کا لے سائے

صبح کی سیر کا جو لطف گر میوں کے مو سم میں ہے وہ ٹھنڈ کے مو سم میں کہاں؟ لیکن کچھ لو گوں کو اس کی پکی عا دت پڑ چکی ہو تی ہے اور وہ سرد گرم مو سم نہیں دیکھتے بلکہ صبح یا شام چلنے کی عا دت بنا لیتے ہیں، میں بھی انہیں میں سے ایک ہوں ۔ آج بھی معمول کے مطا بق  میں نکل گیا تھا اورسیر سے ابھی واپس نہیں آیا تھا کہ میرے فون کی گھنٹی بجی۔ ٹھنڈ کا موسم تھا اور میںدستانے پہنے ہو ئے تھا ،دستانے اُتا ر نے اورجیب میں ہا تھ ڈالنے تک فون بند ہو چکا تھا۔ میں نے فون نکالا اور کا  ل لاگ کھول کر دیکھا تو  پڑوسی کا نمبر تھا۔ چند لمحے سو چنے کے بعد میں واپس فون پہ نمبر ڈائل کر نے ہی والا تھا ،کہ اتنے میں پھر فون آیا اور میں نے کال رسیو کی تو وہاں سے فون پہ بھرائی ہوئی آواز سن کر میں کچھ دیر پر یشان ہو ااور ابھی کچھ کہہ پا تا کہ ادھر سے آواز آئی اور اس نے کہا ، ’’  میں شمیمہ ہوں ،میرے خا وند کو کچھ چکر سا آگیا ہے معلوم نہیں انہیں کیا ہوا ، آپ کہاں ہیں ‘‘ میں نے جلدی سے کہا کہ میں بس ابھی آرہا ہوں ۔ دراصل یہ ہمارے نئے ہمسائے تھے۔انھیں دو یا تین مہینے ہو ئے تھے وہاں آئے ہوئے۔ یہ اصل میں شہر کے کسی دوسر ے علا قے کے تھے اور گھر میں چپقلش کی وجہ سے علاحدہ ہوکر یہاں آکر کرا یہ کے مکان میں رہ رہے تھے۔ فاروق، جو شمیمہ کا خا وند ہے، ایک گا ڑی چلا کر گذارہ کر لیتا ہے۔ اُس نے کئی بار مجھ سے اپنی پریشانیوں کا ذکر کرکے کہا تھا کہ وہ بھاری قرض میں ڈو با ہوا ہے اورادھر کام کاج کا بھی کچھ زیادہ نہیں ہے ۔ قرض خواہ اکثر اس کے پیچھے لگے رہتے تھے۔ انکا فون آتے ہی اُسکا دل تیز تیز دھڑکنے لگتا، ایسے کہ جیسے دورہ پڑا ہو۔ وہ مجھے بلاتے اور میں پا نی پلا کر اسکا حوصلہ دیتا کہ کو ئی مسئلہ نہیں ہے قر ض بھی ادا ہو جائے گا ۔ میں نے اُسے مشورہ دیا کسی اچھے سے ڈاکٹر کو دکھا لو ، پھر یہ شک بھی دور ہو جا ئیگا کہ خدا نہ کرے کہیں کو ئی بیماری تو نہیں ۔ فاروق کئی بار ڈاکٹر کے پا س گیا، ٹیسٹ وغیرہ بھی کروا لیے لیکن وہ سب ٹھیک نکلے،مگر اکثر اوقات فاروق کی حالت بگڑ جاتی اور شمیمہ فون کر کے مجھ سے مشورہ لیتی کہ اب کیا کیا جائے۔ نہ جانے کیوں شمیمہ اور فاروق کو مجھ پر اس قدر بھرو سہ اور اعتماد پیدا ہوا تھا کہ وہ مجھے اپنا ہمدرد سمجھتے تھے۔ ان کے جذبات کو دیکھتے ہوئے میں نے بھی یہ طے کرلیا تھا کہ میں ان کے مشکل اوقات میں ان کی مدد کر نے سے کبھی ہاتھ نہیں کھینچوں گا ۔
