محبت‘‘ ایک ایسا لفظ ہے جو معاشرے میں بیشتر پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے۔ اسی طرح معاشرے میں ہر فرد اس کا متلاشی نظر آتا ہے اگرچہ ہر متلاشی کی سوچ اور محبت کے پیمانے جدا جدا ہوتے ہیں۔ جب ہم اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات چڑھتے سورج کے مانند واضح ہوتی ہے کہ اسلام محبت اور اخوت کا دین ہے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ تمام لوگ محبت، پیار اور اخوت کے ساتھ زندگی بسر کریں اور جب یہی محبت میاں اور بیوی کے درمیان ہو جاتی ہے تو عبادت بن جاتی ہے۔
اچھی بیوی قدرت کا وہ حسین پھول ہےجو خارزار شوہر کو گلستان میں تبدیل کردیتی ہے ۔ویسے تو محبت انسان کا فطری جوہر ہے ،جس میں عورت(بیوی) کا حصہ زیادہ ہے ۔وہ اپنی محبت سے پوری دنیا کو یکسر بدل دیتی ہے ۔رشتوں کو محبت کی زنجیر سے جکڑ کر ساری زندگی لے کر چلتی ہے ،رشتوں کونبھانے کے لیے زندگی بھر قربانیاں دیتی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ عورت(بیوی) کے دم سے ہی دنیا میں رونق ہے اور وہ ہی ایک مکان کو گھر بناتی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو دنیا کا سب سے بڑا رشتہ میاں بیوی کا ہوتا ہے، اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا فرمان ِعالیشان ہے جس کا مفہوم یہ ہے:’’اگر اللّٰہ تعالیٰ کے بعد کسی کو سجدے کی اجازت ہوتی تو وہ شوہر ہوتا، جو بیوی کو کرنا تھا‘‘۔
میاں بیوی میں اعتماد کی کڑی جتنی مضبوط ہوگی ،ایک دوسرے پر جس قدراعتماد(Trust) قائم رہے گا، اُسی قدر خوشگوار اور پر سکون زندگی گزرے گی اور اس کے اچھے اثرات بچوں پر پڑیں گے۔ آقائے دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ترجمہ۔’’ مومنین میں کامل ایمان والا وہ شخص ہے جو اپنے اخلاق میں سب سے اچھا ہو اور تم میں سے زیادہ بہتر وہ لوگ ہیں جواپنی بیویوں کے لئے سب سے بہتر ہوں‘‘۔
اسلام نے میاں بیوی کو ایک دوسرے کا پردہ کہا ہے۔ دنیا میں کامیاب انسان اگر دیکھے جائیں تو ان کی کامیابی میں ان کی بیوی کا ہاتھ ہو گا ،جو ہر مشکل حالات میں اُس کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے اور تاریخ بھری پڑی ہے، جس میں کسی شخص کی ناکامی میں اس کی بیوی کا ہاتھ ہوگا۔شیطان روز کچہری لگاتا ہے اور اپنے چیلوں سے پوچھتا ہے کہ آج کیا کام ہے ؟سب باری باری بتاتے ہیں کہ حضور آج جھوٹ بُلوایا ہے، کوئی کہتا ہے زنا کروایا ،کوئی کہتا ہے چوری کرائی ہے۔ اس طرح سارے اپنی اپنی کارستانیاں بتاتے ہیں۔ آخر میں ایک چیلا رہ جاتا ہے، وہ کہتا ہے حضور میں نے میاں بیوی کی لڑائی کرائی ہے۔تو شیطان فوراً خوشی سے تالیاں بجاتے ہوئے کہتا ہے۔ اصل کام تو تُو نے کیا ہے اور اس چیلے کو اپنے ساتھ بٹھاتا ہے۔ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ کتنا بڑا یہ رشتہ ہے۔ میاں بیوی کی لڑائی مطلب شیطان کی خوشی۔ تو کیا ایک مومن کبھی چاہے گا کہ اس کے عمل سے شیطان خوش ہو؟
