سوال:۔ قران کریم میںحکم ہے کہ استعمال کی چیزیں ایک دوسرے کو دیا کرو۔ آج کل انسان کے پاس قیمتی مشینیں اور آلات ہوتے ہیں۔ جن کے استعمال میں کلی یا جزوی سطح پر تکنیکی تربیت یا تجربہ درکار ہوتا ہے ۔ ایسی صورتحال میں اگر ان چیزوں کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو تو کیا جانا چاہئے تاکہ حکم قران کی عدولی نہ ہو اور نقصان سے بھی چاجاسکے۔ قران وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں؟
احمد کشمیری۔۔۔۔ ٹنگمرگ
گھریلو استعمال کی چیزیں…….
مانگنے و دینے کی صورتیں اور قرانی و عید
جواب:۔ قران کریم میں ایک جگہ بڑی خرابی کی وعید ویلُ‘ کے لفظ سے بیان کی گئی ہے اور یہ خرابی نمازوں میں سستی کا ہلی غفلت اور اوقات کی پابندی نہ کرنے والوں کے لئے ہے اور ریاکاری کرنے والوں کے لئے ہے اور یہ خرابی اُن لوگوں کے لئے بھی ہے جو ماعون کو روکتے ہیں… سورہ الماعون
ماعون کی دو تفسیریں ہیں,ایک زکوٰۃ اور دوسرے عمومی استعمال کی گھریلو اشیاء ۔اب معنی یہ ہونگے کہ خرابی ہے زکوٰۃ روک کر رکھنے والوں کے لئے اور خرابی ہے گھریلو استعمالی اشیاء پڑوسیوں سے روک کررکھنے والوں کے لئے ۔اس کی مراد یہ ہے کہ گھروں کی وہ چھوٹی موٹی چیزیں جو ایک دوسرے کو استعمال کے لئے لینے دینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ مثلاً برتن، بسترے اور آج کل استری، سوئی دھاگا، آلات زراعت، کلہاڑی بسولہ ، گینتی، رسی، درانتی وغیرہ ایسی چیزیں استعمال کرنے سے عام طور پر خراب نہیں ہوتیں۔ ایسی اشیاء کی ضرورت پڑتی ہے تو جو لوگ اپنے ہمسایوں یارشتہ داروں کو یہ چیزیں بغرض استعمال دینے میں بخل کرتے ہیں اُن کے لئے خرابی کی وعید بیان کی گئی۔اگر کوئی نازک چیز ہو یا ایسی چیز جس کے استعمال کے لئےتکنیکی مہارت کی ضرورت ہو اور مانگنے والے کے ہاتھوں خراب ہونے کا ظن غالب ہو تو ایسی چیز روک لینے پر خرابی کی وعید نہیں ہوگی۔
اس کی مثال یہ ہے کہ کسی پڑوسی نے گاڑی مانگی اور وہ گاڑی چلانے کا ماہر ہے اور یقین ہے کہ وہ گاڑی کو کوئی نقصان نہیں پہونچائیں گے ،پھر گاڑی دینے سے انکار کر دیا تو ایسی صورت میں خرابی کی وعید ہوگی لیکن اگر خود گاڑی کی ضرورت تھی اس لئے انکار کیا یا گاڑی مانگنے والے کے متعلق ظن غالب یا یقین ہے کہ وہ خرابی کرے گا یا نقصان پہنچائے گا۔ اس لئے انکار کردیا تو اس صورت میں خرابی کی وعید نہ ہوگی۔اور یہ نہیں کہا جائے گا کہ قرآن کے حکم سے اعراض کیا گیا۔ یا مثلاً پڑوسیوں یا رشتہ داروں نے کہا کہ ہم کو چند دن کیلئے واشنگ مشین یا جنریٹر، یا فریج دو یا ٹرانسفارمر مانگ لیا۔اور یہ چیز دینے میں کوئی حرج بھی نہ ہو اور ان اشیاء کے خراب ہونے کا بھی اندیشہ نہ ہو اور مانگنے والے کے متعلق یقین ہو کہ وہ احتیاط سے ان کا استعمال کرے گا ۔ تو پھر یہ چیزیں روک لینا اُس وعید کے ذیل میں آئے گا، جو قرآن کریم میں ارشاد ہوئی ہے ۔ اگرخود ضرورت ہو، اس لئے انکا رکیا یا خرابی ہونے کا یقین ہو یا پھراس سے پہلے انکی بے احتیاطی کی بنا پر نقصان پیش آنے کا تجربہ ہو چکا ہو تو انکار کرنے پر وہ وعید نہ ہوگی جوقرآن مجید میں ارشاد ہوئی ہے۔ انکار کی وجہ سے پڑوسیوں کے درمیان غلط فہمیاں ، تلخیاں ، دوریاں اور ناراضگی کے جذبات پید ا ہوتے ہیں اس لئے ایسے انداز سے معذرت کرنی چاہئے کہ ناراضگی پیدا نہ ہو یا کم ہو۔یعنی حسن اداوحسن طرز سے معذرت کی جاے نہ کہ تلخ انداز میں انکار ۔
