مفتی نذیر احمد قاسمی
نکاح سے قبل منسوب لڑکے اور لڑکی
کا میل جول غیرشرعی
سوال-:۱ کشمیر میں عام طور پر ایسا ہوتاہے کہ لڑکے اور لڑکی کی منگنی ہوجانے کے بعد نکاح سال دو سال کے بعد ہی ہوتاہے تو نکاح سے پہلے لڑکا لڑکی کی موبائل پر بات کرتے ہیں ،گاڑیوں میں ایک ساتھ گھومتے ہیں ، باغوں میں ایک ساتھ ٹہلتے ہیں تو کیا ایسا کرنا ان کے لئے جائز ہے ، نیز جس لڑکی سے شادی کرنی ہو تو کیا اس کو نکاح سے پہلے دیکھ سکتے ہیں یا نہیں ؟
سوال-:۲- یہاں شادی کے موقعہ پر دلہا کے ساتھ پچاس افراد سے زائد باراتی ہوتے ہیں اور لڑکی والے کے گھر کھانا کھاتے ہیں ۔ تو کیا لڑکے والوں کے لئے لڑکی والوں کے گھر کھانا جائز ہے ؟
قرآن و سنت کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں ۔
آفتاب احمد۔۔۔ سرینگر
جواب:۱-صرف منگنی ہونے کی بناء پر لڑکا اور لڑکی شرعی طور پر محرم نہیں بن سکتے ،وہ آپس میں نامحرم ہی رہتے ہیں ۔ اس لئے صرف منگنی ہونے پر ملاقاتیں کرنا ، گھومنے پھرنے کا سلسلہ قائم کرنا ، موبائل پر اُس طرح ضرورت وبے ضرورت کی باتیں کرنا جیسے حقیقی میاں بیوی کرتے ہیں ، فوٹو گرافی کرنا، ہوٹلوں ، پارکوں اور ریسٹورنٹ کے خلوت خانوں میں بیٹھنا ، یہ سب سراسر ناجائزاو رحرام ہے ۔ اس لئے کہ منگنی کی حیثیت نہ شرعی نہ قانونی اور نہ اخلاقی طور پر کسی درجہ میں قابل قبول ہے ۔ یہ صرف ایک وعدہ ہوتاہے اس لئے اگرخدانخواستہ آگے کسی وجہ سے یہ رشتہ برقرار نہ رہا تو نہ طلاق کی ضرورت نہ مہرکا مطالبہ ہوسکتاہے ۔ لہٰذا یہ طے ہے کہ صرف منگنی کی بناء پر لڑکا اور لڑکی آپس میں شرعی اورقانونی دونوں اعتبار سے اجنبی رہتے ہیں ۔ اس لئے نکاح سے پہلے دوری قائم کریں ۔
ہمارے سماج میں بھی جب صالح اقدار قائم تھیں تو اس کا تصور بھی نہیں ہوسکتاتھاکہ صرف منگنی کے بعد لڑکی گھومنے پھرنے نکل جائے اور آج بھی شریف ، مہذب اور دین دار گھرانوں کا حال یہی ہے ۔
منگنی کے بعد کسی روک ٹوک کے بغیر ملنے جلنے اور ملاقاتوں اور بے تکلف اظہار تعلق کے بُرے نتائج مسلسل نمودار ہوتے رہتے ہیں ۔ چنانچہ بدنامی ہونا، لوگوں کی نظروں میں مطعون ہونا اور عوام کے اس بُرے اور فحش انداز میں آوارہ پھرنے سے غیبت اور موضوع سخن مہیا کرنے کا بُرا عمل تو ہے ہی لیکن کبھی نکا ح سے پہلے یہ لڑکا ولڑکی بوس کنار کی حد تک پہنچ جاتے ہیں ۔حتیٰ کہ جنسی تعلقات قائم کرنے کے واقعات بھی سرزد ہوتے ہیں۔ اس پر سوائے آہ بھرنے کے اور کیا کہا جائے کہ منگنی کے بعد غیر شرعی ملاقاتوں کا نتیجہ کیسا بُرا ہے۔
غرض کہ صرف منگنی کے بعد لڑکے اور لڑکی کو ہرگز یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ہم میاں بیوی ہیں اور جیسے اجنبی دور رہتے ہیں اسی طرح ان کو بھی مکمل دوری برقرار رکھنی چاہئے ۔ اس کے ساتھ ہی دونوں کے والدین پر یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ منگنی کی فضول ، بے فائدہ اور غیر شرعی رسم کے بجائے نکاح کردیں تاکہ اس کے بعد یہ اگر ملاقات قائم کریں تو کم از کم شرعی طور پر یہ غیر شرعی ملنا جلنا نہ رہے اور وہ گناہ سے بچ سکیں گے ۔ اگرچہ رخصتی سے پہلے ملاقاتیں کرنا بھی کئی اعتبار سے بہتر نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لمبی لمبی باراتیں،اسراف کاکُھلامظاہرہ
