کتاب وسنعت کے حوالے سے مسائل کا حل

مفتی نذٰر احمد قاسمی

سوال:-انسان بکثرت دعائیں کرتے ہیں مگر قبول نہیں ہوتیں ۔اس پر تعجب بھی ہوتا، مایوسی بھی ہوتی ہے ، پریشانی بھی ہوتی اور بہت سارے لوگ تو اللہ سے نااُمید ہوکر دعا مانگنا چھوڑ دیتے ہیں ۔ اب ہمارا سوال یہ ہے کہ دعا قبول نہ ہونے کی وجوہات اور اسباب کیا ہوسکتے ہیں۔تفصیل سے بتائیں۔

دعاء عبادت ہے۔۔۔ عدم قبولیت کےاہم اسباب
اویس احمد… جموں

جواب:-ایمان والا جب بھی دعا کرتاہے تو اس کو دعا کے عبادت ہونے کی وجہ سے اُسے اجر وثواب ضرورملتاہے ۔ چاہے وہ مقصد حاصل ہویا نہ ہو اور اُس کی طلب کردہ چیز ملے یا نہ ملے ۔ثواب بہرحال ملتا ہے ۔حدیث میں ہے دعا عبادت ہے اور ایک حدیث میں ہے دعا عبادت کا مغز ہے ۔پھر دعا کے قبول ہونے کے معنیٰ یہ ہیں یا تو وہ چیز بندے کو مل جائے جو اُس نے طلب کی ہے یا اس کے عوض میں اللہ تعالیٰ اس کی کسی پریشانی کوختم کردیتے ہیں یاکسی آنے والی مصیبت کوہٹا دیتے ہیں یا اُس دعا کا بہتر عوض آخرت میں عطا کریں گے ۔ دنیا میں قبول نہ ہونے والی دعائوں کا ذخیرہ جب آخرت میں بندہ دیکھے گا تو وہ تمنّا کرے گاکہ کاش میری دنیا کی ساری دعائیں آخرت کے لئے ذخیرہ رکھی گئی ہوتیں تو زیادہ بہتر ہوتا کیونکہ وہ وہاں زیادہ محتاج ہوگا۔کھلونے خریدنے پر رقم خرچ کرنے والے کی کچھ رقم اگر اتفاقاً بچ گئی ہو او روہ اس کے علاج کے کام آئے تو وہ یہی تمنّا کرے گا کاش وہ رقم بھی محفوظ ہوتی تو آج کام آتی ۔دنیا میں فوراً دعا قبول نہ ہونے کے کچھ اسباب یہ ہیں ۔ بندہ کی کمائی حرام ہو ، کھانا پینا، بدن کا لباس اور گھر کی اشیاء حرام دولت سے حاصل کردہ ہوں تو پھر دعائیں قبول نہیں ہوںگی ۔

انسان معصیت کی زندگی گزارتا ہو یعنی اللہ کا فرض پورا نہ کرے اور اللہ کو ناراض کرنے والے کاموں سے نہ بچے ، پھر دعا کرے تو اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں ، وجہ بالکل ظاہرہے ۔کبھی اللہ اس لئے دعا قبول نہیں کرتے کہ بندہ کو اس کی مطلوب چیز مل جائے تو وہ اللہ کے سامنے گڑگڑانا بلکنا ،تڑپنا اور بے قرار ہوکر مانگناچھوڑ دے گا ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ عرصہ طویل تک بندے کو بلکتے ، تڑپتے اورگڑگڑانے کے لئے قبولیت دعا کو روک کر رکھتے ہیں پھرقبول کرتے ہیں ۔کبھی اللہ تعالیٰ صرف یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ میرا بندہ مجھ سے اُکتا کر مایوس ہوکر مانگنا چھوڑ دے گا یا مسلسل مانگتا رہے گا ۔جب بندہ نہ تو اُکتاتا ہے ، نہ ہمت ہارتاہے ، نہ مایوس ہوتاہے نہ دل ملول ہوتاہے ۔ وہ اُمید قائم رکھتاہے بلکہ دل میں یقین بٹھا کر رکھتاہے تو پھر عرصہ کے بعد اُس کی دعا قبول ہوجاتی ہے ۔

کبھی بندہ ایسی چیز طلب کرتاہے جو اُس کے خیال میں اس کے لئے اچھی اور بہتر ہوتی ہے مگر اللہ کی منشاء میں وہ اس کے لئے بہتر نہیں ہوتی تو اللہ تعالیٰ کبھی اس کی دعا قبول نہیں فرماتے ۔ مثلاً کوئی عہدہ ، کوئی رشتہ ، کوئی منصب ۔ کوئی چیز جو بندے کے تصور میں اُس کے لئے بہتر مگر اللہ کے علم میں اس کے لئے نابہتر ہوگی تو وہ قبول نہ ہوگی ۔ کبھی اللہ تعالیٰ بندہ کو کوئی اور چیز دینا طے کرچکے ہوتے ہیں مگر بندہ اُس کے علاوہ کوئی اور چیز مانگتا ہے تو اس بندہ کی دعا قبول نہیں ہوتی ۔
عمومی طور پر یہی اسباب ہیں ۔ اہل علم نے ان کے علاوہ بھی کچھ اسباب بیان فرمائے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوال:-متعدد لوگ پیشاب پھیرتے وقت اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ جس طرف منہ کرکے وہ پیشاب کررہے ہیں کہیں اس طرف قبلہ تو نہیں ؟اس کے بارے میں کیا حکم ہے ۔
فاروق احمد خان …سرینگر