شام ڈھلتے ہی ایک روز فاروق میرے پا س آیا۔وہ کا فی پر یشان تھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسوں تیر رہے تھے اور بڑے ضبط سے انھیں ر و کے ہو ئے تھا۔ اس کے ہو چہرے پر ایک عجیب سی  ادا سی تھی۔ وہ جیسے بہت کچھ کہنا چا ہتا تھا لیکن کو ئی  خوف تھا جو اسے زبان کھو لنے سے منع کررہا تھا۔ آخر کار جب درد جگر بڑ ھنے لگا تو وہ مجھ سے گو یا ہو ا اور اس نے مجھے اپنی ساری بتیا سنائی  ’’ میرا اچھا بھلا کارو بار چل رہا تھا۔ میں خو ب کما تا، کھا تا پیتا تھا اور کسی بات کی کوئی پریشانی نہیں تھی کہ‘‘ اتنا کہنا تھا کہ اسکی آنکھوں میں تیر رہے آنسوں ٹپ ٹپ کر کے بہنے لگے۔یہ دیکھ کر میں بھی کسی حد تک پر یشان ہو گیا،لیکن بڑا بنتے ہو ئے میں نے کہا ’’پھر کیا ہوا ۔ اپنی بات مجھے بتا ئو اس سے دل ہلکا ہو جا ئے گا۔ ‘‘
وہ کہنے لگا میری فر نشنگ کی ایک دوکان تھی، ایک دن میرے پاس ایک شخص آیا اور بتایا کہ وہ گھر کی فر نشنگ کروانا چا ہتا ہے اور اس نے مجھے ناپ لینے کی خاطر گھرآنے کے لئے کہا اور میں بھی بلا جھجھک اس کے ساتھ چل پڑا  ،وہ مجھے ساتھ لیکر جہاں گیا وہ کو ئی کالونی تھی، کا لو نی بھی کو ئی نئی نہیں تھی بلکہ ایک پرانی بستی تھی ا ور وہاں پر کچھ مکان خالی پڑے تھے ،کچھ تو کشمیری پنڈتوں کے تھے اور کچھ وہ لو گ تھے جو کاروبار یا ملا زمت کے سلسلے میں اکثر ریاست یا ملک سے باہر رہتے تھے  ۔کچھ لو گوں نے تو چوکیدار رکھے تھے لیکن کچھ با لکل ویر ان رہتے تھے   ،لیکن مجھے معلوم نہیں تھاکہ یہ آدمی کون ہے اور مجھے کہاں لے جا رہا ہے، مجھے لگا کہ شا ئد کوئی کرایہ دار ہو گا۔کسی کا مکان کرایہ پہ لیا ہو گا۔ شکل وصورت سے وہ ایسا نہیں لگتا تھا کہ اس پہ  ذرا سا بھی شک گزرے۔جب ہم اندر گئے تو اندر کئی لوگ ہمارا انتظار کر رہے تھے، جنکے ہاتھوں میں ہتھیار تھے۔مجھے ایک ستون سے باندھ دیا گیا اور انھوں نے روپیوں کی مانگ کی۔ تو میں نے کہا ’’ کیسے روپیے بھائی تم تو مجھے فرش کے لیے کمروں کا ناپ لینے کے لئے ساتھ لا ئے تھےیہ کیا مذاق ہے‘‘ ، تو ان میں سے ایک سُرخ آنکھوں اور خطر ناک بھیا نک چہرے والے شخص کی بھاری آواز نے مجھے دم بخود کر دیا، اس کے ہاتھ میں جدید قسم کا ہتھیار تھا اوہ وہ میری طرف سیدھا بڑھتا چلا آرہا تھا۔ قریب پہنچا تو لات مارتے ہوئے کہا،’’ تم سیدھی طرح دس لاکھ روپے دو گے یا جان ؟ ‘‘ میں نے اقرار میں سَر ہلا دیا کیونکہ میں نے جان کی عا فیت اسی میں سمجھی ، اس نے کہا ’’کل تک تجھے مہلت دیتے ہیں اور اگر پو لیس کے پاس جا نے کی کو شش کی تو تمہا ری خیر نہیں‘‘ ، میں نے خا مو شی میں عا فیت سمجھی لیکن پھر ایک بار وہ میری طرف مُڑ ااوہ کہنے لگا ’’کیا سمجھ میں آئی بات؟ ‘‘میں نے پھر ایک مر تبہ سر ہلا یا ، تو اس نے کہا ’’گو نگا ہے کیا، زبان نہیں ہے منہ میں؟ زبان سے بول !‘‘، میں نے بڑی مشکل سے ’’ہاںہاں سمجھ گیا ‘‘کہا۔
