سوال :-آج شعبان کا مہینہ چل رہاہے۔ شعبان میں شب برات ایک اہم دن ہے۔ اس شب کے بارے میں کیا فضیلت ہے۔ اس بارے میں حدیثوں میں کیا بتایا گیا ہے۔ یہ احادیث کس درجہ کی ہیں۔ اس شب میں کیا کیا عمل کرنا چاہئے ؟
امت مسلمہ کاطریقہ عمل اس بارے میں کیا ہے ؟
ماسٹر محمدیعقوب
شب برات کی فضیلت اور اہمیت
جواب:-شب برات کو احادث میں لیل من نصف شعبان یعنی ماہِ شعبان کی درمیانی شب کہاجاتاہے۔اس کی فضیلت کے متعلق بہت ساری احادیث ہیں۔جن میں سے چند یہ ہیں۔
حضرت معاذ بن جبل ؓبیان کرتے ہیں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ جل شانہ شعبان کی پندرھویں رات میں اپنی مخلوق کی طرف خصوصی توجہ فرماتے ہیں۔ پھر اپنی تمام مخلوق (انسانوں)کی مغفرت فرماتے ہیں سوائے مشرک اور کینہ رکھنے والے شخص کے۔ یہ حدیث صحیح ہے۔ یہ حدیث کتاب السن ، صحیح ابن حیان ، مواردالظمٰان، شعب الایمان البیہقی، معجم الکبیر (طبرانی) ‘ مجمع الزوائد ،الترغیب المنذری، درمنشور السیوطی وغیرہ میں موجود ہے۔ اس حدیث کی سند کی تحقیق علامہ ناصر الدین البانیؒ نے فرمائی ہے اور اس کو صحیح حدیث قرار دیاہے۔
حضرت ابو ثعلبہ نقل فرماتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ شانہ پندرھویں شعبان کی رات کو اپنی مخلوق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں پھرتمام اہل ایمان کی مغفرت فرمادیتے ہیں مگر کینہ پرور لوگوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔
یہ حدیث کتاب السن (حافظ ابن عاصم) شعب الایمان (بیہقی)درمنشور (سیوطی) میں موجود ہے۔ اس کی تحقیق بھی علامہ ناصر الدین البانی ؒ نے فرمائی ہے۔ ملاحظہ ہو سلسلہ الاحادیث الصحیح۔۳…۱۳۶ حدیث ۱۱۴۴۔
حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ ایک رات حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس موجود نہ پایا تو میں تلاش میں نکلی۔میں نے اْن کو جنت البقیع (مدینہ منورہ کا قبرستان) میں پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ کر فرمایا عائشہ کیا تم نے یہ سوچا کہ اللہ اور اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم پر حق تلفی کریں گے ؟ حضرت عائشہؓفرماتی ہیں کہ میں نے جواب میں عرض کیا کہ حضرت میرے دل میں خیال آیا کہ شاید آنجنابؐ کسی اور زوجہ سے ملاقات کے لئے تشریف لے گئے ہیں۔ اس پر اللہ کے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ آج پندرھویں شب ِ شعبان میں اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر تشریف لاتے ہیں او رقبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ تعداد کے لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں۔یہ حدیث حسن ہے اور یہ حدیث ترمذی ، ابن ماجہ ، مصنف ابن ابی شیبہ ، مسند احمد ، شعب الایمان ، جامع الاصول میں موجود ہے۔تحقیق کے لئے دیکھئے سلسلہ الاحادیث الصحیحہ از علامہ البانیؒ۔
حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شعبان کی پندرھویں شب ہو تو رات کوعبادت میں کھڑے رہو اور اگلے دن روزہ رکھو۔اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اس شب میں غروبِ آفتاب کے وقت آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور اعلان فرماتے ہیں کہ ہے کوئی معافی مانگنے والا ؟جس کو میں معاف کروں۔ ہے کوئی رزق طلب کرنے والا ؟جس کو میں عافیت عطا کروں۔ ہے کوئی کسی چیز کو طلب کرنے والا؟ میں اس کی مراد پوری کروں۔
