کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

سوال:ا-شادی کی تقریب میں مختلف مراحل پر عورت کو مہر کے علاوہ جوزیورات دیئے جاتے ہیں ان کے متعلق چند سوالات ہیں۔ کیا یہ زیورات اور تحائف دیناجائز ہے۔ کیا ان کے دیئے بغیر بھی رشتہ نکاح درست ہے ۔
ان تحائف کو یہاں عرفِ عام تھان کہتے ہیں ۔ اس کو تھان کہنے کی وجہ کیاہے…اس کے معنی کیا ہیں ؟
جب یہ تحفے دیئے جاتے ہیں تو ان کا آئندہ مالک کیا وہ شخص ہوتا ہے جس نے یہ تحفے دیئے ہوتے ہیں ۔ یا وہ جس کو یہ تحفے دیئے جاتے ہیں ۔عدالتی اصطلاح میں واہب مالک ہے یا موہوب الیہ۔
سوال:۲-یہاں کشمیر میں ورتائو(گلہ میوٹھ) یا دست بوس کے نام سے جورسم جاری ہے جس میں مختلف اقسام کی اشیاء ،جن میں کچھ بہت قیمتی اور کبھی کچھ کھانے پینے کی چیزیں ہوتی ہیں ۔ اس ورتائو کے متعلق مفصل بحث اور تفصیلی حکم تحریر کرنے کی گذارش ہے۔اس میں یہاں کے علماء ،وکلاء اور محلہ کمیٹیوں کے ذمہ داران بھی کنفیوژن میں رہتے ہیں اور جب اس سلسلے میں فیصلہ کرنے بیٹھتے ہیں تو طرح طرح کے اختلافات سامنے آتے ہیں اور پھر یہ متعین نہیں ہوپاتا کہ اصل شرعی حکم کیا ہے ۔ اس لئے تفصیل کے ساتھ ’’کشمیرعظمیٰ‘‘ کے اس مقبول ومفید کالم میں جواب شائع فرمائیں۔
ریاض احمد بٹ …بانڈی پورہ

تھان کی حقیقت اور اس کی وجۂ تسمیہ
جواب:۱-نکاح کے سلسلے میں شادی سے پہلے یا بعد میںجوتحائف دیئے جاتے ہیں اُن کا لینا اور دینا درست ہے۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تحفے دیا کرو اور اس سے آپس میں محبت بڑھے گی لیکن اس کے لئے ایک لازمی شرط ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ حقیقتاًتحفہ اور ہدیہ(Gift)ہی ہو۔ ایسا نہ ہو کہ ظاہرمیں تو تحفہ ہولیکن اندر سے نیت یہ ہو کہ آئندہ یہ اس کے بدلے میں اس سے زیادہ لانے پر مجبور ہیں۔ اگر نہیں لائیں گے تو تعلقات منقطع یا متاثر ہوں گے اور تحفہ لینے والا بھی یہی سمجھتاہے کہ آئندہ مجھے تعلقات اور قرابت داری بچانے کے لئے اس سے زیادہ دینا ضروری ہے ۔ ایسی صورت میں یہ تحفہ چونکہ حقیقت میں تحفہ ہے ہی نہیں اور بلاشبہ اس کو ہدایا یا بخشش کا نام دینا ہی غلط ہے اس لئے یہ درست نہیں ۔قرآن کریم میں ارشاد ہے۔ترجمہ(ایسا احسان مت کرو جس میں احسان سے زائد وصول کرنے کی نیت ہو ۔ المدثر) غربت میں ڈوبے قدیم اہل کشمیر دلہن کے لئے مہر مقرر کرکے اُسے باقی رکھتے تھے اور دلہن کو سجانے کے لئے یا تو کپڑے کا ایک چھوٹا تھان بھیج دیتے تھے، جس سے دو تین سوٹ کپڑے دلہن کے لئے تیار ہوتے تھے اور یا ایک چھوٹے تھان کی قیمت دلہن کے گھر بھیج دیتے تھے ،تو نکاح کے وقت لڑکے والے مہر اور تھان کی پیشکش کرتے تھے۔ پھر یہ تھان کبھی واقعتا تھان ہی ہوتا تھا اور کبھی رقم دی جاتی تھی مگرنکاح کاغذ میں تھان ہی لکھا جاتا تھا۔ آگے چل کر اس میں زیورات بھی شامل ہوگئے اور ہوتے ہوتے تھان کی عوامی وعرفی اصطلاح برقرار رہی مگر اس کا مصداق صرف زیورات اور پائونڈ رہ گئے ۔ یہی نکاح ناموں میں لکھا ہوتاہے ۔
نکاح کے موقعہ پر جو تحفے شوہر یا اُس کے اقارب کی طرف سے دلہن کو اور دلہن یا اُس کے رشتہ داروں کی طرف سے دلہا یااُس کے رشتہ داروں کے دیئے جاتے ہیں وہ چونکہ تحفہ اور ہدیہ ہیں ۔ ان کو حدیث کی اصطلاح میں ہبہ کہتے ہیں اور یہی اصطلاح قانونی دنیا میں بھی ہے ۔ چنانچہ ہدیہ دینے والا واہب اور جس کو ہدیہ دیا گیا اسے موہوب الیہ کہتے ہیں ۔ اس کے لئے شرعی اصول یہ ہے ہدیہ میں دی ہوئی چیز واپس نہیں لے سکتے ۔ چنانچہ حدیث میں ہے ۔ ہدیہ دے کر واپس طلب کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے کتّا قے کرنے کے بعد واپس چاٹنے لگے۔(بخاری کتاب الھبہ)
لہٰذا رشتہ برقرار رہے یا خدانخواستہ ختم ہوجائے ہدیہ دی ہوئی اشیاء چاہے وہ سونا ہو، برتن ہو ، کپڑے ہوں یا فرج یا واشنگ مشین وغیرہ ہو واپس لینا درست نہیں ہے ۔ دینے والا چاہے شوہر ہو یا اُس کے اقارب ہوں اور چاہے زوجہ ہویااس کے اقارب ہو ں، واپس لینے کا مطالبہ کرنا ہی غیر شرعی بھی ہے اور غیر اخلاقی بھی ہے ۔

