کمرے کی دیواریں سیاہ پردوں سےڈھکی ہوئیں محسوس ہو رہی تھیں، جیسے کسی گہرے ماتم کا اظہار ہو رہا تھا۔ دیواریں ہی نہیں بلکہ کمرے کی ایک ایک چیز مجھے نوحہ گری کرتے ہوئے نظر آ رہی تھی۔ آسمان بھی کالے بادلوں کے پیچھے اپنا چہرہ چھپائے تھا۔ یہ آج زمین سے شرمندہ و خوفزدہ ،آنسو بہا رہا تھا
میں ڈراونے خیالات کی موج میں بہہ گیا۔ لاکھ کوششوں کے باوجود بھی کنارے نہ لگا۔ خیالات کی حدود وسیع تر ہوتی جا رہی تھیں۔ ذہن کے کسی دریچے سے مہین سی آواز آرہی تھی۔
" اب تو کچھ لکھئے۔ کیا ابھی بھی مجھ میں کچھ لکھنے کے قابل نہیں ہے۔"
یہ اس تبسّم کی آواز تھی جو مجھے بہت دیر سے کہہ رہی تھی کہ میری کوئی کہانی لکھ دو۔ تبسّم کا چہرہ ہمیشہ مسکراتا ہوا ہوتا تھا۔ شاید جنم لیتے وقت بھی اس کے چہرے پر مسکان رہی ہوگی، اس لئے تبسّم نام رکھا گیا ہوگا۔ اس کا نام تبسّم ہی لکھنے کے لئے کافی تھا مگر میں ہر بار اس کو ٹالتا رہا ، یہ کہہ کر کہ تجھ میں لکھنے کو کیا رکھا ہے۔ صرف آپ کا چہرہ ہر وقت ہنستا ہوا ہوتا ہے، اس کے بغیر میں آپ کے کس پہلو پہ لکھوں۔
"کس پہلو پہ! یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ آپ کو مجھ میں کچھ نظر نہیں آتا۔" ایک مصنوعی ہنسی کے ساتھ کہہ کر چلی جاتی۔
کبھی کبھی تو وہ غصے میں میرے ہاتھ سے قلم چھین لیتی اور کبھی میری کتابوں کو بھی بکھیرتی۔ میں پریشان رہتا کہ میں اس کے متعلق کیا لکھوں۔
آج بھی اس خالی اور ڈراونے کمرے میں وہ میرے ذہن کے دریچے سے پکار رہی تھی۔
"اگر کچھ بھی لکھ نہیں پا رہے ہیں تو میں ہی آپ کو ایک کہانی سناتی ہوں، وہی لکھئے۔
لکھیں گے نا۔ آج تمہیں لکھنا پڑے گا۔"
میں ابھی بھی کوئی فیصلہ نہیں کر پایا تھا۔ اس نے پھر اپنی بات دوہرائی۔ اس بار اس کا لہجہ ذرا سخت تھا۔
میں نے اثبات میں سر ہلا کر اقرار کیا مگر ذہن میں پھر وہیں خیالات رقص کر رہے تھے کہ ایسی کیاکہانی ہے اس کی جو میں لکھوں ۔ لکھوں تو اسے کوئی پسند کرے گا بھی یا نہیں۔ پسند تو دور کی بات اسے شاید کوئی پڑھے گا بھی نہیں۔
اس کی آنکھوں سے گرتے آنسوؤں کی دھار کو دیکھ کر میں بھی ذرا سا جذباتی ہو گیا۔ تبسّم نے آنسوؤں کو پونچھتے ہوئے اپنی کہانی شروع کی۔ اپنی اُوپر بیتی شروع کرتے ہوئے تبسّم مجھ سے کہنے لگی ۔ " کیا آپ کو میری عمر معلوم ہے؟"
جانکاری نہ ہونے کے باوجود میں نے مختصرا" "پندرہ سولہ سال " کہا۔
"پندرہ سولہ سال نہیں میں تیرہ برس کی ہوں۔ اتفاق دیکھئے ساڑھے تیرہ سال پہلے میرے قتل کا ارادہ کیا جا رہا تھا تو کسی بندہء خدا نے ترس کھا کر مجھے بچا لیا۔"