یہ حدیث ابن ماجہ ،شعب الایمان ، کنزالعمال ، مشکوٰۃ الترغیب والترھیب میں بھی ہے۔ بعض حضرات نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیاہے۔
اس رات کی فضیلت کے متعلق اور بھی احادیث ہیں جن سے یہ ثابت ہوتاہے کہ اس رات میں عبادت کرنا ثابت بھی ہے اور یہ باعث اجروثواب بھی ہے۔ چنانچہ ترمذی کی مشہور شرح تحفت الاحوذی میں شیخ عبدالرحمٰن مبارک پوری نے لکھاکہ یہ تمام احادیث اس بات کی دلیل اور اْن لوگوں کے خلاف ایک حجت ہیں جن کا گمان یہ ہے کہ اس رات کی کوئی فضیلت ثابت نہیں۔ ملاحظہ ہو تحفٔ الاحوذی۔ اس لئے ان احادیث کی بناء پرتمام فقہاء محدیثین اور اولیاء امت کے ساتھ تمام مسلمان ہر دور میں اس رات میں عبادات کا اہتمام کرتے ا?ئے ہیں۔ چنانچہ چاروں مسالک کے فقہاء نے اپنی کتابوں میں اس رات میں عبادت کو مسنون قرار دیاہے۔
فقہ حنفی کی کتاب الجرالرائق ، درمختار ، فتح المعین ، دارالحکام ، مرافی الفلاح ، فتاویٰ عالمگیر ہیں۔
فقہ شافعی میں خود حضرت امام شافعی کی لکھی ہوئی شہرۂ آفاق کتاب ’’الام‘‘ میں، فقہ حنبلی کی کتاب کشف القناع وغیرہ میں اس رات کی عبادت کا بیان ہے اور ترغیب دی گئی کہ عبادات کا اہتمام کیا جائے اور چاروں فقہاء کی کتابوں میں پندرھویں تاریخ کو روزہ رکھنے کے مسنون یا مستحب ہونے کا بیان ہے۔ اس لئے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ احادیث میں جن افراد کی مغفرت نہ ہونے کا بیان ہے وہ یہ ہیں شرک کرنے والا ،ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا ،رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے والا ،کینہ وحسد رکھنے والا،شراب پینے والا ،ناحق قتل کرنے والا ، تکبر کی وجہ سے ٹخنوں سے نیچے کپڑا رکھنے والا۔دراصل اس رات میں انفرادی عبادت ہے۔ یہ کوئی جشن منانے کا عمل نہیں۔غیر شرعی امور میں مبتلاہوکراللہ کی رحمت کے بجائے اْس کے غضب کا شکار ہونا کوئی ایمانی حس رکھنے والے کا کام ہرگز نہیں۔ اس لئے چراغاں کرنا،پٹاخے سر کرنا اور اس جیسی خرافات ایذائے مسلم ہے جو کہ حرام ہے۔اس لئے یہ طے ہے کہ یہ تمام کام شرعاً درست نہیں ہیں۔ نوافل ،تلاوت ، تسبیحات اور دعائوں میں مشغول ہونا ہی اس شب کی عبادت ہیں جو خواتین عذر میں ہوں وہ تازہ وضو یا غسل کرکے جائے نماز پر تسبیح ، تہلیل یعنی کلمہ طیبہ ،کلمہ شہادت ، کلمہ تمجید ، کلمہ توحید ، کلمہ استغفار اور درود شریف کا خوب ورد کریں اور دعائوں میں کافی وقت تک مشغول رہیں۔ نماز وتلاوت اْن کے لئے منع ہے۔مساجد کے منتظمین مغرب سے عشا تک مسجدوں میں مختصر اور جامع اثر انگیز ایمان افروز عمل پر کھڑا کرانے کا وعظ کرائیں اور پھر عشاء کے بعد تمام لوگ کو اپنے اپنے ذوق ، جذبہ اور شوق عمل کے مطابق مذکورہ عبادات میں مشغول رہیں اور اگلے دن روزہ رکھیں۔مساجد کے باہر مائک صرف اذان کے لئے استعمال کرنا درست ہے۔ وعظ، نماز کے لئے صرف اندر کا مائک استعمال کرسکتے ہیں۔
سوال:- میرے دو بالغ بیٹے ہیں دنیاوی تعلیم سے آراستہ ہیں ۔ وہ موجودہ تحریک کے اوائل میں ہی پیدا ہوئے حالانکہ ان کی تعلیم اسلامی سکولوں میں ہوئی لیکن بدقسمتی سے نہ نمازی بن سکے نہ اسلامی ۔ میں انتہائی مشکل حالات میں ان کی تربیت اور پرورش کی لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ ہرروز جب اذان ہوتی ہے ان کو نماز ادا کرنے کی اصرار اور منت سماجت کرتا ہوں لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔ اگر چہ ان کی عمر 25اور 31سال کی ہوگئی ہے ۔ میں اتنا حوصلہ ہار چکاہوں کہ بعض دفعہ نماز تہجد میں خدا سے التجا کرتاہوں کہ یا تو ان امانتوں کو واپس لے لے یاانہیں ہدایت عطا کر ۔ کیامیرا ایسا کرنا ٹھیک ہے کہ غلط۔ اگر غلط ہے تو ایسا کچھ بتادیجئے تاکہ میں اپنی اولادکوعذابِ جہنم سے بچاسکوں ۔ انشاء اللہ