جواب:۲- دولہا کے ساتھ بارات کے عنوان سے جو بہت بڑی فوج روانہ ہوتی ہے۔ یہ طرح طرح کی شرعی ، اخلاقی ،معاشی اور معاشرتی خرابیوں کا مجموعہ ہے ۔اس لئے باراتوں کا یہ سلسلہ کسی طرح بھی شرعاً قابلِ قبول نہیں۔ اس میں لڑکی والوں پر غیر شرعی مالی بوجھ ہے ۔ یہ دعوت بھی کوئی شرعی دعوت نہیں ہے ۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ،صحابہ کرام ، اولیاء امت ، فقہاء ومحدثین اور اسلامی تاریخ کے روشن عہد کے دینداری سے آراستہ مسلم معاشرے میں بارات کا کہیں کوئی سراغ نہیں ہے۔
اس بارات کی وجہ سے وقت کا ضیاع ،سڑک پر چلنے والوں کے لئے طرح طرح کی رکاوٹیں جو کہ حرام ہیں ۔ پھر لڑکی والوں کا غیر شرعی انداز میں استقبال ، عورتوں کا سڑکوں پر نکل کر رقص کرنا اور گانے بجانے کا حرام عمل ، اور آخرمیں لڑکی والوں کا فضول خرچی اسراف کے ساتھ کھانا اور دوسری طرح طرح کی خرابیاں کھلا ہوا مشاہدہ ہے ۔
اس لئے بارات کا یہ سلسلہ جو ہمارے معاشرے میں ایک ایسا ناسور بن چکاہے جس میں دین بھی تباہ ، بہت ساری دولت بھی ضائع ، اسراف کی حدوں سے بھی اوپر پہنچ کر فضول خرچی کا مظاہرہ ، وقت کا ضیاع اور عموماً حرام دولت کی ریل پیت اور یہی حرام لقمہ بطور فخر کھانا کھلانا وغیرہ بہت ساری خرابیاں ہیں اس لئے یہ مکمل طور پر قابلِ اصلاح بلکہ قابلِ ترک ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ورتائو :ہدیہ، تحفہ یا امانت ؟
سوال:-یہاں کشمیر میں ورتائو(گلہ میوٹھ) یا دست بوس کے نام سے جورسم جاری ہے جس میں مختلف اقسام کی اشیاء ،جن میں کچھ بہت قیمتی اور کبھی کچھ کھانے پینے کی چیزیں ہوتی ہیں ۔ اس ورتائو کے متعلق مفصل بحث اور تفصیلی حکم تحریر کرنے کی گذارش ہے۔اس میں یہاں کے علماء ،وکلاء اور محلہ کمیٹیوں کے ذمہ داران بھی کنفیوژن میں رہتے ہیں اور جب اس سلسلے میں فیصلہ کرنے بیٹھتے ہیں تو طرح طرح کے اختلافات سامنے آتے ہیں اور پھر یہ متعین نہیں ہوپاتا کہ اصل شرعی حکم کیا ہے ۔ اس لئے تفصیل کے ساتھ ’’کشمیرعظمیٰ‘‘ کے اس مقبول ومفید کالم میں جواب شائع فرمائیں۔
ریاض احمد بٹ …بانڈی پورہ
جواب:۔ داراصل ورتائو یا گلہ میوٹھ ایک ایسی رسم ہے جس کو شریعت کے کسی دائرے میں لانا ہی مشکل ہے ۔ اسے امانت نہیں کہہ سکتے ۔ اس لئے وہ استعمال کرنے ، خرچ کرنے یا کھانے کے لئے دیا جاتاہے ۔ جب تک امانت کو جوں کا توں واپس کرنا ضروری ہے ۔ اسے ہدیہ یا تحفہ کہنا بھی مشکل ہے ۔ اس لئے کہ اسے مزید اضافہ کے ساتھ واپس کرنا ضروری ہوتاہے اور اسی لئے اسے لکھ کر رکھنا ضروری سمجھا جاتاہے اور ادا نہ کریں یا اضافہ نہ کریں تو ناراضگی لازمی ہے جب کہ ہدیہ میں واپس لینے کی کوئی نیت ہی نہیں ہوتی وہ محبت پانے کے جذبہ سے دیا جاتاہے نہ کہ مادی عوض کی غرض سے تو یہ ہدیہ بھی نہیں ۔
