رسول پاک ﷺ کے ارشادات وفرمودات کی شرعی و دینی حیثیت مسلّم ہے۔ شریعت میں احادیث ِنبویﷺ کا مقام اور ان کی حجیت پر علماء ِ متقدمین و متاخیرین نے کتابوں کا ایک بحرِ ذخّار تیار کردیا ہے۔ اور انکارِ حدیث کے راستے جو گم راہیاں مختلف ادوار میں پیدا ہوئیں ان کا قلع قمع کردیا گیا( گو کہ یہ برساتی کیڑے اب بھی کسی نہ کسی حیثیت سے سر اٹھاتے رہتے ہیں)۔احادیثِ رسول ﷺ کی علمی، دینی اور حجیتی حیثیت اپنی جگہ تاہم اس پہلو سے بھی یہ اہم ہیں کہ تعلیم و تربیت کا مکمل ضابطہ ان میں بہم موجود ہے۔ اگر اس تربیت کا اعلیٰ نمونہ ہمیں دیکھنا ہو تو صحابہ کرام ؓ کی مبارک زندگیوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ صحابہ کرامؓ کا بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے احادیث کی روایت کے ذریعے صرف قواعد و ضوابط اور احکامات ہی آگے نہیں پہنچائے بل کہ وہ کیفیات و جذبات اور وہ پُر اثر ماحول بھی منتقل کرنے کا حیرت انگیز کارنامہ انجام دیا۔کیوں کہ ان کی زندگیوں میں ہمیں یہ حسین امتزاج ملتا ہے کہ ان میں صرف احکامات کی قانونی پاسداری نہ تھی بل کہ ان پر عمل کرنے کے محرکات و ترغیبات اور عمل کی صحیح کیفیات اور روح بھی تھی۔ حدود کی پابندی اورحقوق کی ادائیگی کے ساتھ لطیف احساسات اور مکارم اخلاق کے وقائع بھی تھے۔
علمی، فکری اور عملی تربیت کے لیے یہ امر ناگزیر ہے کہ مجردحکم اور ضابطہ پر اکتفا نہ کیا جائے بل کہ اُس روح اور کیفیات کو وجود میں لانا عمل کو مؤثر اور نتیجہ خیز بناتاہے ۔ چناں چہ رسول اللہ ﷺ کی احادیث نے یہ انقلاب آفریں کارنامہ انجام دیا جس سے دوسرے مذاہب قلاش اور تہی دامن نظر آتے ہیں۔مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ رقم طراز ہیں:
’’درحقیقت رسول اللہﷺ کی حیاتِ طیبہ اور ارشادات و ہدایات جن کے مجموعہ کا معروف نام حدیث و سنت ہے، دین کے لیے وہ فضا اور ماحول مہیا کرتے ہیں جس میں دین کا پودہ سرسبز و بار آور ہوتا ہے، دین کسی خشک اخلاقی ضابطہ یا قانونی مجموعہ کا نام نہیں، وہ جذبات، واقعات اور عملی مثالوں کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ ان جذبات و واقعات اور عملی مثالوں کا سب سے بہتر اور مستند مجموعہ وہ ہے جو خود پیغمبر کی ذات کے متعلق اور اس کے حالات زندگی سے ماخوذ ہو‘‘۔
مزید لکھتے ہیں:
’’جس ذہنی و روحانی ماحول میں اور جن ذہنی کیفیات کے ساتھ صحابہ کرامؓ نے زندگی گزاری۔ حدیث کے ذریعہ اس پورے ماحول کو قیامت تک کے لیے محفوظ کردیا گیا، بعد کی نسلوں اور صدیوں کے ایک آدمی کے لیے بالکل ممکن ہے کہ حدیث کے ذریعہ وہ اپنے ماحول سے اپنا رشتہ منقطع کرکے دفعۃً اس ماحول میں پہنچ جائے۔ جہاں رسول اللہﷺ بنفس نفیس موجود ہیں جہاں رسول اللہ ﷺ مصروف تکلم اور صحابہ کرام گوش بر آواز ہیں‘‘
مسلمانوں کی مختلف الجہات تربیت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے علماء و صلحاء نے ہر دور میں احادیث کے ایسے مجموعے تیار کیے جن میں احادیث کو تربیتی نقطۂ نظر سے مرتب کیا گیا۔ زیرِ نظر تصنیف ’’جواہرِ رسالت‘‘ اسی طلّائی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔اس کو پروفیسر افتخار بلخی نے مرتب کیا ہے۔ اس مجموعے میںمتعدد عنوانات قائم کرکے ان کے تحت ایسی احادیث کو جمع کیا گیا جن سے فرد کی انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے تربیت کا مکمل پروگرام فراہم کیا گیا ہے۔ ہر عنوان کے ذیل میں قرآن کی متعلقہ ایک دو آیات اور چند احادیث کو نقل کرکے پھر ان کے حوالہ سے مختصر مگر جامع تشریحی اشارات ضبطِ تحریر کیے گئے ہیں۔
