ایس معشوق احمد
بقول مرزا ۔۔۔۔
“ابھی کچھ لوگ باقی ہے جو اخبار پڑھ لیتے ہیں”
ان پڑھے لکھے خوش نصیب لوگوں نے یہ سرخی ضرور پڑھی ہوگی کہ فلاں جگہ کتوں نے ہڑبونگ مچا رکھی ہے اور معتدد لوگوں کو زخمی کیا ہے۔کسی کی ٹانگ کاٹ کھائی ہے تو کسی کا پیر زخمی کردیا اور کسی کسی کی ران پر بھی حملہ ہوا ہے۔جو اخبار نہیں پڑھتے اور سوشل میڈیا پر دن رات سوشل ہونے میں سرگرداں ہیں وہ بھی اس صورتحال سے آشنا ہوں گے اور ان تک بھی ایسی خبریں آتی ہوں گی۔صاحبو آدمی بھوکا ہو تو کھانا کھاتا ہے تو کیا بچارا بھوکا کتا کسی انسان کی ٹانگ بھی نہیں کھا سکتا۔
ہمارے ہاں اکثر ایسی خبریں گشت کرتی ہیں کہ فلاں نے رشوت کا نوالہ کھا کر دوسروں کا حق کھایا ہے اور بعض کے پیٹ تو اتنے بڑے ہیں کہ باہر لٹک رہے ہیں لیکن پھر بھی کھانے میں احتیاط نہیں برتتے جو مل جاتا ہے کھا لیتے ہیں یہاں تک ، زمین ، جائیداد ، کرسی اور دوسروں کا حق تک کھا جاتے ہیں۔ہمارے ہاں بعض موقعوں پر تو احتیاط برتی جاسکتی ہے کھانے کے معاملے میں نہیں۔پڑھے لکھے لوگوں نے کاٹ کھانے کے بارے میں پڑھا ہوگا اور کچھ نے دیکھا بھی ہوگا کہ کاٹا کیسے جاتا ہے اور کھانے کے لئے کیسی ہنرمندی درکار ہے۔پچھلے دنوں یہ خبر ہمارے کانوں نے بھی سنی کہ ایک استاد نے دوسرے استاد کا کان کاٹ کھایا۔کھانے پر ہمیں اعتراض نہیں جس کی جو مرضی ہے اور جس کا جتنا پیٹ بڑا ہے وہ اتنا کھائے لیکن وہ کھائے جو کھانے کی چیزیں ہیں بھلا انسان کا کان بھی کوئی کھانے کی شئے ہے۔اس واقعہ سے بدگماں ہونے کی ضرورت نہیں کہ استاد نے کان کیوں کاٹ کھایا۔استاد چونکہ تجربے کرتے رہتے ہیں اس لئے شاید کان کا مزہ اور اپنی زبان کا ذائقہ بدمزہ کرنے کے لئے تجربہ کیا ہو۔اغلبہ ہے کہ دوسرے استاد نے دعوت نامہ دیا ہو کہ آبیل میرا کان کاٹ کھا۔بہرحال جو بھی وجوہات رہے ہوں اس واقعہ سنگین سے چند اسباق یاد رکھنے کے ہیں۔
1. ہمارے ہاں کان کٹے افراد بادشاہ وقت رہے ہیں۔اس لالچ میں ہوسکتا ہے استاد نے دوسرے استاد سے مشورے کے بعد اپنا کان کٹوایا ہو تاکہ بعد میں کان کٹا بادشاہ اور کھانے والا وزیر بن جائے یوں بھی وزیروں کو کھانے کی عادت ہوتی ہے۔
2. غصے پر قابو رکھنا چاہیے ورنہ استاد جیسا اونچا مرتبہ رکھنے والا شخص بھی باؤلہ ہوکر کان تک کاٹ کھا سکتا ہے۔
3. ہوسکتا ہے کان نے برا سنا ہو اور سزا کے طور کٹ گیا ہو۔شکر ہے استاد کی زبان سے کچھ برا نہیں نکلا ورنہ تصور کیجیے زبان کاٹ کر کھا لیتے تو کیا ہوتا۔
4.ہمارے ہاں کسی سے اختلاف کرنا ہو تو احتیاطی تدابیر اپنا کر کان ، ناک ، آنکھ بچا کر رکھنے چاہیے کہ بات برداشت سے باہر ہو تو دوسرا کچھ بھی کاٹ کھا سکتا ہے۔
5.قوت برداشت نہ ہونے کے برابر ہے۔بات طول پکڑ لے تو جھگڑے کی منزل پر دم لے گی اور جھگڑے کے دوران جھ گڑا کچھ بھی کاٹ کھایا جا سکتا ہے۔
6. تاریخ میں نام زندہ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ کچھ تجربات کئے جائیں اور کان کاٹ کھانے کا تجربہ نیا نیا ہے اور اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ۔۔۔
