سوال :تصوف کی حقیقت کیا ہے،اس کی ضرورت کیوں ہے ؟ کیا یہ شریعت سے الگ کوئی چیز ہے؟ بیعت کیوں کی جاتی ،اس کا ثبوت کہاں ہے؟کیا بیعت کے بغیر ایک مسلمان مکمل مسلمان نہیں بن سکتا ،کیا علم تصوف شرعی علوم میں سے ہے۔کیا ہمارے نبی ؐ بھی اس طرح بیعت کرتے تھے ،جس طرح اہلِ تصوف کے یہاں بیعت ہوتی۔اس بیعت سے کیا حاصل کرنا ہوتا ہے ۔
امید ہے کہ جواب مکمل ، جامع اور تشفی بخش ہوگا ۔
غلام محی الدین میر ۔مقیم حال جموں
تصوف: انسان کے باطنی اعمال کے اصلاح کے اصول کا بیان
جواب :حضرت امام غزالی ؒ نے تصوف کی مفصل حقیقت بیان کی ہے،اُس کا جامع خلاصہ علامہ شامیؒ نے یوں بیان کیا ہے۔تصوف وہ علم ہے جس سے اخلاق ِ ِحمیدہ کی اقسام اور اُن کو حاصل کرنے کا طریقہ اور اخلاقِ رذیلہ کی اقسام اور اُن سے بچنے کا طریقہ معلوم ہو۔دلوں کی طہارت ،روح کی صفائی اور نفس کا تزکیہ حضرت نبی کریم علیہ السلام کا دیگر مقاصد میں سے اہم مقصد رہا ہے۔قرآن کریم میں متعدد مقامات پر نبی علیہ السلام کے منصب نبوت کے مقاصد بیان ہوئے ہیں ،وہ یہ ہیں: تلاوت ِ کتاب ،تعلیم کتاب،تعلیم ِ حکمت اور تزکیۂ قلوب۔۔۔وہ علم جو انسان کی ظاہری اعمال کی تفصیل بیان کرے ،علم فقہ کہلاتا ہے ۔اس علم کا ماخذ قرآن و حدیث ہے اور وہ علم جو انسان کے باطنی اعمال کی اصلاح کے اصول اور تفصیلات بیان کرے ،وہ علم احسان یا علم القلب یا علم التزکیہ یا علم ِ سلوک یا علم تصوف کہلاتا ہے۔نام اگرچہ الگ الگ ہیں مگر حقیقت ایک ہی ہے۔یہ بھی قرآن و حدیث سے ماخوذ ہے۔ہمارے وہ اعمال جو جسم اور اعضاء ظاہری سے انجام پاتے ہیں جیسے شریعت نے اس کے لئے حلال حرام ،جائز و ناجائز اور فرائض و محرمات کی تفصیل بیان کی ہے۔اسی طرح وہ اعمال جو قلب سے صادر ہوتے ہیں شریعت نے اُن کے لئے بھی احکام بیان کئے ہیں۔اعمال ظاہر یہ کے لئے کچھ احکام فرض اور کچھ حرام ہیں۔اسی طرح اعمالِ باطنیہ کے لئے بھی یہی تفصیل ہے۔
حُبِ الٰہی،تقویٰ ،حُبِ رسول ؐ،اخلاص ،توکل ،صبر ،شکر ،خشوع ،تواضع ،حلم انابت ،خشیت ،قناعت ،حیا ،رحم ،سخاوت ،فکرِ آخرت ،شوق ِ دیدار ِ خداوندی وغیرہ سب باطنی اعمال ہیں ،انہی کو اخلاقِ حمیدہ کہا جاتا ہے ،ان کا حصول ہر مسلمان کے لئے لازم ۔ان کے برخلاف کچھ اخلاق ِ رذیلہ ہیں جیسے تکبُر،ریا ،عُجب،غرور ،حسد،حرص ،حبِ مال ،حبِ جاہ،بخل ،بزدلی،غفلت ،کینہ ،قساوت قلبی،بے جا غضب ،آخرت سے بے فکر ی،مواخذۂ خداوندی سے لاپرواہی وغیرہ،یہ سب رزائل نفس ہیں۔اسی طرح حرام مال کے حصول کی تڑپ ،نفس پرستی ،ہواوحرص کا غلبہ ،حرام کاموں کو حرام نہ سمجھنا یا حرام سمجھنے کے باوجود اجتناب نہ کرنے کی عادت ،یہ تمام امراضِ باطنی ہیں۔
