے یا پورے گاوں کے لئے کافی ہے۔ البتہ جن گھروںمیں جمعہ پڑھا جائے تو خطبے کی اذان پڑھ کر پھر خطبہ پڑھا جائے۔
(۱۰) اختلاط اور میل جول سے دور رکھنے کے لئے تاکہ اس بیماری کے پھیلنے کے خطرات کم سے کم ہوں مساجد میں نمازیوں کی تعداد اتنی کم کر دی گئی کہ اکثر نمازی مساجد کی نمازوں سے محروم ہو رہے ہیں اور جو پابندی اور اہتمام کے ساتھ مسجدوں میں نماز ادا کرتے تھے وہ شدید قسم کا انقباض اور تشنگی محسوس کرتے ہیں اور یہ تشنگی اور احساس محرومی ایمان کا تقاضہ بھی ہے مگر کھیل کے میدانوں میں، دکانوں پر، گلیوں میں، چوراہوں پر اور باغوںمیں اور کہیں کہیں گھروںمیں بھی پڑوسی اکھٹے ہو ہو کر وقت گذار رہے ہیں۔ اگر رمضان المبارک کے مقدس ایام میں بھی اسی طرح گذارنے کا ماحول رہا تو اللہ کی طرف سے رحمتوں کے بجائے مزید غضب نازل ہو سکتا ہے۔ اس لئے جیسے مساجد میں جم غفیر کا اجتماع جماعت اور جمعوں کے لئے روکا جا رہا ہے اسی طرح سے دیگر مقامات خصوصاً دکانوں پر بلا ضرورت جمع ہونا اور چوک چوراہوں پر صرف تبصروں کے لئے اور بے فائدہ گفتگو میں مشغول رہنے کے لئے کھڑا رہنا اس بیماری کے پھیلاو کا سبب بن سکتا ہے ۔ اس لئے اس سے بھی احتیاط کیا جائے۔
(۱۱) اگر مساجد میں زیادہ لوگوں کے آنے کا اصرار ہو اور اس کی وجہ سے اختلاط اتنا زیادہ ہو جائے جو ان احتیاطی تدابیر کے خلاف ہے جو اس وائرس کے پھیلاو سے بچانے کے لئے ضروری ہے تو مساجد کی انتظامیہ تعداد کی حد بندی کرنے کی خود ذمہ دار ہوگی۔ اس کا ایک حل یہ بھی ہے کہ مساجد میں متعدد جماعتیں کی جائیں اور ایک جماعت اول وقت میں اذان کے متصلاً بعد ادا کی جائے پھر دوسری جماعت اس کے نصف گھنٹے کے بعد قائم کر سکتے ہیں مگر یہ حل فجر، ظہر اور عصر میں ہی قابل عمل ہے مغرب اور عشاء میں اس پر عمل کرنا مشکل ہے مساجد میں اگر یہ حل اپنایا گیا تو اس کے لئے ضروری ہے کہ جب پہلی جماعت ادا کرنے والے واپس اپنے گھر پہنچ چکے ہوں اس کے بعد دوسری جماعت ادا کرنے والے مسجد میں آئیں اور مسجد کی دوسری منزل میں دوسری جماعت ادا کریں اور اگر مسجد میں دوسری منزل نہ ہو تو پہلی منزل میں امام اول کی جگہ چھوڑ کر دوسری جماعت ادا کر لیں۔ اس دوسری جماعت کے لئے اذان اور اقامت ضروری نہیں ہے۔
(۱۲) جس طرح سے گھروں میں لوگ دو دو چار کی تعداد میں رہتے ہیں اور بڑے گھرانوں میں اس سے زیادہ تعداد کے افراد رہتے ہیں اسی طرح دفاتر میں ، ہسپتالوں میں، بڑی دکانوں میں بھی کئی کئی افراد رہنے پر مجبور ہیں یا جو لازمی سروسز ہیں ان کو جاری رکھنا ضروری ہے۔ اور اس میںبھی متعدد افراد کا ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح مساجد میںبھی اسی کے بقدر تعدا د نمازیوں کی ہو تو اس میں کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ اس لئے مساجد کو مکمل طور پر مقفل کر دینا اور اذان اور جماعت پر بھی پوری طرح پابندی لگانا عقل و فہم کے لئے اسی وقت قابل قبول ہوگا۔ جب مذکورہ مقامات میں بھی اس پر عمل کیا جائے اور یہ ممکن نہیں ہے۔ اس لئے جو تعداد گھروں میں موجود ہے یا دوسرے مقامات پر ہیں اتنی ہی تعداد انہیں احتیاطوں کے ساتھ جو طبی طور پر لازم ہے اگر مسجدوں میں آئے تو یہ کوئی قابل اعتراض عمل نہیں۔ اس طرح مساجد بھی آباد رہیں گی اور تحفظ صحت کی ضرورت بھی پوری ہوگی۔ واللہ اعلم
سوال:کرونا وائرس کی وجہ سے چونکہ مسجد میں نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ کیا گھر کے افراد جماعت کے ساتھ گھر میں تراویح کی نماز ادا کرسکتے ہیں؟
سوال:عورتوں کے لیے تراویح کی نماز کا کیا حکم ہے؟کچھ عورتیں تھکاوٹ کا بہانہ بنا کرصرف عشاء کی نماز ادا کرتے ہیں۔کیا یہ صحیح ہے؟
بلال احمد ڈار ریسرچ سکالر مولانا آزاد یونیورسٹی
تراویح کی ادائیگی خواتین کیلئے بھی سُنت
ترک ِسُنت ہر گز دُرست نہیں
جواب:(۱) گھروںمیں جو جماعت ادا کی جائے اس جماعت میں گھر کی خواتین یقینا شامل ہو سکتی ہیں اس میں فرض نماز کی جماعت بھی ہے اور تراویح بھی۔ لہذا موجودہ صورتحال میں جب مرد گھروںمیں جماعت ادا کریں تو خواتین بھی اس جماعت میں ضرور شامل ہو سکتی ہیں۔
(۲) تراویح کی نماز جیسے مردوں کے لئے سنت ہے اسی طرح خواتین کے لئے سنت ہے اور جیسے مرد اگر بلا عذر سستی اور کاہلی کی بناء پر یا بوجھ سمجھ کر تراویح چھوڑ دیں تو یہ سخت محرومی کی بات ہے اور ہو سکتا ہے اس پر اللہ کے یہاں عتاب اور مواخذہ بھی ہوگا۔ اسی طرح خواتین کے لئے بھی یہ سنت ہے اور بلا عذر معمولی بہانہ کر کے تراویح سے محروم رہنا قابل مواخذہ ہو سکتا ہے۔ آج جب گھروں میں تراویح ادا کی جارہی ہے تو خواتین جماعت کے ساتھ شامل ہو کر تراویح ادا کر سکتی ہے۔ نماز میں قیام فرض ہے بلا عذر قیام ترک کرنا ہرگز درست نہیں۔ لہذا قیام کے ساتھ نماز ادا کرنے کا اہتمام ضروری ہے۔ ہاںاگر کسی خاتون کو صحت کی ناسازی ہو یا بوڑھاپا ہو یا تھکاوٹ ہو اور اس وجہ سے کوئی خاتون تراویح کی نماز بیٹھ کر ادا کرے تو اس کی گنجائش ہے مگر فرض واجب اور سنتیں قیام کے ساتھ ہی ادا کرنی چاہیے۔