’’پھر وہ بار بار مجھ سے بندوق کی نوک پر روپے لیتا رہا اور میں اس کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکا۔ میں اس کا بال بھی بیکا نہ کر سکتا تھا کیوں میں اتنا کمزور کیوں تھا ؟میرے بھائی بہن تھے، ماں باپ اور بیوی بچے تھے اور میں نہیں چاہتا تھا کہ انھیں کو ئی گزند پہنچے ۔اسلئے میں نے اس شخص کو نظر انداز کیا بلکہ خود کو نظر انداز کرتا رہا اور اس حالت کو پہنچا۔ اُسے نہ تو قا نون کا ڈر تھا اور نہ خدا کا خوف ،ا سلیے وہ سمجھتا تھا کہ اسکا کو ئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا تو میں کیا چیز تھا اس کے سامنے۔‘‘
فاروق اب اتنا کہہ کر خاموش ہو گیا تھا ،میں نے اسے جھنجھو ڑتے ہو ئے کہا ’’اچھا تو پھر کیا ہوا ؟ ۔‘‘ وہ آگے کچھ کہنے سے ڈر رہا تھا لیکن جب میں نے بتا یا کہ میں تمہا رے ساتھ ہوں میں تمہا ری مدد کرو ں گا ! تو اُس  نے پھر اپنی ادھوری بات آگے چلائی اور کہنے لگا ’’آپ شا ید پو لیس کی مدد کی طرف اشارہ کر رہے ہیں لیکن ایک بات یاد ررکھئے ،پہلے تو ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا!کیو نکہ وہ تو ہمارے اطراف میں سا یہ کی طرح ہیں، یو ں کہیے کہ کا لے سائے ہیں بگڑے ہو ئے حالات اور پر آشوب دور کے بھوت پریت ہیں بلکہ کا لے سائے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ میں خود کو یا اپنے پریوار کو کسی مصیبت میں نہیں ڈا لنا چاہتا۔‘‘فاروق کی باتیں سُن کر میرے پائوں تلے زمین نکل گئی ،میری سمجھ میں کچھ نہیںآرہاتھا، میں تذبذب میں تھا کہ اب میں اسے کیا جواب دوں۔ جس بات کی طرف اس نے اشارہ کیا تھا واقعی میں اس کی کو ئی مدد نہیں کر سکتا تھا ، جب قوموں پہ زوال آتا ہے تو ان میں انصاف کی صفت ختم ہو جا تی ہے ،اس دوران میری سمجھ میں یہ با ت آئی کہ یہاں بیماروں کی تعداد کیوں بڑھ رہی ہے۔ یہ تعداد تو کسی بھی صورت میں کم ہو نے والی نہیں ،بلکہ بڑھتی چلی جا ئے گی کیونکہ حالات کے کا لے سائے اب ہرطرف چھا چکے ہیں اور ان کالے سائیوں کا علاج اب کسی کے پاس نہیں بلکہ خود علاج کر نے والے بھی بیمار ہیں تو بھلا  عوام کا علاج کون کرے۔فاروق نے آگے بڑی درد ناک اور لمبی کہا نی سُنائی جو  اب  ہر وقت فاروق کودیکھتے ہی مجھے حروف بہ حروف یاد آجاتی ہے  اور وہ بھیا نک کالے سائے میری آنکھوں کے سامنے  پھر جا تے ہیں ۔
ایک بار پھر اسے چکر آیا اور وہ گھر میں پڑا تھا، اس کی حالت غیر ہو گئی تھی۔ میں نے آج بھی پہلے کی طرح اسے ہو ش میں لا نے کیلیے بڑی کو شش کی لیکن کچھ حاصل نہ ہوا ،اب ہم مجبور ہو ئے اور میں مارننگ واک کے لباس میں ہی ان کے ساتھ ہسپتال روانہ ہوا۔ وہاں پر ٹیسٹ وغیر ہ کروائے تو پتہ چلا کہ اس کو کئی بیماریوں نے گھیر لیا ہے۔ اسے ہسپتال میں داخل کردیا گیا اور علاج معالجہ چلنے لگا  ،اسی اثنا میں میں واپس گھر جا نے لگا تو شمیمہ نے آکر میرا دا من پکڑ لیا اور بڑی ہی بے بسی سے بو لی، ’’آپ پھر کب آئیں گے، اب ہمارا کون ہے اللہ کے سوا ؟