علمِ تصوف یا علم التزکیہ یا علم الاحسان کا مقصود یہی ہے کہ وہ اوصاف جو مومن کے لئے مطلوب ہیں وہ اُس کے اندر پیدا ہوجائیںاور جو اُس کے لئے مضرت رساں ہیں اُن سے پرہیز کی عادت پختہ ہوجائے ۔اسی غرض کے لئے مشائخ سے بیعت کی جاتی ہے۔بیعت کا مقصود نہ تو کرامات ہیں نہ کشف و الہام ،نہ جھاڑ پھونک کی مہارت اور نہ ہی ترکِ دنیا یا حصولِ دولت ہے۔
قرآنِ کریم میں حکم ہے ۔ترجمہ: تم ظاہری اور باطنی دونوں قسم کے گناہ چھوڑدو ۔یقیناًجو لوگ گناہ کماتے ہیں اُن کو اُن تمام جرائم کی سزا جلد ملے گی،جن کا وہ ارتکاب کرتے ہیں(سورہ الانعام)
بیعت کے ذریعہ ان ظاہری اور باطنی گناہوں سے توبہ کرائی جاتی ہے اور پھر اُس توبہ پر کاربند رہنے کی تلقین بھی کی جاتی ہے اور پھر اجتناب کرنے کی صلاحیت پید ا کرنے کی سعی کرائی جاتی ہے۔قرآن کریم میں حضرت نبی علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ اے نبیؐ!جب آپ کے پاس مومن خواتین آئیں اور وہ بیعت کریں کہ وہ نہ شرک کریں گی ،نہ چوری ،نہ زنا کاری ،نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ ہی آپکی نافرمانی کریں گی تو آپ ؐ اُن کو بیعت کرلیں پھر اُن کے لئے استغفار کریں۔(سورہ الممتحنہ )بخاری شریف میں حضرت عبادہ بن صامت کی حدیث ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد آپ ؐ کے صحابہ جمع تھے ،آپ ؐ نے ارشاد فرمایا: تم مجھ سے بیعت کرو کہ نہ تو شرک کرو گے ،نہ چوری کروگے،نہ زناکاری کرو گے ،نہ اپنی اولاد کو قتل کروگے نہ بہتان تراشی کروگے اور نہ ہی معروفات کے احکام میں نافرمانی کروگے۔پھر جو شخص اس بیعت کے عہد پر قائم رہے گا اُس کو اللہ کے یہاں اجر عطا ہوگا اور جو اس میں کسی بات میں خلاف ورزی کرے گا پھر اُس کو دنیا میں سزا لگ گئی تو یہ سزا اُس کے لئے کفارہ بن جائے گی اور جس نے خلاف ورزی کی مگر اللہ نے پردہ پوشی کی، اس لئے دنیوی سزا سے بچ جائے گا،تو اللہ کے حوالے۔اگر اللہ چاہے تا آخرت میں سزا دے گا اور چاہے تو معاف کرے گا ۔
حضرت عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ ہم نے اس پر بیعت کرلی (بخاری کتاب الایمان)اس بیعت کو بیعت ارشاد کہتے ہیں ۔مشائخ حقہ کے یہاں یہی بیعت ہر دور میں رہی ہے اور مقصد شریعت کے ظاہر و باطنی اعمال پر مکمل طور پر استقامت کے ساتھ کاربند ہونا صالح و متقی بننا ہے۔اگر کوئی شخص کسی سے بیعت نہ ہو اور تمام اعمال ظاہری و باطنی پر عمل پیرا ہو،تمام ظاہری و باطنی معصیات سے اجتناب کرنے میں پختہ ہو تو یقیناً وہ مکمل مومن ہے۔اس کے لئے بیعت کرنا ہرگز لازم ہیں۔مقصود اصلاح قلب و اعمال ہے اور لازم محرمات و معصیات سے اجتناب ہے۔
