سوال :(۱) غسل کرنے کا شرعی طریقۂ کار کیا ہے۔ناپاکی دور کرنے کے لئےکن چیزوں کا خیال رکھنا ضروری ہے؟
سوال:(۲) اگر نماز جمعہ میں امام کے ساتھ صرف ایک رکعت پڑھنے کا موقع ملے تو کیا نماز ادا ہوگی؟
سوال:(۳) کیا آنکھیں بند کرکے نماز پڑھی جاسکتی ہے؟
سوال:(۴) اس وقت دنیا بھر میں معیشی حالات بَد سے بدتر ہورہے ہیں ،چونکہ نکاح میں بندھ جانے کے بعد ذمہ داریوں میں اضافہ ہونا لازمی ہے۔لہٰذا جس شخص کی مالی حالت درست نہ ہو ،وہ کیا کرے؟
ایک سائیل۔سرینگر
سولات کی ترتیب کے مطابق جوابات تحریر ہیں:
غسل کرنے کا شرعی طریقہ
(1)جواب۔ جب کسی شخص پر غسل فرض ہوجاتا ہے تو دو کام کرنے ہوتے ہیں ۔ایک جسم کے جس حصہ میں ناپاکی لگی ہو ،اُس جگہ کو اتنا دھونا کہ وہ جگہ صاف بھی ہوجائےاور پاک بھی ہوجائے۔ اس کو ازالۂ نجاست کہتے ہیں۔دوسرے،اس کے بعد کلی کرنا،ناک میں پانی ڈالنا اور پورے جسم کو پانی سے اس طرح تَر کرنا کہ پورے جسم پر ایک بال کے برابر بھی خشک نہ رہے ۔اس کو ازالۂ حدث کہتے ہیں۔
ازالۂ نجاست یعنی جسم پر ناپاکی مثلاً منی کے قطرات یا کسی خاتون کو خون ِحیض لگا ہو تو اُس جگہ کو دھوتے ہوئے جو قطرے گرتے ہیں وہ ناپاک ہوتے ہیںاور یہ قطرے جس چیز کو لگ جائیں ،مثلاً بالٹی ،مگ ،کپڑے تو وہ بھی ناپاک ہوجائے گا ۔اس لئے اس میں بہت احتیاط کرنی ہے۔اس کے بعد جب مسلمان غسل کرنے لگتا ہے تو غسل میں جسم کے جس حصہ سے بھی پانی کا قطرہ گرے گا ،وہ ناپاک نہیں ہوتا۔وہ ایسے ہی ہوتا ہے جیسے وضو کرتے ہوئے قطرات گرتے ہیں،ان قطروں سے کوئی چیز ناپاک نہ ہوگی۔نہ بالٹی،نہ غسل خانے کی دیواریں اور نہ ہی لٹکے ہوئے کپڑے یا تولیہ ۔یہ غسل کا عمل ازالۂ حدث ہے اور اس میں گرنے والا پانی ناپاک نہیں ہوتا۔
نماز جمعہ میں رکعت چھوٹ جانے کا مسئلہ
(2)جواب۔ اگر کسی شخص کو جمعہ کی نماز میں امام کے ساتھ ایک ہی رکعت پڑھنے کا موقعہ ملا تو وہ جمعہ ہی ہوگا ،جیسے دوسری فرض نمازوںمیں رکعت چھوٹ جانے سے کسی شخص کویہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اُس کی جماعت ادا نہ ہوئی۔
آنکھیںبند کرکے نماز پڑھنا ، مختلف پہلو
(3)جواب۔آنکھیں بند کرکے نماز پڑھنے سے نماز ادا ہوجاتی ہے،البتہ بلاوجہ اور بغیر ضرورت کے آنکھیں بند کرکے نماز پڑھنا مکروہ ہے اور حدیث میں منع ہے۔ اگر کوئی اس وجہ سے آنکھیں بند کرکے نماز پڑھے تاکہ نماز کی طرف مکمل توجہ اور دھیان رہے اور خشوع کے ساتھ نماز ادا ہوجائے تو اس غرض کے لئے اجازت ہے۔اور اگر کوئی شخص آنکھ کھول کر نماز پڑھتا ہے تو اُس کی نظر سجدے کی جگہ پررکھنی ہوتی ہے۔اس لئے کسی انسان کو دیکھ کر رکوع ،سجدہ لمبا کرنا قبیح ہے۔کسی انسان کو دکھانے کے لئے رکوع، سجدہ لمبا کرنا نہایت بدترین قسم کی ریا کاری ہے اور اس ریا کاری کو حدیث میں شرک قرار دیا گیا ہے۔ایسے شخص کو پہلی صف میںکسی جگہ نماز پڑھنی چاہئے جہاں آگے کوئی آدمی نظر نہ آئے ،اور اگر پچھلی صف میں کھڑا ہو تو نظر سجدے کی جگہ رکھ کر نمازیں پڑھے۔اور ریا کاری سے بچ کر خشوع و خضوع سے نماز یں ادا کرے۔اصل شرعی حکم یہ ہے کہ آنکھیں کھول کر نماز پڑھیں اور خشوع کے ساتھ پڑھنے کی محنت اور کوشش کریں۔