آپ جیسا بھائی اگر ہر وقت ہما را حوصلہ نہ بڑ ھا تا تو اب تک ہم کب کے مر چُکے ہو تے ،اللہ آپ کو جزا ئے خیر دے ‘‘! وہ مجھے دعائیں دیتی ہوئی وارڈ کی طرف آنسوں پو نچھتے ہو ئے چلی گئی۔ میں چند قدم آگے بڑھا تو میرا ضمیر  مجھے کوسنے لگا کہ ’’تو کتنا خود غرض ہے تجھے کسی مجبور و بے کس کی کو ئی فکر نہیں ہے‘‘ ۔میں اُلٹے قدموں وا پس  لوٹااور وارڈ میں چلا گیا۔ فاروق کو اتنی دیر میں کچھ ہو ش آگیا تھا۔ اس نے میری طرف دیکھ کر مسکرا یا اور کچھ کہنا چاہتا کہ اتنے میں ڈاکٹر راونڈ کرتے ہوئے وہاں پہنچے۔
ابھی جو ٹیسٹ کر لیے تھے ڈاکٹر نے انھیں دیکھا اور کہا ’’اس کو ہارٹ سر جری سے گذرنا ہو گا اور  یہ تمام ٹیسٹس کی رپوٹ آنے کے بعد دیکھیں گے کہ اس کو اور کیا پرابلم ہے ۔‘‘ بڑے ڈاکٹر نے دو سرے ڈاکٹر کو اس کی سر جری کی ڈیٹ رکھنے کے لیے کہا اور ساتھ میں کہا کہ جلدی ہی ڈیٹ رکھی جائے۔ خدا خدا کر کے کچھ دن بعد اس کی ہارٹ سر جری کے لئے تا ریخ مقرر ہوئی ۔قدرت کا کر شمہ کے اسی شام رنگا قا نون کے شکنجے میں آ گیا اور اس کے قبضے سے ہتھیار وں کے علاوہ منشیات او ر کروڑوں کی نقد رقم ضبط کی گئی۔ سر کا رکی طرف سے مشتہر ملزم کی گر فتا ری کااعلان کیا گیا ، اور یہ اعلان بھی ہوا کہ جس جس کا مال اس شخص نے لوٹ لیا ہے وہ تحصیلدار کے دفتر میں درخواست دے اور ان سے را بطہ کر ے ۔میں  نے یہ خبر سُنتے ہی فاروق کو ساتھ لیا اور  دفتر وں کے چکر کاٹنے لگا۔ کا م کرا نے کے لیے کون سے پا پڑ بیلنے پڑ تے ہیںیہ بات اب ہم دونوں سے زیادہ اچھی طرح کون جان سکتا ہے؟۔ بڑی جدو جہد کے بعد کاغذات تیار کرائے گئے اور کئی جگہ تو فائل کا ٹیگ تب تک کھلتا ہی نہیں تھا جب تک  ہاتھ خالی ہو تا تھا ۔ قصئہ مختصر کہ  سرکاری دفاتر کے چکروں نے فاروق کو سو چنے کا مو قع ہی نہیں دیا اور اس کی طبیعت بدلنے لگی۔ شام ہم دونوں تھک کے چور ہو جا تے اور بمشکل پلنگ پر لیٹ جا تے اور لیٹتے ہی گہری نیند آجا تی ۔آخر وہ دن بھی آ ہی گیا جب آج فاروق کو اس کی کھوئی ہوئی رقم بلکہ ڈوبی ہو ئی رقم واپس ملنے والی تھی۔ بڑی تیا ری ہو ئی اور دفتر کے باہر لگی قطار میں ہم بھی کھڑے ہوگئے۔ اب کتنی دیر لگے گی یہ کسی کو معلوم نہیں  ، پر آج صرف امید سے ہی فاروق اب تندرست لگ رہا ہے کیو نکہ اس کے سر سے وہ کا لے سا ئے ہٹ چکے ہیں ۔
 دونوں سے زیادہ اچھی طرح کون جان سکتا ہے  ؟ ۔پہلے تو کچھ چوں چراں ہو الیکن جب بات بن گئی دو ایک دن میں فاروق کو لو ٹا ہوا مال وا پس ملا، پھر کیا تھا  کہ اس کے دل میں نہ تو کو ئی درد تھا اور نہ ہی کوئی پریشانی۔ اس کا قر ضہ چُکتا ہو چکا تھا اور وہ اپنے گھر میں سب کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔فاروق کو اصل میں دل کی کو ئی بیماری نہیں تھی بلکہ اس پر خوف کا کالا سایہ مسلط ہوگیا تھا جو اب ہٹ چکا تھا۔
رابطہ؛کنڈی کرناہ،کشمیر،موبائل ؛9906864820