سوال : مسلم معاشرے میں مسجدوں کی حیثیت کیا ہے ۔کیا یہ صرف عبادت گاہ ہے یا یہ دیگر سرگرمیوں کا بھی مرکز ہوسکتی ہے۔ہم نے بارہا سُنا ہے کہ اسلام کے اولین دور میں مساجد ہی تمام دینی اور مسلم سوسائٹی کی اجتماعی ضرورتوں کا مرکز ہوا کرتی تھی ،آج کے عہد میں ہم مساجد سے کس کس طرح کے فوائد اٹھا سکتے ہیں۔دینی ،علمی ،دعوتی اور دوسرے ملی کام ،کیا کیا ممکن ہیں۔ہمارا خیال یہ ہے کہ مساجد میں نمازوں اور جمعہ کی اجتماعی عبادت کے ساتھ بچوں کی دینی تعلیم کے لئے صبح و شام کے جزو قتی مدرسے یا مکتب قائم ہوسکتے ہیں ۔ایک کمیٹی ،جس میںبستی کے معاملہ فہم افراد ہوں ،نزاعی معاملات کے تصفیہ کے لئے قائم کرسکتے ہیں جو چھوٹے چھوٹے جھگڑوں کو اپنی سطح پر نمٹانے کا کام کریں ،اس سے لوگ عدالتوں اور پولیس تھانوں میں پہنچنے سے محفوظ رہ سکیں گے ۔اسی طرح مسجدوں میں دعوت کی محنت کا نظام بنا سکتے ہیںیہ دعوت خود مسلمانوں میں تو موجود تبلیغی نظام کے مطابق ہوسکتی ہے ۔اس کے لئے گشت ،ملاقاتیں اور تعلیم کے ساتھ خروج کا نظام بنایا جائے اور غیر ایمان و الوں میں دعوت کا کام کرنے کے لئے مضبوط اہلِ علم ،صاحبِ فکر اور اس نازک کام کے تمام پیچ و خم جاننے والے اصحابِ بصیرت کی ضرورت ہے۔۔۔جو ہمارے معاشرے میں بہت ہی کمیاب بلکہ نایاب ہیں۔اب سرِ دست مساجد میں کن کن کاموں کو انجام دیا جاسکتا ہے ،اس پرروشنی ڈالیں۔
مولانا ثنا ء اللہ ،اما م و خطیب مسجد ھدیٰ ،مہاراجہ بازار سرینگر
اسلام میں مساجد کا کردار
جواب :اسلام کی تمام سرگرمیوں کا اصل مرکز مسجد ہے۔عبادت،تعلیم ،عیادت،ملاقات،عدالتی فیصلے یہاں تک کہ مہمان نوازی اور جس کو کہیں کوئی ٹھکانہ نہ ہو اُس کے لئے جائے پناہ مسجد ہی ہے۔چنانچہ عہد ِ نبوی میں تمام دینی،دنیوی ،تعلیمی ،دعوتی ،عسکری ،سماجی ،سیاسی اور عائلی معاملات کی انجام دہی مسجد نبوی میں ہی ہوتی تھی۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مسجد کے امام ،جمعہ کے خطیب ،مسجد میں تعلیم پانے والے صحابہ کے معلم ،مسلمانوں کے نزاعی معاملات کے لئے حج،آنے والے وفود کے لئے میزبان ،جہادی سرگرمیوں کے لئے مشاورت کرنے والے قائد ،وفود کو روانہ کرنے والے مدبر،عبادت کا ذوق رکھنے والے حضرات صحابہ کے روحانی مربی ،غرض کہ معاشرے کے تمام شعبوں کے امور مسجد میں ہی انجام دیتے تھے۔حدیث و سیرت کی کتابوں میں تو کئی واقعات بھی ملتے ہیں کہ آپ نے تمام نظام قضا بھی مسجد میں ہی چلا یا، حتیٰ کہ لِعان کا فیصلہ بھی مسجد میں کیا ،جس میں عورت اور مرد دونوں مسجد میں حاضر تھے۔