مالی تنگدستی نکاح میں حائیل ہو تو کیا کریں؟
(4)جواب۔ جس انسان کی مالی حالت ایسی ہو کہ وہ ہونے والی زوجہ کے کھانے پینے اور کپڑوں کا انتظام کرسکتا ہے تو اس کو حکم دیا گیا کہ وہ جلد نکاح کرے۔اگر کوئی شخص نکاح کی ضرورت محسوس کرتا ہے مگر تنگدستی کی رکاوٹ ہے تو ایسے شخص کو اپنے آپ کو گناہ سے بچانے کی بہت کوشش کرنا ضروری ہے اور اگر گناہ میں مبتلا ء ہونے کا خطرہ بڑھ جائے تو کثرت سے روزے رکھےتاکہ نفس قابو میں رہے۔اگر عفت کو بچانے کے لئےکوشش کرنے کے باوجود بچنا مشکل ہو تو پھر اللہ کے وعدہ پر مکمل عمل کرکے نکاح کرے کہ نکاح کی وجہ سے اللہ جل شانہٗ اُس کو حلال اور بہترروزگار عطا کرے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)سوال ۔اگر کسی شخص نے مجبوراً اپنا یا اپنی بیوی کا نسبندی کا آپریشن کروایا ہے ۔ کیا وہ دائمی امام بن سکتاہے یا امام صاحب کی عدم موجودگی میں نماز پڑھاسکتاہے جبکہ یہ شخص قرآن وحدیث کا علم جاننے والا ہو۔
(2)سوال ۔کیا مذکورہ شخص مسجد کے اندر صفِ اول میںبیٹھ سکتاہے جبکہ کچھ لوگ یہ کہتے کہ ایسے شخص کے لئے مسجد میں آخری صف میں بیٹھنا ضروری ہے ۔
(3)سوال۔کیا مذکورہ شخص اذان دے سکتاہے اور جانور ذبح بھی کرسکتاہے ۔
(4)سوال۔اگرکوئی امام اعلانیہ مسجد کے اندر غیر اللہ کا نعرہ بلند کرے ۔ کیا اس امام کے پیچھے نمازپڑھنا شریعت کی روسے جائز ہے یا نہیں ؟
فاروق احمد
نس بندی اورامامت:چند اہم شرعی مسائل
(1)جواب۔اگر کسی شخص نے واقعی مجبوری اور اطباء کے حکم سے زوجہ کی جان بچانے کی بناء پر نس بندی کرائی ہو تو چونکہ ایسی صورت میں شریعت خاتون کی جان بچانے کی غرض سے نس بندی کی اجازت دیتی ہے اس لئے یہ شخص مستقل امام بن سکتاہے اور اس کی امامت درست ہے لیکن اگر کسی شخص نے بغیر کسی مجبوری کے صرف بچے کم کرنے اور اس دور کے چلے ہوئے نعرے کہ کم بچے اور معیاری زندگی سے متاثر ہوکر نس بندی کی ہو تو اس شخص کا نس بندی کرانا حرام ہے ۔ایسے شخص کو مستقل امام ہرگز نہیں بنایا جاسکتا۔ شریعت کا ایک اصول یہ ہے کہ جو شخص کسی گناہ ِ کبیرہ کامرتکب ہواُس کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے ۔ ہاں مقرر امام اگر موجودنہ ہوتو وقتی طور پر اُس کے پیچھے نمازپڑھی جاسکتی ہے ۔ اس سلسلے میں حدیث کی متعدد کتابوں میں یہ ارشادِ رسول ؐموجود ہے ۔ترجمہ : تم ہر نیک اور برے کے پیچھے نماز ادا کرلینا ۔ اس ارشاد مبارک کا تعلق اسی قسم کی صورتحال سے ہے ۔
(2)جواب۔نس بندی چاہے مجبوری میں کرائی گئی ہو یا بلامجبوری کے، دونوں صورتوں میں ایسا شخص صف اول میں یقینا بیٹھ سکتاہے ۔ اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے ۔
(3)جواب۔ایسا شخص اگر جانور ذبح کرے تو اس کاذبح کرنا بھی درست ہے ۔ اس میں کوئی کراہت نہیں ہے۔
