سوال:۱-جوزیورات ، تحفہ اور عطیہ لڑکی والوں نے لڑکے کووقتاً فوقتاً دیئے ہیں ۔ کیا ان پر لڑکے کا بدستور حق بنتاہے ؟جوزیورات ، تحفہ اور عطیہ جات لڑکے والوں نے لڑکی کو وفتاً فوقتاً دیئے ہیں ،کیا وہ سب لڑکے والے لڑکی سے واپس لینے کا حق رکھتے ہیں ؟مہرجووصول ہوا ہے کیا لڑکا واپس لینے کا حق رکھتاہے ؟
سوال:۲- بچی جو تقریباً دو سال کی ہے ، اس کے دونوں طرف سے دیئے گئے تحفہ جات اور عطیہ باپ فی الحال اپنی نگہداشت میں رکھنے کا حق رکھتاہے ۔
سوال:۳-کیا لڑکا ازالہ حیثیت اور مالی نقصانات کا تقاضا لڑکی والوں سے کرسکتاہے ؟
غلام قادر ۔۔ سرینگر
خلع :مہر وزیورات کے مسائل
جواب:۱-خلع درحقیقت زوجہ کی طرف سے رشتہ ختم کرنے کی پیشکش کی بنیاد پر ہوتاہے ۔اگر ظلم وزیادتی شوہر کی طرف سے ہو اور اس لئے زوجہ خلع کرنے پر مجبور ہوجائے تو ایسی صورت میں شوہر کا مہر، زیورات وغیرہ کا مطالبہ بطور بدلِ خلع کے کرنا ہی گناہ ہے اور یہ چیزیں لینا اُس کے لئے سراسر غیر شرعی ہیں اور اگر خطاء زوجہ میں ہو اور وہی رشتہ ختم کرنے کے لئے خلع کا مطالبہ کرے تو ایسی صورت میں شوہر کے لئے جائز ہے کہ وہ مہر اور اپنی طرف سے دیئے گئے زیورات کے عوض خلع کرنے کا مطالبہ کرے ۔ دراصل خلع کے لئے دو طرفہ رضامندی اور آمادگی شرط ہے ۔ اگر شوہر مہر کی واپسی پر خلع کرنے پر تیار ہو اور زوجہ بھی اس پر آمادہ ہوجائے تو اسی پر خلع کیا جائے اور اگر شوہر مہر کے ساتھ زیورات کی واپسی کا بھی تقاضا کرے اور زوجہ کو قبول کئے بغیر چارہ نہ رہے تو وہ مہر اور زیورات بطور بدلِ خلع دینے پر تیار ہوجائے تاکہ خود کو آزاد کراسکے ۔ ظاہر ہے کہ وہ مہر یا زیورات واپس نہ کرے تو پھر شوہر خلع پر آمادہ نہ ہوگا اور اس طرح وہ لٹکی رہے گی ۔ اس لئے وہ ایک خوشدل اور اطمینان یافتہ زوجہ بن کر بھی نہ رہ سکے گی اس لئے کہ وہ خلع کی طلبگار ہے اور آزاد بھی نہ ہوسکے گی اس لئے کہ شوہر مہر او ر زیورات واپس لئے بغیرخلع کرنے پر آمادہ نہ ہوگا ۔
جواب ۲:- بچی کو جو تحائف دئے گئے وہ بچی کا ہی حق ہیں ۔بچی ماں کےحوالے ہوتو وہ زیورات اور تحائف اپنے پاس رکھ سکتی ہے اور جب وہ بچی حقِ حضانت ساقط ہونے کے بعد باپ کے حوالے ہوگی تو وہ تحائف باپ کے حوالے کردیئے جائیں ۔اگر پہلے ہی وہ تحائف باپ کے حوالے کردیئے جائیں تو یہ بھی درست ہے۔ دراصل بچی کی یہ املاک امانت ہیں اور چاہے باپ کے قبضے میں رہیں یا ماں کے ۔بہرحال محفوظ رکھنا ضروری ہیں تاکہ بچی کے بالغ ہونے کے بعد بوقت ضرورت اُس کے کا م آسکیں ۔اگر باپ اور ماں دونوں تحائف کواپنے زیر قبضہ رکھنے پر مُصر ہوں اور اس بناء پر اختلاف ہوجائے تو ثالثی کرنے والے حضرات فیصلہ کریں کہ یہ اشیاء کہاں زیادہ محفوظ رہیں گی اور اس کے لئے ایک تحریری دستاویز بھی بنا کر رکھیں ۔
