سوال: ضعیف حدیث سے کیا مراد ہے اور حدیث ضعیف کیسے ہوتی ہے؟ کیا ہر آدمی کو اختیار ہے کہ وہ کسی بھی حدیث کو ضعیف کہے؟کیاعام آمدمی ضعیف حدیث کی پہچان کرسکتا ہے؟ اور ضعیف حدیث پر عمل کرنے کے متعلق کیا حکم ہے؟
تنویر احمد
بونیار
حدیثِ ضعیف……..ایک مختصر توضیح
جواب:۔ اصول حدیث کے مطابق وہ حدیث جس میں پانچ اوصاف پائے جائیں وہ حدیث صحیح کہلاتی ہے ۔ وہ ہیں
(۱) اُس حدیث کو روایت کرنے والے تمام راوی عادل یعنی مکمل دیندار ہوں۔ عقائد درست، اعمال مکمل اور کبیرہ گناہوں سے محفوظ ہوں ۔
(۲) تمام راوی قوت حافظہ اور حدیث کو ضبط اور محفوظ کرنے میں مکمل طور پر معتبر ہوں۔ یعنی حافظ کامل و مکمل ہو۔
(۳) اُس حدیث کی سند میں کوئی انقتاع نہ ہو یعنی درمیان میں کوئی راوی ساقط نہ ہوا ہو۔
(۴) وہ حدیث شاذ بھی نہ ہو۔ شاذ وہ حدث ہوتی ہے جو زیادہ قابل واعلی درجہ کے راویوں سے مختلف ہو۔
(۵) اُس حدیث کی سندمیں کوئی ایسی علت( خرابی) نہ ہو کہ جس سے وہ حدیث معلول قرار پائے۔ یعنی کوئی مخفی نقص نہ ہو۔
ان پانچ اوصاف میں سے جس حدیث میں صرف دوسرا وصف مفقود ہو، یعنی جس حدیث کے راوی حفظ و ضبط کے اعتبار سے کمزور ہوں اور بقیہ تمام اوصاف اُس حدیث میں موجود ہوں وہ حدیث حسن کہلاتی ہے۔ گویا حدیث حسن کا درجہ حدیث صحیح سے کم تر ہے۔ اور جس حدیث میں پہلا وصف نہ پایا جائے وہ حدیث ضعیف کہلاتی ہے اور یہ ضعف شدید قسم کا ہے۔ اگر کسی حدیث میں تیسرا، چوتھا یا پانچواں وصف نہ پایا جائے وہ بھی حدیث ضعیف کہلاتی ہے ۔ مگر اس کا ضعف نسبتہً کم درجہ کا ہے۔
اب اوپر کی اس تفصیل کا خلاصہ عام فہم لفظوں میں یہ ہوا کہ جس حدیث کے راوی عادل نہ ہوں یعنی وہ کسی دینی نقص میں مبتلا ہوں، وہ حدیث بھی ضعیف ہے اور جس حدیث کی سند میں انقطاع ہو یعنی درمیان میں کوئی راوی چھوٹ رہا ،وہ منقطع کہلاتی ہے اور یہ بھی ضعیف کی ایک قسم ہے اور جس حدیث میںشذوذ ہو وہ حدیث شاذ کہلاتی ہے یہ بھی ضعیف ہے اور جس حدیث میں کوئی ایسی کمی ہو جس کو حدیث کا بہت بڑا ماہر مثلاً امام بخاری یاامام مسلم یا ابو حاتم یا دار قطنی وغیرہ بیان کرے وہ حدیث معلول کہلاتی ہے ۔یہ بھی ضعیف ہوتی ہے۔ کسی حدیث کے ضعیف ہونے کا فیصلہ اصول حدیث، اسمائے الرجال، علم الاسناد ،علم علل الحدیث اور علم الجرح ولتعدیل کے ماہرین ہی کرسکتے ہیں۔ آج کے عہد میں تقریباً تمام محدثین خود کو ئی فیصلہ کرنے کے بجائے قدیم ماہرین کے فیصلوں کو ہی نقل کرتے ہیں ۔جس حدیث کو ائمہ حدیث نے ضعیف کہا بس اُس کو ضعیف کہہ دیتے ہیں۔ اگر چہ عالمی سطح پر کچھ ایسی شخصیات ہوسکتی ہیں جو خود اپنی تحقیق کی بنا پر کسی حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے کا فیصلہ کر پائیں، مگر عام انسان کجا عام علماء کے بس میں بھی یہ نہیں ہے کہ وہ ازخود کسی حدیث کے ضعیف ہونے کو اپنے علم کی بنا پر جان سکیں۔ ہمارے لئے بس یہی کافی ہے کہ حدیث کے محققین نے جس حدیث کو ضعیف قرار دیا اُن کو جان سکیںاورپھر اُس پر اپنا رویہ قائم کریں ۔حدیث ضعیف سے نہ تو کوئی عمل فرض یا واجب یا حرام یا مکروہ تحریمی ثابت ہوگا اور نہ ہی کوئی عقیدہ ثابت ہوگا۔ یہ حدیث ضعیف کا حکم ہے ۔ہاں! اعمال صالحہ کی فضلیت یا اعمال حرام کی شناعت یا صحابہ، تابعین، مقامات، قبائل کی فضلیت یا جنت و جہنم کے احوال یا اخلاق کے متعلق کوئی ضعیف حدیث ہو تو اُس کونقل کرنا ،بیان کرنا اور جس مضمون کے متعلق وہ حدیث ہے اُس کےلئے استدلال کرنا درست ہے۔ چنانچہ امام بخاری نے الادب المفرد نامی کتاب لکھی اُس میں ضعیف احادیث بھی ہیں ۔اسی طرح ابودائود، نسائی ،ترمذی ،ابن ماجہ جو صحاح ستہ میں شامل ہیں، میں کثرت سے ضعیف حدیثیں موجود ہیں اور ان پر عمل بھی ہمیشہ سے ساری امت کرتی آئی ہے ۔مثلاً یہ حدیث کہ جو اذان پڑھے وہی اقامت بھی پڑھے ضعیف ہے۔ مگر امام ترمذی نے اس پر لکھا کہ امت کا اس پر عمل ہے۔ یا صلواۃ التسبیح کی حدیثیں تمام کی تمام ضعیف ہیں مگر تمام محدثین اور تمام فقہا اور تمام اولیاء اس پر عمل کرتے آئے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مبارک ،جو نہایت عظم الشان محدث تھے ،کے متعلق امام ترمذی نے لکھا کہ وہ صلواۃ التسبیح پڑھنے کا طریقہ سکھاتے تھے۔ علم دین حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے، یہ حدیث بھی ضعیف ہے۔ اگر حدیث ضعیف نقل کرنا بیان کرنا یا اُ س پر عمل کرنا کوئی غیر شرعی عمل ہوتا تو پھر صحاح ستہ کے یہ محدثین اپنی کتابوں میں ہر گز نقل نہ کرتے۔ لہٰذا آج اگر کوئی اپنا اصول مقرر کرے تو وہ انحراف ہے ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ امام بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں تعلیقات ذکر کی ہیں،اور تعلیقات اُن احادیث کو کہتے ہیں جن کی سند کے ابتداء میں انقطاع ہو اور یہ انقطاع بھی حدیث کو ضعیف بنا دیتا ہے۔ یا مثلاً امام بخاری کبھی ترجمعتہ الہاب یعنی عنوان میں ضعیف حدیث نقل کرتے ہیں ۔مثلاً نکاح کے بیان میں ایک جگہ عنوان یہ لگا یا،لاَ نِکاحَ اِلّا بِولِیّ ۔یہ ترمذی کی حدیث ہے اور ضعیف ہے مگر امام بخاری نے اس کو نقل کیا اور اُن کی رائے یہی ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح درست نہیں۔ خلاصہ یہ کہ حدیث ضعیف کے متعلق ایک معتدل رویہ اپنانا ضروری ہے اور وہ رویہ محدثین نے طے کر دیا ہے اور وہ یہ کہ حدیث ضعیف نہ تو حدیث موضوع کی طرح قابلِ ترک اور قابل درہے اور نہ حدیث صحیح یا حدیث حسن کی طرح ہر جگہ قابل قبول ہے۔
……………………………
سوال:۔ جنازے کو قبرستان لے جاتے وقت آگے چلنے والے آدمیوں کے کندھوں پر مردے کا سررکھنا چاہئے یا پائوں؟
جمیل احمد خان
جنازے میں میت کا سر آگے ہو
جواب :َجب میت کو قبرستان کی طرف لے کر چلیں تو میت کا سر آگے کی طرف رکھا جائے۔ میت کے پائوں آگے کی طرف رکھنا خلاف سنت ہے، یہی متوارث طریقہ ہے اور پورے عالم میں اس پر عمل ہے۔ فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے کہ جنازہ لے کر چلنے کے وقت میت کا سرآگے رکھا جائے ۔حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی نے فتاویٰ محمودیہ میں لکھا کہ میت کے پیر آگے کرنا خلاف سنت ہے۔
……………….