اسلام کے متعلق معلومات مطلوب ہوں یا جو لوگ اسلام قبول کرچکے ہوں ایسے وفود کی آمد پر اُن کا قیام بھی مسجد میں ہی ہوا کرتا تھا ۔چنانچہ نجران کے عیسائیوں کا بہت بڑا وفد حاضر ِ خدمت ہوا تو پچاس ساٹھ افراد سے زیادہ افراد پر مشتمل قافلے کو مسجد میں قیام کرایا گیا ۔ثمانہ بن اثال کو مسجد میں تین دن رکھا گیا ۔اُس کے بعد اُن کو اسلام قبول کرنے کا عظیم شرف نصیب ہوا۔اصحاب صُفہ کا قیام ،طعام،تعلیم ،تزکیہ ،اسفار کی روانگی ،تعلیمی ،دعوتی ،جہادی اور معاشی محنتوں کا محور و مرکز مسجد نبوی ہی تھی۔
آج کے عہد میں مساجد میں صرف نماز اور جمعہ کی ادائیگی کا عمل ہورہا ہے اور بہت سے مقامات پر عظیم مساجد پورے ہفتہ صرف پنج وقتہ نمازیوں کی محدود تعداد تک ہی محدود ہے۔اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ مساجد کے اس وسیع تعمیری کردار اور متنوع علمی اصلاحی نظام کو کم از کم تین کاموں کے لئے پھر سے سرگرم کیا جائے۔اس کے لئے مساجد کے ائمہ ،منتظمہ اور بستی کے فکر مند و اصحاب ِ بصیرت افراد کا متحرک ہونا ضروری ہے ۔ایک اہم اور مساجد کا اولین مقصد پنج وقتہ اور جمعہ کی نماز ہے ۔اس میں سُستی اور غفلت کا عالم یہ ہے کہ اکثر مساجد میں نمازیوں کی تعداد بستی کی آبادی میں سے نہایت قلل ہوئی ہے ۔شہر و دیہات میں شاید ہی کوئی مسجد ایسی ہوگی جس میں بستی کے باشندے پچاس فیصد نمازی ہوں۔کہیں مشکلاً دس فیصد ،کہیں بیس فیصد یانہ اس سے کم و بیش ۔خصوصاً نئی نسل اور عصری تعلیم سے وابستہ نوجوانکی تعداد تو بہت ہی کم ہے۔اس لئے اس کی فکر و عملی کوشش ہر مسجد کے امام ،انتظامیہ اور محلوں کے نمازیوں کی اہم ذمہ داری ہے۔
دوسرا اہم کام دینی مکاتیب کا قیام ہے ۔آج کے عہد میںسکولوں اور کالجوں میں پڑھنے والے بچے دین کی بنیادی معلومات حاصل کرنے کا کوئی بھی موقعہ کہیں نہیں پاتے ۔مزید المیہ یہ ہے کہ دنیا میں فی الوقت جو جدید نظام ِتعلیم رائج ہورہا ہے اُس میں کفریات اور شرکیات کی آمیزش بھی ہے۔اس لئے نئی نسل کا ایمان بھی خطرات کی زد میں ہے،لہٰذا ہر مسجد کے ساتھ مضبوط دینی مکاتیب میں نصاب ،اساتذہ اور محلوں ،بستیوں کے تمام بچوں کو شریک کرنے کی محنت اور انتھک سعی نہایت حکمت اور تدبر سے ضروری ہے ،یہ مکاتیب تمام مساجد میں قائم ہونا ضروری ہیں ۔یہ نابالغ بچوں کے لئے ہوں گے۔ثانوی مکاتیب بالغ بچوں کے لئے۔اس میں نصاب وقت اور پڑھانے کا طریقہ مختلف ہوگا اور بچوں کے مزاج ،نفسیات اور ضرورت کے مطابق ہونا لازم ہے۔ ،مکاتبِ ابتدائی ،مکاتبِ ثانویہ کا مضبوط نظام نئی پود کے مسلمان بننے اور اسلام پر ایمان ،علم و عمل اور فکر و بصیرت کے ساتھ ثابت قدم رہنے کی واحد سبیل ہے۔