ــــورتائو : ہدیہ، تحفہ یا امانت ؟
جواب:۲- داراصل ورتائو یا گلہ میوٹھ ایک ایسی رسم ہے جس کو شریعت کے کسی دائرے میں لانا ہی مشکل ہے ۔ اسے امانت نہیں کہہ سکتے ۔ اس لئے وہ استعمال کرنے ، خرچ کرنے یا کھانے کے لئے دیا جاتاہے ۔ جب تک امانت کو جوں کا توں واپس کرنا ضروری ہے ۔ اسے ہدیہ یا تحفہ کہنا بھی مشکل ہے ۔ اس لئے کہ اسے مزید اضافہ کے ساتھ واپس کرنا ضروری ہوتاہے اور اسی لئے اسے لکھ کر رکھنا ضروری سمجھا جاتاہے اور ادا نہ کریں یا اضافہ نہ کریں تو ناراضگی لازمی ہے جب کہ ہدیہ میں واپس لینے کی کوئی نیت ہی نہیں ہوتی وہ محبت پانے کے جذبہ سے دیا جاتاہے نہ کہ مادی عوض کی غرض سے تو یہ ہدیہ بھی نہیں ۔
اسے قرضہ کہنا بھی مشکل ہے اس لئے کہ یہ قرض کہہ کر نہ لیا جاتانہ دیا جاتاہے اور واپسی اگرچہ ضروری ہوتی مگر اس کے بدلے میں کوئی برتر چیز یا نسبتاً زیادہ رقم ۔لہٰذا یہ قرض بھی نہیں…اسے صدقہ بھی نہیں کہہ سکتے ۔اس لئے کہ صدقہ میں اجروثواب مقصود ہوتاہے اور واپس لینے کی نہ کوئی نیت ہوتی ہے نہ توقع اور صدقہ غریب سمجھ کر دیاجاتاہے۔جب یہاں ایسا بھی نہیں ہے ۔کیونکہ یہاں رشتہ داری کی وجہ سے دیا جاتا ہے نہ کہ غربت کی وجہ سے ۔
اس صورتحال میں سب سے افضل یہ ہے کہ ورتائو کا یہ سلسلہ ختم کردیا جائے اور ہدیہ دینے کا سلسلہ شروع کیا جائے اور وہ یہ کہ اپنے اقارب احباب کو کسی بھی خوشی کے موقعہ پر اپنی وسعت کے بقدر کچھ بھی بطور ہدیہ دیں اور نہ تو اپنے ذہن میں رکھیں کہ یہ واپس نہیں ملیں گے اور نہ ہی بہی کھاتہ بنا کر رکھیں ۔ پھر وہ چاہیں تو کسی موقعہ پر ہدیہ دیں یا نہ دیں اور کم دیں یا زیادہ پہلے شخص کو نہ کوئی گلہ ہونہ شکوہ ۔ بس صرف یہ ایک شکل درست ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-کیا زوال کے اوقات پر نماز جنازہ اور تدفین عمل میں لائی جاسکتی ہے ؟
غلام محی الدین …کوکرناگ