سوال: کیا ویڈیو کال کے ذریعہ نکاح ہوسکتا ہے؟
سوال:۔ کیا قبرستان میں روڑ غیرہ بنانے کی اجازت ہوسکتی ہے؟
سوال:۔ کیا ایک مدرس اپنی جگہ متبادل رکھ سکتا ہے او ر اس کےلئے اس مہینہ کی تنخواہ درست ہے یا نہیں؟ قرآن و حدیث کے مطابق جواب دیکر رہنمائی فرمائیں؟
مولوی جاوید احمد رحیمی بٹ
ڈوڈہ
ویڈیو کال کے ذریعہ ایجاب و قبول غیر درست
جواب ویڈیو کال کے ذریعہ اگر نکاح اس طرح پڑھا جائے کہ نکاح کا ایجاب یا قبول کرنے والا دوسری کسی جگہ پر ہو اور وہ فون پر بذریعہ کال ایجاب یا قبول کرے تو یہ نکاح درست نہیں ہوگا۔ اس کےلئے ضروری ہے کہ نکاح کی مجلس میں ایجاب و قبول کرایا جائے۔ لہٰذا مجلس نکاح میں لڑکے اور لڑکی دونوں طرف سے وکیل حاضر ہوں اور اُن کے درمیان نکاح کا ایجاب و قبول کرایا جائے۔ شرعاً لازم ہے کہ ایک ہی جگہ ایک ہی مجلس میں نکاح کی پیشکش اور نکاح کی قبولیت پائی جائے۔
قبرستان میں سڑک نکالنے کا مسئلہ
جواب اگر قبرستان وقف کی اراضی ہے تو اُس میں سڑک بنانے کی اجازت نہیں ہے۔ اسلئے کہ وقف کو صرف اس مصرف میں صرف کرنا لازم ہے ،جس کےلئے زمین وقف کی گئی ہے۔ ہاں! اگر قبرستان شاملات کا یاہچرائی وغیرہ کی زمین میں ہے تو اس میں سڑک بنانے کی اجازت ہے مگر جہاں جہاں قبر یں ہوں وہاں سے سڑک نکالنا درست نہیں ہے۔ قبروں کااحترام برقرار رکھناضروری ہے قبروں سے خالی حصہ میں سڑک نکال سکتے ہیں۔
درس و تدریس کیلئے متبادل کا تقرر
جواب کوئی مدرّس کسی مجبوری کی وجہ سے اگر کسی اور شخص کواپنی جگہ پڑھانے کےلئے مقرر کرنا چاہئے تو اس کےلئے ضروری ہے کہ وہ پہلے انتظامیہ سے اجازت لے کہ وہ پنی جگہ کسی اور کو وقتی مجبوری کی وجہ سے پڑھانے کےلئے مقرر کرنا چاہتا ہے تاکہ بچوں کے تعلیمی نقصان سے تحفظ ہو۔ جب انتظامیہ اجازت دے تو پھر حرج نہیں ہے ۔ اس کے بغیر ایسا کرنا خیانت کے زمرے میں آسکتا ہے۔
سوال :- کیا مقررہ وقت سے پہلے کوئی بھی نماز ادا کی جاسکتی ہے ؟
علی محمد بٹ
وقت سے پہلے نماز ادا نہیں ہوتی
جواب:- قرآن کریم میں صاف اور واضح ارشاد ہے جس کا ترجمہ یہ ہے۔ بلاشبہ نماز اہل ایمان پر وقت پر فرض ہے۔ حدیث میں ہے حضرت نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پوچھا گیا کہ افضل ترین عمل کون سا ہے ؟ آپؐ نے جواب میں ارشاد فرمایا: نماز اپنے وقت پر پڑھنا۔اس لئے احادیث کی کتابوں میں بھی اور فقہ کی کتابوں میں بھی اوقات نماز کا مستقل بیان ہوتاہے۔ اْس میں ہر ہر نماز کا وقت آغاز اور وقت اختتام بتایا گیا۔ اگر وقت آغاز سے پہلے نماز پڑھی جائے تو وہ نماز ہی ادا نہ ہوگی۔ یہ ایسا ہی ہے کہ صبح صادق سے پہلے فجر ، یا غروب آفتاب سے پہلے مغرب کی نماز پڑھی جائے۔اسی طرح غروب شفق سے قبل نمازِ عشاء پڑھی جائے تو وہ عشاء ادا ہی نہ ہوگی۔ جیسے غروبِ آفتاب کا وقت جنتریوں سے معلوم ہوجاتاہے اسی طرح غروب شفق کا وقت بھی معلوم ہوجاتاہے اور یہی شروعِ عشاء کا وقت ہے۔ اگر وقت مقررہ کے بعد نماز پڑھی جائے تو وہ قضاء ہوگی۔بہرحال ہر نماز اپنے وقت پر پڑھنا ضروری ہے۔