قبلہ رو ہوکرپیشاب پھیرنا حرام
جواب:- بخاری ، مسلم ، ترمذی، ابودائود ، نسانی ، ابن ماجہ اور دوسری تقریباً تمام حدیث کی کتابوں میں ہے ۔
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم غائط (پیشاب پاخانہ کی ضرورت پوری کرنے کی جگہ) میں جائو تو نہ تو قبلہ کی طرف منہ کرنا اور نہ اس کی طرف پیٹھ کرنا۔اس لئے جب گھروں میں یا دفتروں میں پیشاب خانے یا بیت الخلاء بنائے جائیں تو وہ شمالاً جنوباً بنائے جائیں تاکہ قبلہ کی طرف نہ تو منہ ہو جائے نہ پیٹھ ہو۔ اسی طرح جب کوئی کھلی جگہ پر پیشاب کرے تو قبلہ کی طرف نہ استقبال کرے نہ بیٹھ کر کرے۔حدیث کی ممانعت کی وجہ سے یہ حرام ہے اور شعائر اللہ کعبہ کی توہین کی وجہ سے یہ زیادہ خطرناک ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :ریڈیو پر ایک صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ اگر کوئی شخص دوسرے سے واپسی کی رخصت لیتے ہوئے یہ کہے کہ کیا مجھے اجازت ہے اورجواب میں وہ یہ کہے کہ بسم اللہ ۔تو اس کے ایمان کو خطرہ ہے۔بیان کرنے والے بزرگ نے کہا کہ الفقہ الاکبر کی شرح جو ملّا علی قاری نے لکھی ہے ،اس میں یہ مسئلہ لکھا ہے کہ ایسا کہنے والے کے ایمان کو خطرہ ہے۔اب ہمارا سوال یہ ہے کہ رخصت دیتے ہوئے (اللہ کے حوالے) کہنے کے بجائے اگر’ بسم اللہ‘ کہا جائے تو کیا واقعی ایمان کو خطرہ ہے ۔اور ملا علی قاری کی کتاب میں کیا لکھا ہے ،اس کی وضاحت فرمائیں۔
امتیاز احمد ۔اسلام آباد

بسم اللہ کہہ کر کسی کو رخصت کرنے کا معاملہ
جواب : اگر کوئی رخصت ہوتے ہوئے جانے کی اجازت مانگے تو رخصت دینے والے کو جواب میں’ فی امان اللہ یا اللہ کے حوالے‘ بولنا بہتر اور افضل ہے ۔لیکن اگر جواب میں’ بسم اللہ‘ کہہ دیا تو اس سے ایمان کو کوئی خطرہ ہرگز نہیں۔جواب دینے والا دراصل یہ کہتا ہے کہ اللہ کا نام لے کر چل پڑو۔دراصل ہر’ بسم اللہ‘ کے ساتھ ایک لفظ محذوف ہوتا ہے اور وہ لفظ وہی ہوتا جو اُس فعل کو بتائے ،جس کے لئے بسم اللہ پڑھا گیا ہے۔جیسے کھانے سے پہلے بسم اللہ کہنے کے معنیٰ یہ ہیں کہ اللہ کا نام لے کر کھاتا ہوں یا پیتا ہوں ۔اسی طرح یہاں جواب دینے والا در حقیقت یہ کہتا کہ تم اللہ کا نام لے کر رخصت ہوجائو ،یا میں تم کو اللہ کا نام لے کر رخصت کرتا ہوں۔
شرح فقہ اکبر میں جہاں یہ مسئلہ لکھا ہے ،وہاں آگے اس کی نفی بھی کردی گئی کہ یہ مسئلہ بے اصل ہے کہ ایسے موقع پر بسم اللہ کہنے سے پہلے کفر کا اندیشہ ہے۔تو یہ مسئلہ تردید کے لئے لکھا ہے نہ کہ بیان کے لئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوال :۱کیا گالی دینے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟
سوال:۲ موبائل یا ٹی وی پر ننگا فوٹو دیکھنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟
سوال:۳ اگر امام صاحب نے فرض نماز شروع کی یا رکوع میں ہو،اُس وقت نیت کرنا ضروری ہے یا اللہ اکبر کہنا کافی ہے؟
سوال:۴ ا گر آدمی کو نماز پڑھتے وقت دوسرے آدمی کی پیٹھ نظر آئے ،کیا اس سے وضو پر فرق پڑتا ہے؟
سوال:۵ اگر اخبار پر اللہ کا نام ہوگا یا محمد رسول اللہ ؐ کا نام ہوگا ۔ان کو جلانا ہے یا بیچنا ہے؟
سجاد احمد بٹ۔ بانڈی پورہ