اسے قرضہ کہنا بھی مشکل ہے اس لئے کہ یہ قرض کہہ کر نہ لیا جاتانہ دیا جاتاہے اور واپسی اگرچہ ضروری ہوتی مگر اس کے بدلے میں کوئی برتر چیز یا نسبتاً زیادہ رقم ۔لہٰذا یہ قرض بھی نہیں…اسے صدقہ بھی نہیں کہہ سکتے ۔اس لئے کہ صدقہ میں اجروثواب مقصود ہوتاہے اور واپس لینے کی نہ کوئی نیت ہوتی ہے نہ توقع اور صدقہ غریب سمجھ کر دیاجاتاہے۔جب یہاں ایسا بھی نہیں ہے ۔کیونکہ یہاں رشتہ داری اور تعلقات کی وجہ سے دیا جاتا ہے نہ کہ غربت کی وجہ سے ۔
اس صورتحال میں سب سے افضل یہ ہے کہ ورتائو کا یہ سلسلہ ختم کردیا جائے اور ہدیہ دینے کا سلسلہ شروع کیا جائے اور وہ یہ کہ اپنے اقارب احباب کو کسی بھی خوشی کے موقعہ پر اپنی وسعت کے بقدر کچھ بھی بطور ہدیہ دیں اور نہ تو اپنے ذہن میں رکھیں کہ یہ واپس ملیں گے اور نہ ہی بہی کھاتہ بنا کر رکھیں ۔ پھر وہ چاہیں تو کسی موقعہ پر ہدیہ دیں یا نہ دیں اور کم دیں یا زیادہ پہلے شخص کو نہ کوئی گلہ ہونہ شکوہ ۔ بس صرف یہ ایک شکل درست ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٔسوال(۱)نکاح ہوچکا ہے ،ابھی رخصتی نہیں ہوئی ہے تو بیوی کا نفقہ شوہر پر لازم ہوگا یا نہیں؟
سوال(۲) زوجہ شوہر کے ظلم و ستم کی بناء پر میکے میں مقیم ہو اور شوہر اُس کی کوئی خبر گیری نہ کرے تو زوجہ کا نفقہ شوہر پر لازم ہوگا یا نہیں؟
سوال (۳) اگر زوجہ کو طلاق ہوگئی ہو اور اُسے طلاق تسلیم ہو یا تسلیم نہ ہو ،دونوں صورتوں میں اس طلاق شدہ عورت کو نفقہ ملے گا یا نہیں؟اگر نفقہ ملے گا تو کتنے عرصہ تک ملے گا؟
عبدالمجید ،بمنہ سرینگر
اختصار کے ساتھ جوابات درج ہیں۔
نفقہ لینے کے مسائل
رخصتی سے قبل لازم نہیں
جواب(۱) زوجین کے درمیان حقوق لازم ہونے کے لئے صرف نکاح ہونا کافی نہیں ہے بلکہ رخصتی ہونا ضروری ہے۔اس رخصتی کو شریعت کی اصطلاح میں تسلیم نفس کہتے ہیں ۔لہٰذا اگر صرف نکاح ہوا ہے مگر تسلیم نفس یعنی رخصتی نہیں پائی گئی ہے تو زوجہ کا نفقہ شوہر پر لازم نہ ہوگا ۔
میکے میں مقیم خاتون کے لئے لینا جائز
جواب(۲) اگر کوئی زوجہ شوہر کے ظلم و زیادتی کی بنا پر میکے میں مقیم ہو اور شوہر اُس کی خبر گیری نہ کرتا ہو تو زوجہ کو حق ہے کہ وہ شوہر سے نفقہ کا مطالبہ کرےاور جب وہ مطالبہ کرے تو شوہر کو نفقہ دینا لازم ہوگا۔
ایام عدت کے بعد مطالبہ غیر شرعی
جواب(۳) اگر کسی خاتون کو طلاق ہوگئی ہو تو اس عورت کو صرف عدت کے ایام کا نفقہ لینے کا شرعاً حق ہے۔جونہی عدت گذر جائے گی ،یہ مرد اُس کے لئے مکمل طور پر اجنبی بن جائے گا اور اجنبی سے کوئی رقم بطور ِ نفقہ لینا شرعاً درست نہیں ہے۔عورت کو طلاق کا علم ہو یا نہ ہو ،اور اُسے طلاق تسلیم ہو یا نہ ہو ،نفقہ صرف عدت کے ایام تک لازم ہوتا ہے ،اُس کے بعد نفقہ کا مطالبہ اور حصولیابی غیر شرعی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