کانسچونسی پروفائل|| گاندربل نشست پر سنسنی خیز مقابلہ متوقع عمر عبداللہ سمیت 15امیدوار میدان میں

بلال فرقانی

سرینگر// پارلیمنٹ الیکشن میں ناکامی کے بعد سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ کو آبائی نشست گاندربل کی زمین کامیابی کیلئے زرخیز نظر آئی اور انہوں نے اسی نشست سے ایک بار پھر اپنی سیاسی قسمت آزمانے کا فیصلہ لیاتاہم عمر عبداللہ کیلئے اب کی بار کامیابی آسان نہیں ہوگی۔ عمر عبداللہ کے مد مقابل نیشنل کانفرنس کے سابق لیڈر شیخ اشفاق جبار کھڑے ہوئے ہیںجبکہ جنوبی کشمیر سے کاغذات نامزدگی رد ہونے کے بعد جیل میں بند سرجان برکاتی بھی دوڑ میں شامل ہیں۔عوامی اتحاد پارٹی نے چیمبر آف کامرس کے سابق صدر شیخ عاشق کو انتخابی میدان میں اتار ہے تو پی ڈی پی نے بھی کنگن نشست سے ماضی میں انتخابات میں شرکت کرنے والے امیدوار بشیر احمد میر کو مقابلے کیلئے کھڑا کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمر عبداللہ کو اس نشست سے جیت درج کرنے کیلئے عرق ریزی کرنی پڑے گی کیونکہ ان کے مقابلے میں امیدوارں کو کسی بھی صورت میں سرسری نہیں لیا جاسکتا۔ نیشنل کانفرنس اگرچہ ماضی میں6مرتبہ اس نشست سے کامیاب ہوئی ہے اور عمر عبداللہ کے علاوہ ان کے والد اور سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور ان کے دادا مرحوم شیخ محمد عبداللہ نے اس نشست سے کامیابی حاصل کی ہے۔2008کے انتخابات میں پی ڈی پی امیدوار قاضی محمد افضل نے امیدوں کے برعکس عمر عبداللہ کو شکست دی۔ سابق ممبر اسمبلی شیخ اشفاق جبار نے2014کے الیکشن میں نیشنل کانفرنس کی ٹکٹ پر جیت درج کی تھی جبکہ انکی اہلیہ اس وقت بھی ضلع ترقیاتی کونسل کی سربراہ ہے۔پی ڈی پی نے گاندربل نشست سے بشیر احمد میر کو میدان میں اتارا ہے۔میر نے2014کے الیکشن میں کنگن نشست سے پی ڈی پی کی ٹکٹ پر الیکشن میں شرکت کی تھی اور24ہزار کے قریب ووٹ حاصل کئے تھے تاہم وہ قریب1500ووٹوں کے فرق سے الیکشن میں شکست کھا گئے۔2008کے الیکشن میں بھی بشیر احمد میر دوسرے پائیدان پر رہے تھے اور قریب8ہزار ووٹوں سے الیکشن ہار گئے تھے۔حد بندی کمیشن کی جانب سے کنگن کو’ایس ٹی‘ زمرے کیلئے مخصوص رکھنے کے بعد پی ڈی پی نے اس الیکشن میں میر کو گاندربل نشست سے اپنا امیدوار نامزد کیا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ میر کیلئے اگرچہ گاندربل کی سرزمین نئی ہے تاہم بشیر احمد میر اس نشست سے نا آشنا نہیں ہیںاور وہ اس نشست کیلئے ایک مضبوط دعوے دار ہوسکتے ہیں۔ کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سابق صدر اور معروف کاروباری شیخ عاشق کو انجینئر رشید کی سربراہی والی عوامی اتحاد پارٹی نے اپنا امیدوار نامزد کیا ہے۔ جیل میں نظر بند سرجان وگے(برکاتی) کے نامزدگی کے کاغذات اگرچہ پہلے مرحلے میں ہونے والے انتخابات کیلئے زینہ پورہ حلقہ انتخابات سے رد ہوئے تھے،تاہم بعد میں انہوں نے گاندربل نشست سے اپنے کاغذات نامزدگی داخل کئے۔تجزیہ کاروں کے مطابق برکاتی کی اس نشست میں موجودگی کتنا اثر انداز ہوگی،اس کا قبل از وقت اندازہ لگانا مشکل ہے تاہم برکاتی بھی اچھے خاصے ووٹ حاصل کرسکتے ہیں۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انجینئر رشید کی عارضی رہائی کے بعد جو انتخابی لہر چل رہی ہے اس کے چلتے شیخ عاشق حسین کو بھی ہلکے میں نہیں لیا جاسکتا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اس نشست پر کس کا پلڑا بھاری ہوگا اس کا فیصلہ نتائج برآمد ہونے کے بعد آئے گا تاہم سابق وزیر اعلیٰ کے اب کی بار اس نشست سے کامیابی آسان نہیں ہوگی۔مجموعی طور پر گاندربل نشست سے15امیدوار میدان میں ہیں جن میں اپنی پارٹی کے قاضی مبشر فاروق راشٹریہ لوک جن شکتی پارٹی کے طارق احمد زرگر، پنتھرس پارٹی(بھیم) کے عبدالرشید گنائی،ڈیموکریٹک پراگرسیو آزاد پارٹی کے قیصر سلطان گنائی،راشٹریہ لوک دل کے غلام قادر راتھر،ریپبلکن پارٹی آف انڈیا کے ظہور احمد ملک،آزاد امیدوار ماجد اشرف،ثاقب رحمان مخدومی،جاوید احمد وانی ور فاروق احمد بٹ شامل ہیں۔1962میں اس نشست سے عبدالاسلام نے کامیابی درج کی جبکہ1967اور1972میں کانگریس کے محمد مقبول بٹ نے کامیابی حاصل کی۔1977میں شیخ محمد عبداللہ نے23ہزار ووٹوں کی فرق سے اس نشست کو اپنے نام کیا۔1983میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کانگریس کے غلام محی الدین سلاتی کو31ہزار ووٹوں سے جیت درج کی جبکہ1987میں دوسری مرتبہ ڈاکٹر عبداللہ نے مسلم متحدہ محاز کے عبدالخالق صوفی کو23ہزار ووٹوں سے شکست دی۔1996میں ڈاکٹر عبداللہ نے تیسری بار اس نشست سے کامیابی حاصل کی اور کانگریس کے قاضی محمد افضل کو13ہزار کے قریب ووٹوں کے فرق سے ہرادیاتاہم2002کے الیکشن میں قاضی محمد افضل نے اس وقت سب کو حیرت میں ڈال دیا جب انہوں نے اس نشست سے عمر عبداللہ کو3ہزارووٹوں کی فرق سے ہرادیا۔2008میں اس نشست سے عمر عبداللہ نے واپسی کرتے ہوئے قاضی افضل کو شکست دی جبکہ2014میں ایک بار پھر نیشنل کانفرنس نے اس نشست کو اپنے نام کردیا۔شیخ اشفاق جبار نے قاضی محمد افضل کو597ووٹوں سے ہرادیا۔