(4)جواب۔اللہ کے علاوہ کسی اورکو پکارنا شرک ہے ۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے ۔ترجمہ : اس شخص سے زیادہ گمراہ اور کون ہے جو اللہ کے علاوہ کسی اور کوپکارے ۔
انسان کی ضروریات پورا کرنا ،مشکلات دورکرنا،مسائل کا حل صرف اللہ کے قبضہ ٔ قدرت میں ہے۔اس لئے غلط اورفاسد عقائد کی اصلاح کرنا ضروری ہے ۔ اگر امام اصلاح کرے تو بہتر ورنہ وہ شخص امامت کا اہل نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)سوال۔ آج کل کشمیر میں کسی مریض ہمسایہ ، رشتہ دار یا دوست کی عیادت کے لئے جاتے وقت نقدی ، پھل یا بیکری وغیرہ بطور تحفہ ساتھ لے جانے کا رواج چل پڑاہے اور خالی ہاتھ جانا باعث ننگ وعار سمجھاجانے لگاہے ۔ کیا ایسا خیال شرعی طور درست ہے ؟
(2)سوال۔اگر کسی ہمسایہ ، رشتہ دار یا دوست کے ہاں شادی بیاہ کے موقع پر ناچ نغمے ، بے پردہ خواتین کا گانا بجانا اور ضیافتوں کا غیر ضروری اور غیر شرعی اہتمام ہوتوکیا اس دعوت میں حاضر ہونا درست ہے ۔ اگر غیر حاضر رہیں تو گھمنڈ ، تکبر اور قطع رحمی کا الزام لگنے کا اندیشہ ہے ۔
(۳)سوال۔تقلید کا لفظی معنی کیا ہے ؟ تقلید کیا ضروری کرتی ہے جب کہ غیر مقلد کہتے ہیں ۔ تقلید ضروری نہیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں مطلع کریں ۔ ہمارے لئے کیا ضروری ہے ؟
یکے از نمازی … مسجد تقویٰ،بارہمولہ
عیادت کیلئے تحائف لے جانا
(1)جواب۔ رسم کی بنیاد پر کوئی رقم یا نقدی کے علاوہ کوئی پھل، میوہ یا تحفہ دینا کوئی اجر وثواب کا عمل نہیں ہے۔ شرعاً ہدیہ وہ چیز ہے جو انسان اپنی خواہش اور دل کی رضا سے صرف محبت کی بناء پر دوسرے کو دے اور واپس کسی چیز کے ملنے کی نہ چا ہت نہ لالچ اور ہدیہ لینے والا بھی اپنے ذمہ اس ہدیہ کا عوض دینا لازم نہ سمجھے ۔
ہمارے معاشرے میں شادی کی تقریبات ، بچے کی ولادت ، امتحان میں پاس ہونے اور اس طرح کے دوسرے مواقع پر جو ہدایا اور تحائف دئے جاتے ہیں ان میں شرعی طور پر متعدد خرابیاں ہیں ۔ اس لئے سب سے بہتر یہ ہے کہ لین دین کے اس غیر شرعی طریقے سے بچ کر تقریبات میں شرکت ہو اور اسی طرح عیادت بھی ہو اور مبارک بادی بھی ہو ۔ اگر کچھ دیا جائے تو خلوص کی بناء پر دوسروں سے چھپا کر واپسی کی اُمید کے بغیر اپنی مالی وسعت کے مطابق دیا جائے ۔
شرعی منکرات کی حامل دعوت میں شرکت
(2)جواب۔جس دعوت پر شرعی منکرات ہوں اُس دعوت میں شریک ہونا سنت کجا گناہ ہے ۔ اگر قرابت داری کے تقاضہ یا صلہ رحمی کے جذبہ سے شرکت کرنی پڑے تو ان منکرا ت سے اپنے آپ کو بچانا بھی ضرورت ہے ۔ جیسے کوئی دوامضر ہوتو اس کے مضراثرات کا تدارک کرنے کا اہتمام کرنے کے بعد اس دوائی کا استعمال کرنا چاہئے ۔ اسی طرح اس مسئلہ میں بھی یہی حکم ہے ۔
(3)جواب۔تقلید کی حقیقت ،ضرورت ،افادیت وغقرہ کے لئے یہ کتابیں پڑھیں ۔ الکلام المفسر از مولانا سرفراز خان ،تقلید کی شرعی حیثیت از