چوں کہ یہ مجموعہ کئی دہائیوں قابل مرتب کیا گیا تھا ۔ اور کئی پہلوئوں سے اس میں کمیاں اور بعض اعتبار سے فاش غلطیاں رہ گئی تھیں۔ لہٰذا یہ مجموعہ محتاجِ اصلاح تھا۔ اسلامک اسٹیڈی سرکل جوریاستِ جموں و کشمیرکی ایک دعوتی، تربیتی ، تبلیغی اور اصلاحی تنظیم ہے۔ نیز علمی و فکری کتابوں کی نشرو اشاعت میں اس تنظیم نے ماضی میں قابلِ قدر خدمات انجام دی ہیں۔ اس نے مجلس شوریٰ کی ایک نشست میں پروفیسر بلخی صاحب کی اس تصنیف میں در آئی ناہم واریوں کو دور کرکے اسے اَز سر نو شائع کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔چناں چہ اس کام کا قرعہ فال استاد محترم ڈاکٹر شکیل شفائی صاحب کے نام نکالا۔ جوتنظیم کی مجلس شوریٰ کے رکن ہونے کے ساتھ وادیٔ کشمیر کے معروف دینی اسکالر، عالمِ دین ، اردوو عربی زبان و ادب کے شناور، جنہیں رب ذوالجلال نے قابلِ رشک ذوق مطالعہ و تحقیق کے علاوہ قلم کی صاحبقرانی عطا کی ہے۔ ان کی مہینوں کی محنتِ شاقہ نے اس مجموعہ کو اس قابل بنایا کہ جو کوئی بھی اس کتاب کا مطالعہ کرے ڈاکٹر صاحب کو داد ِ تحسین پیش کیے بنا نہیں رہ سکتا۔کتاب کی ابتداء میں نہایت مبسوط تحریر ’’سخن ہائے گفتنی‘‘میں ڈاکٹرشکیل صاحب اس کتاب کے بارے خود رقم طراز ہیں:
’’احقر نے کتاب کو بالاستیعاب پڑھا تو معلوم ہوا متنِ حدیث میں بہت زیادہ ناہمواریت پائی جاتی ہے۔ میں نے اصل مآخذ سے احادیث کا موازنہ کیا تو یہ بات سامنے آئی کہ کتاب کے متن اور اصل حدیث میں الفاظ کا خاصا تضاد پایا جاتا ہے۔ اول تو اس کو دور کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہر حدیث کے ساتھ اصل مآخذ کا حوالہ دیا گیا۔ جہاں جہاں اسقام پائے گئے انہیں درست کیا گیا۔ثانیاً ترجمے اور تشریحی اشارات میں مطبعی اغلاط کی اصلاح کردی گئی۔ البتہ تشریحی اشارات کو جوں کا توں باقی رہنے دیا گیا۔ اس سے تعرض مناسب نہ تھا اور نہ ہی میرے کام سے اس کا کوئی تعلق تھا اگرچہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ تشریحی اشارات میں لکھی گئی ہر بات سے راقم کو اتفاق ہے۔ بہرحال دو سال کی مدت میں تخریج احادیث اور تصحیح متن کا کام مکمل ہوا۔ دیگر مشاغل کی وجہ سے کام سُست رفتاری سے جاری رہا۔ لیکن میں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے اس مجموعے میں مروی احادیث کو درج کیا گیا ہے ان کا مختصر تذکرہ بھی شامل ِکتاب کیا۔ اس میں زیادہ تر ابن اثیر کی اسد الغابہ سے مدد لی گئی اگرچہ کہیں کہیں الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب کو بھی پیش نظر رکھا۔ مزید برآں جن حدیث کی کتابوں سے اس کتاب میں احادیث نقل کی گئی ہیں ان کے مؤلفین کا تذکرہ بھی شاملِ کتاب کیا۔ ان کے تذکرے کی ترتیب میں تذکرۃ المحدثین (مولانا ضیاء الدین اصلاحی مرحوم) اور أعلام المحدثین (ڈاکٹر مولانا تقی الدین ندوی مظاہری) سے مدد لی گئی ۔ جن محدثین کا تذکرہ ان دونوں کتابوں میں نہیں تھا ان کو دیگر مآخذ سے لیا گیا۔‘‘
بہ ہر حال یہ کتاب ۲۳۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب کا ٹائٹل نہایت دل کش اور نظر افروز ہے۔ کتاب کتابت کی اغلاط سے بڑی حد تک معریٰ ہے اور طباعتی ناہم واریوں سے مبرا ہے( جس کے لیے تنظیم الحرمین پبلکیشنز کی سپاس گذار ہے) ۔ کتاب کو اسلامک اسٹیڈی سرکل مرکزی دفتر بالگارڈن کرن نگر اور الحرمین پبلکیشنز گائو کدل سرینگر سے غیر معمولی رعایت پر خریدا جاسکتا ہے۔ دورِ حاضر میں جب کہ دین سے بے رغبتی عام ہے اور عام شخص کو اپنی مشغولیات کی وجہ سے ضخیم کتابوں کا مطالعہ کرنے یا ان سے استفادہ کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ اس وقت ایسا ہلکا پھلکا مجموعہ آپ قلیل وقت میں پڑھ سکتے ہیں اور اپنی عملی زندگی میں مکمل رہ نمائی حاصل کرسکتے ہیں۔
ای میل۔[email protected]