غلام محمد
اولاد کے لئے بددعا کرنا دُرست اور نہ اصلاح وتربیت سے دست کش ہونا صحیح
جواب:-والدین اپنی اولاد کی جسمانی پرورش کے ساتھ دینی واخلاقی تربیت کے ذمہ دار ہیں ۔ اب اگر والد نے یہ دونوں فریضے اداکردیئے ہوں اور اس کے بعد اولاد دینی یا اخلاقی اعتبار سے کسی خرابی کا شکار ہوتو یقیناً والد اُس کا ذمہ دار نہیں ہے ۔ حضرت نوح علیہ السلام اللہ کے نبی تھے اور ان کا بیٹا کافر تھا۔ توظاہرہے کہ حضرت نوح علیہ السلام اس کے ذمہ دار نہیں ہوسکتے ۔ ایسے ہی آج اگر کوئی والداپنی طرف سے اصلاح وتربیت کی پوری کوشش کرتاہواُس کے باوجود اولاد میں کوئی بُری عادت پیدا ہوجائے تو نہ تو اپنے آپ کو کوسنا دُرست ہے ۔نہ اولاد کے لئے بددعا کرنا دُرست ہے اور نہ ہی اصلاح وتربیت کی محنت سے دست کش ہونا صحیح ہے ۔ بیمار کا علاج بہرحال جاری رکھنا ہوتاہے اور مایوسی کی تمام علامتوں کے پائے جانے کے باوجود علاج موقوف نہیں کرتے ۔
آج کاماحول چونکہ بہت ہی خراب ہے اس لئے اصلاح کی مساعی کا حال یہ بنتا ہے کہ جیسے سخت اندھیرے او رطوفانی ہوائوں میں کوئی شمع جلائی جائے ۔ ظاہرہے کہ اس کے بجھ جانے کا خدشہ قدم قدم پر ہے ۔ آپ اپنے بچوں کی تربیت کے لئے یہ اصول اپنائیں ۔
۱-مسلسل اُن کے لئے دعاکریں ۔خصوصاً تہجد کی نماز میں اور یہ دعا خاص طور پر تکرار کے ساتھ کریں ۔ رب اجعلنی …الخ۔
۲-بچوںکوڈانٹنے ، کوسنے ، ان کے ساتھ ناراض ہونے ، ان کو ٹیڑھی نظروں سے دیکھنے ،اُن کو بُرا بھلا کہنے سے پوری طرح پرہیز کریں ۔ اس کے بجائے محبت ،شفقت اوربہت ہی ہمدردی کا روّیہ اپنائیں ۔ وہ پدرانہ شفقت کا اظہار محبت سے کریں ۔ خصوصاً تربیت واصلاح کے سلسلے میں بہت نرم روّیہ اپنائیں ۔
۳- ان بچوں کو یہ کتابیں پڑھنے کی ترغیب دیں ۔ ’’مثالی نوجوان‘‘،’’حیاء وپاکدامنی‘‘ ،’’نوجوان تباہی کے دہانے پر‘‘ وغیرہ۔
۴-بہت نرمی ،اپنائیت سے اور نہایت ہمدردانہ ومشفقانہ لہجے میں اُن کو سمجھائیں کہ بُرے نوجوانوں ، غلط لٹریچر ،غلط چینلوں ، اخلاق سوز ویب سائٹوں سے اپنے آپ کو دوررکھیں۔
۵-ایمان ، اعمال، اخلاق اور کردارکی بہترین تربیت کے لئے ان بچوں کو دعوت وتبلیغ کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کریں مگر اُس میں جبر ،اصرار اور زبردستی کرنے سے پرہیز کریں ۔ہاں اپنے علاقہ میں تبلیغ سے وابستہ نوجوان ہوں اُن کو کہیں کہ وہ آپ کے بچوں سے خصوصی ملاقات کریں اوراُن کو دعوت کے ساتھ جوڑنے کے لئے ایمان واعمال کی گفتگو کریں ۔
۶-ان بچوں کو یہ بات ضرور سمجھائیں کہ اب آپ کا رشتہ کرنا ضروری ہے ۔اس لئے تم کو اچھے سے اچھا ، بہتر بااخلاق ، باحیاء اور آوارگی سے محفوظ نوجوان کے روپ میں ہم سب دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ جہاں رشتہ کی بات چلائی جائے وہاں سے انکار نہ ہو۔
۷- جتنا جلد ہوسکے ان کا نکاح کرنے کے اقدامات کئے جائیں ۔ گھر کا ماحول ،تنائو ، ناراضگی ، روٹھنے اور لڑائی ، طعن وتشنیع کوہرگز نہ پنپنے دیں بلکہ محبت ، خوشی ، ہمدردی ،شفقت اور اچھے اخلاق واچھی تربیت کا ماحول بنائیں ۔
۸-اپنے گھر میں کھانے پینے ، سونے جاگنے اور عام معمولات میں سنتوں اور دعائوں کا اہتمام کریں ۔
۹-اور گھر کی مستورات کو بھی اس کا عادی بنائیں۔