اوقاتِ زوال میں جنازہ وتدفین منع
جواب:-تین اوقات میں ہرقسم کی نماز اور نماز جنازہ پڑھنا منع ہے اور یہ ممانعت حدیث سے ثابت ہے ۔ حضرت عقبہ بن عامر روایت کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ علیہ وسلم نے تین اوقات میں نماز پڑھنے اور مُردوں کو دفن کرنے سے منع فرمایا ۔طلوعِ آفتاب کے وقت جب تک آفتاب اُوپر نہ آجائے ۔ دوپہر کے وقت جب تک آفتاب ڈھل نہ جائے اورغروب کے وقت جب تک آفتاب ڈوب نہ جائے ۔(ترمذی)اسی حدیث کی بناء پر ان تین اوقات میں نہ کوئی نماز درست ہے نہ نماز جنازہ نہ سجدۂ تلاوت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:ایک سرکاری دفتر میں دس پندرہ سال سے نماز ظہر اور نماز عصروجمعہ بھی قائم کی گئی ہے ۔پہلے رُخِ قبلہ تھوڑا سا دائیں جانب معین کرکے نماز اداکرتے تھے ۔ بعد ازاں امام صاحب نے جونماز جمعہ کی امامت کرتے ہیں ، نے کسی کتاب کا حوالہ دے کر فرمایا اس طرح نماز ادا کرنے سے بہت جگہ خالی رہتی ہے اور جماعت وغیرہ پر اثر پڑتاہے اور مسجد شریف میں تنگی محسوس ہوئی ۔ آج سے ہم بالکل سیدھے رُخِ قبلہ کرکے نماز ادا کرسکتے ہیں ۔ کیا حرج نہیں ہوگا؟اور تب سے بالکل سیدھی نماز اداکرتے ہیں ۔ مہربانی کرکے بروئے قرآن وسنت ہمیں رہنمائی فرمائیں کہ ہم نماز ٹھیک ادا کرتے ہیں یا کوئی تبدیلی وغیرہ لانی ہوگی ؟
اعجاز احمد…سری نگر
تعین قبلہ میں 45درجہ انحراف کی گنجائش
جواب:- پہلے مقررہ شدہ قبلہ اور آج کے موجودہ قبلہ میں اگر پینتالیس درجہ کا فرق ہے تو پھر نماز درست ہے اور اگر اس سے زیادہ فرق ہے تو پھر درست نہیں۔
اس سلسلے میں ترمذی شریف میں حدیث ہے کہ اہل مدینہ کے لئے قبلہ مشرق ومغرب کے درمیان ہے ۔ اس حدیث سے جو اصول اخذ کیا گیا ہے وہ یہی ہے کہ اصل قبلہ سے اگر دائیں یا بائیں 45 درجہ تک انحراف ہوجائے تو بھی نماز یں درست ہیں ۔
دوسرا اصول یہ ہے کہ گرمیوں کے مقام غروب او رسردیوں کے مقام غروب تمام سمت قبلہ ہے ۔ ان دونوں اوصولوں کی روشنی میں اپنی نمازوں کی سمت طے کرلی جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:- ایک گائوں میں جب کوئی موت واقع ہوتی ہے تو میت کو غسل دینے کے بعد تابوت میں رکھ کر تابوت کو آنگن میں رکھتے ہیں اور مولوی صاحب ’’فاتحہ ‘‘ پڑھتے اور پڑھاتے ہیں جس میں الحمد شریف اور سورہ اخلاص تین بار وغیرہ اور دعا کرتے ہیں۔اس کے بعد میت کو جنازہ گاہ لیا جاتاہے جہاں ایک آدمی اونچی آواز میں جنازے کی نیت پڑتا ہے اور پھر امام صاحب تکبیر کہہ کر جنازہ شروع کرتے ہیں پھر آنے والے تین دن لوگ فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد مسجد سے سیدھے قبرستان اور پھر وہاں سے میت کے گھرجاتے ہیں اور دونوں جگہ فاتحہ پڑھتے ہیں ۔کیا میت کو آنگن میں غسل دینے کے بعد رکھ کر جنازے سے پہلے اس طرح فاتحہ پڑھنا طریقۂ سنت ہے؟ اور اونچی آواز میں ایک آدمی کی نیت پڑھنا سنت کے مطابق ہے؟ اورکیا تین دن تک فجر کی نماز کے بعد قبرستان اور میت کے گھراس طرح فاتحہ پڑھنا جائزہے؟
فاروق احمد وانی…کھریوہ

میت کو غسل دینے کے بعد جنازہ
سے پہلے فاتحہ پڑھنے کا ثبوت نہیں
جواب:-میت کو غسل دینے کے بعد نمازِ جنازہ سے پہلے فاتحہ پڑھنے کا یہ طریقہ قرآن وسنت سے بھی ثابت نہیں اورفقہ وفتاویٰ میں بھی اس کا کہیں کوئی سراغ نہیں ہے ۔ یہ صرف کچھ محدود علاقوں میں کچھ قوموں کے اندرپائی جائی جانے والی ایسی رسم ہے جو خود کی ایجاد کردہ ہے ۔
اس لئے شریعت کے مقررہ اصول کے مطابق میت کو غسل دینے کے بعد جنازہ پڑھاجائے اور درمیان میں سورہ فاتحہ اور تین بار سورہ اخلاص پڑھنے کا یہ عمل موقوف کردیا جائے ۔