میں کچھ چونک سا گیا کہ تیرہ سال عمر ہونا اور ساڑھے تیرہ سال پہلے قتل کا ارادہ ۔۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔
"کہیں تم۔۔۔۔۔۔۔۔ "
اس سے پہلے میں کچھ اور کہتا تبسّم میری بات کاٹ کر کہنے لگی۔ "آپ کو شاید میرا کہنا جھوٹ لگا۔ میں سچ کہہ رہی ہوں اور مجھے لگتا ہے آپ شاید کسی پرانی دنیا میں آباد ہیں۔ آپ کو شاید یہ بھی معلوم نہیں ہوگا کہ سائنس کتنی اونچائی پر پرواز کر رہا ہے اور لوگ کتنے مہذب بن گئے ہیں"
" نہیں میں نے ایسا کچھ نہیں سوچا ۔ آپ بھلا کیوں جھوٹ بولیں گی۔میں۔۔۔۔۔"
میں کچھ اور کہنے ہی والا تھا کہ وہ پھر مخاطب ہوئی۔ " اس شخص کے ترس کھانے کے بعد میں شاد و مسرور زندگی جینے لگی اور زندگی کے تیرہ پڑاو مکمل کئے۔ آج سوچ رہی ہوں اگر اسی دن مُجھے مقتول بنا دیا جاتا تو نوبت یہاں تک نہیں آ پاتی۔
میری کانپتی روح عالم ارواح پہنچتے ہی وہاں محشر بپا ہوا۔ تمام ارواح کانپنے لگیں۔ فرشتے بھی آدم ذات پر نالاں و پشیمان تھے۔"
اب میں خاموش بیٹھا تبسّم کی باتیں کان دھر کر سننے لگا اور وہ کہتی جا رہی تھیں۔
"میرا مستقبل بھی میرے لئے ٹھیک نہیں رہتا۔ اگر مجھے حیات کا کچھ اور حصہ گزارنا ہوتا تو مجھے مر مر کے جینا تھا اور ہر بار مجھے تشدد کی بھٹی میں جلنا تھا۔ کالج و دانشگاہ تک نہ جانے مجھ پر کتنی میلی نگاہیں اٹھتیں۔ عین جوانی میں میرے جسم و جان کی خریداری کے ساتھ میرے سر کچھ فرمائشیں ہوتیں۔ میں اب آدم کی پرچھائیں سے بھی ڈرتی ہوں۔"
" آج۔۔۔۔آج میرے ساتھ جو بھی ہوا ٹھیک نہیں ہوا" ایک لمبی آہ بھرتے ہوئے وہ چپ ہو گئی۔
" آج کیا ہوا کچھ تو کہئے " میں نے اسے عاجزانہ لہجے میں کہا ۔
"میں کیا کہوں؟ کیسے کہوں؟ وہ زبان میں کہاں سے لاؤں کہ میں آپ کے ساتھ ایسی باتیں کروں"
آنسو پونچھتےہوئے وہ ایک دم کے لئے خاموش ہوئی۔ کچھ وقفے بعد وہ پھر کہنے لگی۔
"شام کے دھندلکے میں دو بندر، جو شکل و صورت میں انسان کے جیسے تھے، مجھے اٹھا کر دور گھنے سنسان جنگل میں، جہاں کسی کی نظر بھی نہ تھی، اپنی جنسی بھوک مٹانے کے لئے لے گئے۔بھوک مٹانےکے بعد وہ تب تک درندوں کی طرح میرے اس نازک جسم کو نوچتے رہے جب تک نہ میری کانپتی روح فضا ء میں تحلیل ہو گئی۔
" اب لکھو گے نا"
میرے لڑکھڑاتے قلم سے آنسو رواں ہونے لگے ، میں ابھی بھی سوچ میں ہوں کہ ایسی کہانی کیسے لکھوں۔۔۔۔۔
رابطہ: بدورہ اچھہ بل اسلام آباد
ای میل:[email protected]