جواب :۳-شریعت اسلامیہ میں مالی جرمانہ درست نہیں ہے ۔ اس لئے اس کا مطالبہ کرنا بھی غلط اور دینا بھی لازم نہیں ۔ازالہ حیثیت عرفی یا مالی نقصان جو دراصل شادیوں میں رسوم پورا کرنے کی وجہ سے ہوتاہے ، کا تقاضا کرنا درست نہیں ۔ شاہر ہے شادیوں میں قسم قسم کے پُرتکلف کھانے اور دوسرے رواجوں کی وجہ سے جو خرچے ہوتے ہیں وہ سماجی رسوم ہیں نہ کہ شرعی احکام کی بجاآوری ! اس لئے اس کی تلافی کی کوئی صورت شریعت سے ڈھونا ہی غلط ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :-کیا اولاد کو نافرمانی اور رو گردانی کی بناء پر جائداد سے بے دخل کیا جاسکتاہے ؟
شیخ عبدالرحمان۔ بتہ مالو ،سرینگر
وراثت کا حق ساقط نہیں ہوتا
جواب:-والدین کے ساتھ بے اعتنائی برتنا اُن کے شرعی حقوق ادا نہ کرنا گناہ کبیرہ ہے ۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب گناہوں کی تفصیل بیان فرمائی تو سب سے بڑا شرک اور دوسرا بڑا گناہ والدین کا حقوق یعنی نافرمانی قرار دی ہے ۔ایسی اولاد جو والدین کو ذہنی یا جسمانی اذیت پہنچائے وہ مجرم اور فاسق ہیں اور اس کا وبال دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی یقینی ہے ۔ حضرت نبی کریم علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی رضا والدین کی رضا میں ہے او راللہ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے ۔ والدین کو کسمپرسی کی حالت میں چھوڑنا دراصل اپنی اولاد کو یہ پیغام دیناہے کہ وہ بھی ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کریں ۔ اس سب کے باوجود وراثت کی مستحق وہی اولاد ہوگی جس نے والدین کے حقوق ادا نہ کئے ہوں ۔دراصل وراثت کا تعلق قرابت سے ہے نہ کہ خدمت سے ۔ اس لئے خدمت گذاراولاد کو بھی وراثت کا حق اتنا ہی ملے گا جتنا نافرمان اولاد کو ۔والدین کی خدمت ، اطاعت ،راحت رسانی الگ معاملہ ہے اور وراثت کا استحقاق بالکل دوسرا معاملہ ۔ اسی لئے اسلام نے بیٹی کو بھی مستحق وراثت قرار دیاہے حالانکہ وہ اپنے والدین کی خدمت نہیں بلکہ اپنے شوہر کے حقوق ادا کرنے اور اپنے بچوں کی پرورش میں مشغول ہوتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :۱-نقلی دانت لگوانے ،دانتوں میں فیلنگ کرنا،اس طرح کے دوسرے طبی ضابطوں کا شریعت کی رو سے کیا حکم ہے ؟
سوال ۲-بالوں اور داڑھی میں کون سا خضاب استعمال کرسکتے ہیں ۔ ہربل ، کالی مہندی ،حنا ہیر کلر وغیرہ استعمال کرسکتے ہیں کیا ؟
سوال ۳-نقلی بال (وِگ) پہنے اشخاص مسح کس طرح کرسکتے ہیں ۔ عورتوں کو نقلی زلفیں لگانا کس حد تک صحیح ہے؟
حبیب اللہ۔بانڈی پورہ ،کشمیر
نقلی دانت لگوانے،داڑھی و بالوں میں
خضاب لگانے کے مسائل
جواب ۱- دانتوں میں ہرقسم کی فیلنگ کرنا دُرست ہے ۔مصنوعی دانت لگانابھی درست ہے ۔ ایک صحابی نے پہلے چاندی کی ناک پھر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے سونے کی ناک لگوائی تھی ۔اس کا واقعہ ترمذی میں موجودہے اُس صحابی کا نام حضرت عُرفطہ تھا ۔
جواب ۔۲- داڑھی او ربالوں میں مہندی یا زعفران کاخظاب درست ہے ۔کالی مہندی لگانا جائز نہیں ہے ۔اس سے عمر چھپانے کا کام کیا جاتاہے اس لئے حدیث میں اس کی ممانعت ہے ۔