سوال:۔ زکوٰۃ ہر ایسے مسلمان پر فرض ہے کہ جو صاحب نصاب ہو۔ اب اگر کسی کے پاس مال ہے اور اس میں ایک حصہ حرام ہے اور زیادہ تر حصہ حلال ہے اور دونوں کو ملا کر صاحب نصاب کی رقم بن جاتی ہے تو کیا اس شخص پر زکوٰۃ دینا لازم ہے اور اگر نصف آمدنی حرام اور نصف آمدنی حلال ہے اور دنوں ملاکر صاحب نصاب کی رقم بن جاتی ہے تو کیا اس شخص کو زکوٰۃ دینا لازم ہے رہنمائی فرمائیں؟
ابرار احمد
سوپور بارہمولہ کشمیر
حرام کو حلال کے ساتھ ملا کرزکوٰۃ نکالنے پر حرام مال حلال نہیں ہوسکتا
جواب:۔ جس شخص کے پاس کچھ مال حلال اور کچھ حرام ہو اس شخص پر لازم ہے کہ حرام مال فوراً الگ کر دے ۔نہ خود استعمال کرےنہ قرضہ میں دے اورنہ کسی کو بطور قرض دیدے اور نہ ہی ا ُس سے کسی کو کوئی ہدیہ یا عطیہ دے کیونکہ اس حرام مال پر کوئی زکوٰۃ لازم نہیں ۔اب اس کے بعد شرعی طور پر اس حرام مال کو اصل مالک تک پہونچانا لازم ہے۔اگر اصل مالک کوئی اور ہے مگر اُس تک پہونچانا ممکن نہ ہو تو یہ مال اُس کی طرف سے صدقہ کرے اور ساتھ حرام طریقے سے یہ مال لینے کے جرم کی بنا پر توبہ و استغفار بھی کرے۔اگر یہ حرام مال کسی دوسرے انسان کا حق نہیں مثلاً شراب کی آمدنی ہے یا چرس کا بزنس کیا اور یہ رقم حاصل کی تو چونکہ یہ کسی اور کی ملکیت نہیں ،اسلئے یہ رقم بغیر صدقہ کی نیت کے غرباء ،فقراء، خصوصاً اسپتالوں کے پریشان حال مریضوں پر خرچ کی جائے اور ساتھ ہی توبہ بھی کرنا ضروری ہے۔
اس حرام مال کو الگ کرکے بقیہ حلال مال اگر نصاب کے بقدر ہے تو اس کی زکوٰۃ لازم ہوگی اور نصاب سے کم ہے تو زکوٰۃ لازم نہ ہوگی۔حلال و حرام ما ل مخلوط ہو اور اس مخلوط رقم کی زکوٰۃ نکالی گئی تو اس سے وہ حرام مال حلال نہیں بن سکے گا ۔ یہ شیطانی دھوکہ ہے کہ کوئی یہ سمجھے کہ حرام مال کو حلال سے ملا کر زکوٰۃ کرنے سے وہ حرام حلال بن جائے گا۔
سوال:۔ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جوں ہی مسجد شریف میں امام صاحب قرأت شروع کرتے ہیں تو کسی نہ کسی کے فون کی گھنٹی بجنے لگتی ہے۔ بہت سارے اصحاب کو یہ کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے کہ وہ فون جیب سے نکالتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ یہ کال کس نے کی ہے یا یہ مسیج(Message) کہاں سے آئی ہے، پھر فون بند کرکے جیب میں ڈالتے ہیں ۔ براہ کرم یہ فرمائے کہ کیا نماز میں ایسا کرنا صحیح ہے۔ اس سے نماز میں کوئی خلل تو نہیں پڑتا ہے؟
سوال:۔ ثواب دارین حاصل کرنے کیلئے ہم قرآن شریف۔ دلائل الخیرات۔ حزب البحر، حزب الاعظم۔ مناجات مقبول، اوراد قادریہ، اوراد فتحیہ وغیرہ کی روز تلاوت کرتے ہیں ۔ان کے علاوہ بھی چند ایک کتابوں کا حوالہ دیجئے جن کی تلاوت سے ثواب کمائیں جاسکتے ہیں؟
محمد اسلم سہروردی
حضرت بل , اسلام آباد
نماز میں بجتے موبائیل کو سنبھالنے کا مسئلہ