وضو، موبائل فوٹو اور اخبارات پر اللہ و نبی ﷺ کے نام

فرض نماز میں دوران رقوع شرکت

چند اہم مسائل کی وضاحت
جوابات :۔
جواب ۱۔ گالی دینا سخت ناپسندہ حرکت ہے۔حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مومن کو گالی دینا فسق ہے(بخاری) تاہم گالی دینے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔
جواب ۲۔ موبائل فون یا ٹی وی پر برہنہ فوٹو دیکھنا گناہ کبیرہ ہے مگر اس سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔
جواب ۳۔ نیت ،دِل کے ارادے کا نام ہے ۔جب امام رکوع میں ہو تومقتدی کھڑے ہوکر پہلے تکبیر تحریمہ کہے ،پھر دوسری تکبیر پڑھ کر رکوع میں شامل ہوجائے۔
جواب ۴۔ نماز کے دوران اگلے شخص کی اگر صرف پیٹھ نظر آئے تو اس نمازی کی نماز میں کوئی خرابی نہ ہوگی ۔مگر ایسے کپڑے پہننا ،جس میں رکوع کریں تو پیٹھ کھل جائے خود اُس کی نماز کو خطرہ ہے۔
جواب ۵۔ اخبارات وغیرہ میں جو کلمات مقدسہ ،مثلاً اللہ ،نبی ،قرآن یا انبیا علیہم السلام کے اسمائے مبارکہ وغیرہ ہوں ،تو اُن کو جمع کرکے پھر مٹی کا گڈھا کھود کر اس میں نذر ِ آتش کردیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :(۱) اکثر ہمارے یہاںیہ تصور کیا جاتاہے بلکہ یقین کیا جاتا ہے کہ جس ایمان والے کی وفات جمعہ کے دن یا ماہِ رمضان میں ہوجائے ،وہ جنتی ہے ،چاہے اعمال کیسے بھی ہوں،کیا یہ صحیح ہے؟
سوال :(۲) کچھ حضرات اولاد نہ ہونے کی وجہ سے کسی اور کا بچہ گودلیتے ہیں مگر کاغذوں میں ولدیت اپنی لکھواتے ہیں ۔شرعاً یہ کیسا ہے؟
(مشتاق احمد وانی ،کشتواڑ)

جمعۃالمبارک اور ماہ رمضان میں فوتیدہ عذاب قبر سے فارغ
جواب:(۱) اس میں کوئی شک نہیں کہ جمعہ کے دن یا رمضان المبارک کے مہینے میں وفات پانا بڑے شرف کی بات ہے اور حدیث میں اس کی فضیلت بھی آئی ،مگر صرف اس بات پر جنتی ہونے کی کوئی بشارت نہیں ہے۔ہاںصرف اتنی بات حدیث سے ثابت ہے کہ جو شخص رمضان میں یا جمعہ کو فوت ہوا،اُس سے قبر کا عذاب ہٹادیا جاتا ہے،مگر اس کے جنتی ہونے کا ،صرف اس بنا پر کہ وہ رمضان میں یا جمعہ کے دن فوت ہوا ہے ،کوئی ثبوت نہیں ہے۔

گود لئے بچے کی ولدیت کا مسئلہ
جواب:(۲) کسی اور شخص کا بچہ گود لے کر متبنیٰ بنانا کثرت سے ایسے لوگوں میں پایا جاتا ہے جو بے اولاد ہوتے ہیں ،اس کے لئے شرعی طور پر حکم ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس بچے کا باپ ہرگز قرار نہ دیں۔قرآن کریم میں صاف حکم ہے کہ ایسے بچے کو اپنے اصل باپ کی طرف منسوب کرکے اُس کے حقیقی باپ کی ولدیت لکھیں ۔حدیث مبارک میں ہے کہ جس نے اپنے آپ کو کسی اور شخص کی طرف منسوب کرکے اُس کو اپنا باپ بنایا ،اُس پر جنت حرام ہے اور اُس پر اللہ کی لعنت ہے۔لہٰذا اس سے بچنا نہایت ضروری ہے۔اپنی حقیقی ولدیت بدلنا حرام ہے اور بچہ چونکہ بے خبر ہوتا ہے ،لہٰذا جو شخص اپنے آپ کو باپ بنائے اور وہ اصلی باپ نہ ہو تو یہ حرام کام اُس کے سَر ہوگا۔پھر جب بچے کو یہ معلوم ہوجائے تو اُسکو اپنے باپ کی طرف منسوب کرنا اور حقیقی باپ کی ولدیت رکھنا لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