جواب۔۳ ۔نقلی بال (وگ) لگانا ہرگز دُرست نہیں۔ایسے لوگوں پر لعنت کی گئی ہے ۔اسی طرح عورتوں کا نقلی بال لگانا حرام ہے ۔بخاری ومسلم میںحدیث ہے کہ ایسی عورتوں پر اللہ کی لعنت ہے جو بال نوچ ڈالیں یا نقلی بال لگائیں یا جسم پر خوبصورتی کے لئے نشان لگوائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:- آج کل سرینگر میں مسجدوں میں ائرکنڈیشنز لگائے جارہے ہیں۔ التماس ہے کہ اگرمحکمہ بجلی کو فیس ادانہ کی جائے تو ایسی مسجدوں میں نمازوں کا کیا حال ہوگا ؟
غلام مصطفی ۔۔سرینگر
مساجد میں بجلی کا استعمال ،چند مسائل
جواب:-مسجد میں ائرکنڈیشن کا انتظام دُرست ہے لیکن جیسے روشنی کے انتظام کے لئے بجلی فیس اداکرنا ضروری ہے ۔ اسی طرح ائرکنڈیشن میں صرف ہونے والی بجلی ادا کرنا بھی ضروری ہے ۔ اگرخدانخواستہ بجلی فیس ادا نہ کی جائے تو نماز تو پھر بھی ادا ہوجاتی ہے مگر بجلی کی فیس ادا نہ کرنے کا گناہ برقرار رہے گا ۔
بجلی کی فیس ادا کرنے کا سب سے بہتر اورمحتاط طریقہ میٹر لگانا ہے تاکہ روشنی ، پنکھوں اور ائرکنڈیشن میں جتنی بجلی خرچ ہو میٹر کے ذ ریعہ اُس کی پوری مقدار سامنے آئے اور پھر اتنی ہی فیس ادا کریں ۔
یہ بات ایمانی غیرت کے خلاف ہے کہ مسلمان اللہ کے گھر میں اپنی راحت کا انتظام کریں مگر اُس کا غیر شرعی طریقہ اپنائیں ۔
جیسے چوری کی لکڑی سے حمام گرم کرنا ، چوری کے پنکھوں سے ٹھنڈک کا انتظام کرنا یا چوری کے قالین نما جائے نماز مسجد میں بچھانا غلط ہے ۔ ایسے ہی بجلی استعمال کرکے اُس کی فیس ادا نہ کرنا غیر شرعی ہے۔ ایسی عبادت جس میں کسی غیر شرعی چیز کی آمیزش ہو وہ کیسے اللہ کی رضا کا سبب بن سکے گی ۔ اس لئے اپنے مساجد کا بہتر سے بہتر انتظام کرنا جیسے تقاضۂ ایمان ہے ۔ایسے ہی اُس انتظام کو حلال طریقہ سے چلانا بھی مقتضائے دین وایمان ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :سونے کے وقت کیا کیا دعائیں پڑھ سکتے ہیںاور وہ دعائیں بغیر وضو پڑھنا جائز ہےیا نہیں؟
غلام محی الدین وانی ۔ترال
سوتے وقت دعائیں پڑھنااوروضو کا مسئلہ
جواب:سونے کے وقت سورہ فاتحہ ،آیت الکرسی ،سورہ ملک ،چار قل ،تسبیح فاطمہ پڑھنا مسنون ہے ۔احادیث میں ان کے پڑھنے کی ترغیب بھی ہے اور فضیلت بھی ہے۔لہٰذا یہ سب پڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔مزید یہ کہ بخاری و مسلم میں حدیث ہے ۔حضرت برأبن عاذب کہتے ہیںکہ۔۔۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم سونے کا ارادہ کرو تو پھر دائیں کروٹ لیٹ کر یہ دعا پڑھو ’’اَللّھُم اَسلمُت نفسی۔۔۔۔ الخ ۔یہ دعا مکمل بخاری شریف میں وضو کے بیان میں موجود ہے۔اس لئےکوشش کی جائے کہ باوضو سوئیں۔ تاہم اگر کوئی بے وضو سوئے تو یہ بھی جائز ہے اور اوپر کی ساری دعائیں بے وضو پڑھنا بھی جائز ہے۔سورہ الم سجدہ پڑھنےکی تاکید بھی احادیث میں آتی ہے ۔سونے کے وقت کی اوربھی دعائیں ہیں،جودعائوں کی کتاب مثلاً حصن المسلم اور مسنون دعائیں میں موجود ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