جواب:۔ نماز شروع کرنے سے پہلے موبائل کا سوئچ بند کرنا ضروری ہے۔ اگر یہ بھول جائے تو پھر نماز کے دوران اگر کال آگئی تو جیب میں ہی ایک ہاتھ سے موبائل کا سوئچ بند کر دیا جائے۔ اگر جیب میں سوئچ آف نہ کیا جاسکتا ہو تو ایک ہاتھ سے موبائل نکال کر دیکھے بغیر سوئچ آف کر دیا جائے۔ اس صورت میں نماز میں کوئی خلل یا خرابی نہ ہوگی۔ اس لئے کہ یہ عمل قلیل ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے نماز کے دوران مکھی یا مچھر کو ہٹایا گیا۔ حضرت نبی کریم علیہ السلام نے نماز میں ایک ہاتھ سے اشارہ فرمایا ہے۔ اور یہ واقعہ تو بخاری شریف میں ہے کہ آپ نے تہجد کی نماز میں حضرت ابن عباسؓ کو بائیں سے دائیں طرف کھینچا تھا۔ اگر کسی نے موبائل کی کال آنے پر جیب سے موبائل نکال لیا پھر یہ دیکھا کہ کوئی کال ہے یا مسیج ہے اور پھر یہ سب کچھ دیکھ کر بند کر دیا تو اس دیکھنے پڑھنے اور پھر بند کرنے کے تین کاموں کا مجموعہ عمل کثیر ہے اور جب نماز میں عمل کثیر کیا جائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے ۔ایسی صورت میں نئے سرے سے تکبیر تحریمہ پڑھ کر نمازمیں شرکت کی جائے اور اس تحریمہ سے پہلے جتنی نماز ہوئی تھی اس کو فاسد سمجھا جائے۔
تلاوتِ قرآن دنیا و آخرت میں عظیم انعامات کا سبب
جواب:۔ قرآن کریم کی تلاوت جتنی زیادہ کی جائے اتنا بہترو افضل اور بہت ہی اجر و ثواب کا عمل ہے ۔ دلائل الخیرات الحزب الاعظم، مناجات مقبول اور اوراد شریف مسنون دعائوں کے مجموعہ ہیں۔ ان کا پڑھنا بھی باعث اجر ہے۔اور کوئی کتاب ہو تو اس میں بھی یہی دعائیں ہونگی اس لئے اگر مزید کچھ اور پڑھنا چاہیں تو مزید کسی کتاب کے انتخاب کے بجائے تلاوت کی مقدار بڑھائی جائے ،جو بہر حال افضل ہے۔ اگر تسبیحات ،تحمیدات و تہلیلات کی مقدار زیادہ کی جائے تو یہ بھی عبادت ہے اور اس کے ساتھ درود شریف زیادہ سے زیادہ حتیٰ کہ ہزاروں کی تعداد میں روزانہ پڑھنے کامعمول دنیا و آخرت کے عظیم انعامات کا ذریعہ ہوگا۔
سوال:۔ ننگے سر نماز سے بچنے کیلئے مساجدوں میں جو ٹوپیاں ہوتی ہیں کیا انکو استعمال کرکے نماز پڑھ سکتے ہیں؟
محمد مظفر بن حاجی خضر محمد میر
ننگے سر نماز پڑھنا
جواب: ننگے سر نما زپڑھنا مکروہ تحریمی ہے ۔ حضرت نبی کریم ﷺ نے کبھی بھی کوئی نماز ننگے سر نہیں پڑھائی۔ نہ حضرات صحابہ نے کبھی کوئی نماز ننگے سر پڑھی ہے۔ ننگے سر نما زپڑھانا ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص پاجامہ پہن لے مگر اوپر کا سارا جسم ننگا ہو۔اب اس ناپسندیدہ طر زعمل سے بچنے کیلئے مسجدوں میں ٹوپیاں رکھی جاتی ہیں۔جب تک یہ ٹوپیاں عمدہ صاف اور قابل استعمال ہوں تو ان کو استعمال کرنا درست ہے لیکن جوں ہی یہ پُرانی ہو جائیں ۔ میلی کچیلی ہو جائیں تو ان ٹوپیوں کو سر پر رکھ کر نماز پڑھنا مکروہ اور سخت ناپسندیدہ ہے۔ اس لئے جو ٹوپی سر پر رکھ کر انسان کسی تقریب میں نہ جاسکے، کسی شادی میں شرکت کرنا معیوب سمجھے ، ایسی ٹوپی پہن کر اللہ کے سامنے کھڑا ہونے کے لئے طبیعت میں کوئی افسوس اور تکدر نہ ہو یہ عجیب ہے ۔ بہر حال ایسی میلی کچیلی ، پھٹی پرانی ٹوپیاں سر پر رکھ کر نماز پڑھنا بھی مکروہ ہی ہوگا۔ گویا یہ ایک کراہت سے بچنا اور دوسری کراہت کا ارتکاب کرنا ہے اس کا ایک ہی حل ہے کہ عمدہ اور صاف ستھری ٹوپی اپنے پاس موجود رکھی جائے۔ یا عمامہ جو سنت ہے استعمال کیا جائے۔