کھاتے ہیں استاد تک کان کاٹ کر
رہتے ہیں ہمارے ہاں ہندہ مزاج لوگ
دانا کہتے ہیں کہ زندگی میں کچھ اصولوں پر انسان کو کاربند رہنا چاہیے کہ برا مت سنو ، برا مت کہو، برا مت دیکھو اور برا مت سوچو۔جس کا کان کاٹا گیا وہ کم سے کم ایک اصول اپنی زندگی میں اپنا ہی سکتا ہے کہ وہ اب اچھا برا نہیں سن سکتا۔البتہ برا کہہ ،سوچ اور دیکھ سکتا ہے۔جہاں تک کچھ کہنے کا سوال ہے تو بقول غالب _
بات پر واں زبان کٹتی ہے
واضح رہے کہ غالب نے فقط بات کہیں ہے۔انہیں حالات کا انداز تھا۔ ہم نے دیکھا ہے خیر سے آپ میں سے جو دانا و بینا ہیں وہ بھی دیکھ چکے ہوں گے کہ سچ بولنے پر وہاں ہی نہیں یہاں بھی اور جہاں جہاں بولا جاتا ہے وہاں زبان کٹتی ہے۔اب رہا سوال بُرا مت دیکھو ،صاحبو! اس سے بُرا ہم کیا دیکھ سکتے ہیں جو ہم نے دیکھا ہے۔کبھی برے حالات ، کبھی سنگین جرائم تو کبھی انسان کا وحشی پن کہ چھوٹی بچی کا جسم نوچا جارہا ہے تو کبھی کسی کا قتل کیا جاتا ہے اور جسم کے اتنے ٹکڑے کئے جاتے ہیں کہ سمیٹنا مشکل اور گننا ناممکن ہوجاتا ہے ، کبھی سوشل میڈیا پر بے حیائی کا طوفان کہ تین سال کی بچی بھی ناچ رہی ہے اور چالیس سال کی عورت بھی برہنہ ہے۔اس سے آگے دیکھنے کی اب تاب نہیں کہ اگر یوں ہی انسان کی حرکات جاری رہیں تو وہ دن دور نہیں جب جانور ہم پر ملامت کریں گے اور ہم اُف تک نہ کرسکیں گے۔مرزا کہتے ہیں کہ خدا وہ وقت نہ دکھائے کہ پھلے پھولے اُلٹا دھندہ اور اپنی کوتوتوں سے ہو بندہ شرمندہ۔
جانور انسان کی حرکات و سکنات دیکھ کر ملامت کرے توبہ ! توبہ ! ہم یہ کیا برا سوچ رہے ہیں۔ ایک اصول تو یہ بھی اپنانے کی تلقین کی گئی ہے کہ بُرا مت سوچو۔ جوبُرا سوچے گا اس کا دماغ ۔۔۔ارے صاحب دماغ کون کاٹ کھا سکتا ہے البتہ دماغ چاٹ ضرور سکتے ہیں۔جس کے پاس بے وقوف دوست اور بیوی جیسی بلا ہو اس کا مغز سلامت کیسے رہ سکتا ہے۔ یہ دونوں بھیجا کھانے میں ماہر ہیں۔ مرزا کہتے ہیں کہ سوچنا ہی ہے تو اچھا اچھا سوچنا چاہیے کہ کروڑ پتی کیسے بنا جا سکتا ہے ، وزیر باتدبیر کیسے بنا جا سکتا ہے ، جورو کا غلام اور حسینوں کا خادم کیسے بنا جاسکتا ہے اور بڑا آدمی بن کر دوسرں پر رعب اور دبدبہ کیسے قائم کیا جاسکتا ہے۔مرزا کہتے ہیں کہ امیر ہونے کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کی خوبیاں دیکھ کر تعریفوں کے پل باندھے جاتے ہیں اور برائیوں پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ خاموشی سے یاد آیا ہم بھی کیسی اُلٹی سیدھی باتیں کرکے آپ کا قیمتی وقت اور بھیجا کھا رہے ہیں اس لئے خاموش ہوکر ہم وداع ہوتے ہیں کہ خاموشی ہزار نعمت ہے اور کاٹ کھانے کی بیماری بری۔مرزا کہتے ہیں کہ کتے اور ڈاکٹر کے سوا کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ انسان کو کاٹے البتہ جیب کاٹنے کا اختیار چور اور رشوت خور کو ہے۔
���
کیلم کولگام ، کشمیر،موبائل نمبر؛8493981240