آج کل مرد عورت کو غلام بنانا چاہتے ہیں اور عورتیں مرد کو۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ان کے درمیان رشتہ کتنا بڑا ہے، ان کی لڑائیاں نسلیں تباہ کر دیتی ہیں۔کوئی یہ کوشش نہیں کر رہا کہ کیسے ہم اس رشتے کو کامیاب بنا سکتے ہیں۔ اگر میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ سمجھوتہ( کمپرومائز) کریں تو زندگی حسین بن سکتی ہے ۔ مرد عورت کو سمجھے ،اس کی تکلیف سمجھے ،عورت مرد کو سمجھے تو وہ ایک خوش حال زندگی گزار سکتے ہیں۔ اپنی لڑائی ایک بند کمرے میں لڑی جائے، کسی تیسرے فریق کو خبر بھی نہیں ہونی چاہیے۔ ایک گھر کو خوش حال کرنے میں عورت کا کردار بہت اہم ہے۔مرد عورت کو خوش رکھیں، اس کے لیے مرد کوشش کرے۔ عورت کو خوش کیسےرکھا جا سکتا ہے یہ طریقہ ہمیں حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بتایا ہے۔ انہوں نے ارشادفرمایا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے:’’ عورت مرد کی پسلی سے پیدا کی گئی ہے، اس لیے وہ پسلی کی طرح ہوتی ہے۔ اگر آپ طاقت سے اس کو سیدھا کرنا چاہو گے، تو عورت ٹوٹ جائے گی اور اگر پیار سے آہستہ آہستہ سیدھا کرو گے تو سیدھی ہو جائے گی‘‘۔
میاں بیوی کی محبت اسلام ہمیں سیکھاتا ہے اور حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس محبت کا عملی ثبوت دیا ہے۔ حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور اماں عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا جیسی محبت کی مثال پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ ایک بار پانی پی رہی تھیں، حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: عائشہ اپنے اس پانی سے تھوڑا سا پانی مجھے بھی بچا کے دینا ۔ جب حضرت عائشہ صدیقہؓ نے اپنے حصے کا بچا ہوا پانی دیا تو حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’عائشہ مجھے وہ جگہ بتائیں جہاں سے آپ نے اپنے ہونٹ لگائے ہیں‘‘۔سبحان اللّٰہ دیکھیں کیسی محبت ہے۔
کامیاب ازدواجی زندگی کے کچھ کامیاب اصول:
شادی کے ابتدائی مراحل میں خواتین کو اس بات کا لحاظ رکھنا چاہئےکہ یہ وقت اپنے شوہر کی بات ماننے کا ہوتا ہے ، شوہر جو بھی بات کہے، اُس پر مکمل اعتماد کا مظاہرہ کیجئے، اگر میاں بیوی چاہیں تو ایک دوسرے کے بہترین دوست بن سکتے ہیں اور زندگی بہت خوبصورت بن سکتی ہے۔ ایسے ہی شوہر کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کا پورا پورا خیال رکھے اور لڑکی جو اپنا محبت بھرا خونی رشتہ چھوڑ کر اپنے والدین، بہن بھائی اور خاندان سے رخصت ہوکر آپ کے نکاح میں آئی ہے، اس کی تمام خواہشات کا پاس رکھنا لڑکے کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ خواتین سب سے پہلے یہ غلطی کرتی ہیں، کہ شوہر کو اُس کے والدین سے بدظن کرنا شروع کردیتی ہیں، انسانی دماغ اس بات کو کسی صورت بھی قبول نہیں کرتا کہ وہ سرمایہ حیات، جسے والدین نے دن رات محنت کرکے پالا ہو، بچپن کی تکلالیف کو برداشت کرکے پروان چڑھایا ہو، پھر پڑھایا لکھایا اور اچھی تربیت کے ساتھ ساتھ شادی کا بندوبست کیاہو، اس کی ہرضرورت اور خواہش پوری کی ہو ، لیکن شادی ہوتے ہی انہیں اپنا دشمن سمجھ لے، یہ بہت ہی مشکل اور تکلیف دہ چیز ہے۔ بجائے اس کے لڑکی کے لئے یہ بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے، مگر پھر بھی ناممکن نہیں، اگر لڑکی سمجھداری کے ساتھ اپنی ساس اور نندوں کا دل جیت لے تو پھر شوہر کا دل جیتنا اس کے لئے مشکل نہیں ہوتا۔
ایسے ہی خاوند کو بھی چاہیے کہ وہ گاہے بگاہے شریک حیات کو اپنے والدین سے ملانے کے لئے خود لے کر جائے اور لے کر آئے۔ بیوی پر ایسی کوئی پابندی نہ لگائے کہ وہ اپنے والدین سے مل نہ سکے۔ اس طرح زندگی کے لمحات خوشگوار بن سکتے ہیں۔ اکثر وبیشتر لڑکیوں کی طرف سے یہ بات دیکھنے میں آتی ہے ، کہ وہ اپنے سسرال کی تمام باتیں اپنے میکے میں ہرکسی کو بتانے لگ جاتی ہیں، یہ بہت قبیح حرکت ہے۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ سسرال اور میکے کے مسائل کو الگ الگ رکھا جائے، تب ہی زندگی آسان اور کامیاب بن سکتی ہے۔
خواتین کو اس بارے میں سمجھداری سے کام لینا چاہیے کہ جب خاوند سارا دن ڈیوٹی میں گزارنے کے بعد شام کو تھکا ہارا گھر واپس لوٹتا ہے، تو اسے ایک مکمل گھر کی اُمنگ ہوتی ہے۔ گھر کو صاف ستھرا ہو، گھر کے سامان کو صفائی اور ترتیب کے ساتھ اپنی اپنی جگہ پہ سجایا ہو۔ شوہر کے گھر واپس آنے سے پہلے پہلے خواتین کو چاہیے، کہ وہ اپنے گھر کے تمام کام کاج سے فارغ ہوجائیں اور صرف خاوند کے استقلال کے لئے فارغ ہوں، نہایت خوش اخلاقی اور اچھے طریقے سے پیش آئیں اور گھر آتے ہی اسے ایسا پرسکون ماحول ملےکہ وہ تمام دن کی تھکن بھول جائے، اسے آرام کا سانس لینے دیں پانی وغیرہ پوچھیں ، پھر اس سے دریافت کریں کہ آپ کا دن کیسا گزرا؟ شادی شدہ زندگی میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ بات کو کس موقع پر بیان کرتی ہیں۔ ایسے ہی شوہر کو چاہیے کہ گھر آکر اگر وہ کوئی ایسی چیز دیکھے، جو اس کے مزاج اور طبیعت کے خلاف ہو تو صبر سے کام لے، گھر آتے ہی اعتراضات کی بوچھاڑ اور دنگا وفساد شروع نہ کرے۔ اُسے چاہیے کہ اطمینان کے ساتھ اس بارے میں اپنی اہلیہ سے استفسار کرے تاکہ اصل صورت حال سے آگاہی ہو سکے۔ ایسے ہی میاں بیوی کو ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھنا چاہیے، شادی کے ابتدائی ایام بہت ہی اہم ہوتے ہیں، میاں بیوی ایک دوسرے کو سمجھ نہیں پاتے، جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، ایک دوسرے کو سمجھنے کو موقع ملتا ہے۔ انسان ایک دوسرے کے مزاج ، عادات اور اخلاق کو سمجھ لیتا ہے۔ اگر خاوند غصے میں ہو تو بیوی کو چاہیے، کہ خاموشی اختیار کرے، کیونکہ آدمی کا غصہ آگ کی طرح ہوتا ہے اور عورت کی تیزی جلتی پر تیل کا کام کرتی ہے، اُس وقت عورت کو چاہیے کہ تحمل واطمینان سے کام لے، کسی بھی انسان کو ناپسندیدہ بات پر غصہ آجانا ایک فطری چیز ہے، اگر بیوی کو کسی بات پر غصہ آجائے تو شوہر یعنی میاں کو بھی تحمل مزاجی سے کام لینا چاہیے۔ ایسی بات نہیں کہ غصہ کرنا صرف شوہر کا حق ہے۔ میاں بیوی کے درمیان لڑائی، جھگڑے کی بنیادی وجوہات میں سے ایک وجہ شوہر کا اپنی بیوی پر اعتماد ویقین نہ کرنا ہے۔ عورت اگر اپنی نندوں میں سے کسی کی غلط عادت کی اصلاح کرنا چاہتی ہے، تو وہ اسے اپنے لئے بہت بڑا مسئلہ سمجھ لیتی ہے، اس طرح وہ بہت قسم کی باتیں کرنا شروع کردیتی ہیں۔ پھر بات بات پہ ایک دوسرے کو روکنے اور ٹوکنے کا سلسلہ چل نکلتا ہے، بالآخر اپنے بھائی کو اس کے خلاف اُکسانا شروع کردیتی ہیں اور پھر شوہر صاحب اپنی بیوی سے پوچھے بغیر بہنوں پر اندھا اعتماد کرلیتا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ازدواجی زندگی محبت کی بجائے نفرت میں تبدیل ہوجاتی ہے اور پھر معاملہ اس قدرسنگین ہوجاتا ہے کہ نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ معاملہ اُلجھانے کی بجائے خاوند کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی پر مکمل اعتماد کرے، اگر کوئی مسئلہ درپیش ہوتو اس کے بارے میںاپنی بیوی سے اس کی وجہ معلوم کرے، کیونکہ میاں بیوی کا باہمی اعتماد ہی دراصل کامیاب زندگی کا راز ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عورت اپنی زندگی کو خوبصورت بنانے کے لئے قناعت کے ساتھ اپنے شوہر کی کمائی پر گزارہ کرے اور شوہر سے ایسی چیز کا مطالبہ ہرگز نہ کیا جائے، جو اسے پریشان صورتحال سے دوچار کردے۔ آپ اپنی آمدن کے مطابق ایک دائرے میں رہتے ہوئے خرچ کریں، ایسے ہی خاوند کو چاہیے، کہ وہ شادی کے بعد اعتدال کے دامن کو تھامے رکھے، وہ اپنے آپ کو کچھ دکھانے کے لئے بے جا پیسے کا استعمال نہ کرے، اُسے فضولیات سے ہٹ کر اپنی اصل ضروریات پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔
ہمارے پیارے نبی محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی ارشادِ عالی ہے کہ جس میں بیوی کے حقوق کے متعلق آپؐ نے فرمایا کہ ’’ جب تو کھائے تو اپنی بیوی کو بھی کھلا اور تو پہنے تو اپنی بیوی کو بھی پہنا اور اُس کے چہرے پر مت ماراور اُسے گالی گلوچ بھی نہ کر اور اُسے نہ چھوڑو‘‘۔ گویا اپنے گھر میں رہتے ہوئے اسلام نے مرد کو بھی عورت کے حقوق سمجھائے ہیں، ایسے ہی عورت کے اوپر بھی بھاری ذمہ داری عائد کی ہے۔ عورت کے متعلق فرمایا:’’دنیا تمام کی تمام فائدے کا سامان ہے، لیکن بہترین فائدہ مند چیز وہ عورت ہے، جو نیک ہو، جب خاوند اس کی طرف دیکھے تو اُسے خوش کردے اور جب اُسے حکم دے تو فوراً اطاعت کرے‘‘ ۔
اللہ سے دعا ہے کہ مولا کریم اپنے خاص فضل وکرم سے تمام مسلم گھرانوں میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کی ذمہ داری اچھے طریقے سے نبھانے کی توفیق دے، اس کے سبب اللہ پاک ہمارے گھروں میں امن وسکون ، محبت و شفقت کی فضا پیدا کرنے کی ہمت و توفیق دے اور ہمارے گھروں، معاشرے اور عالم اسلام کو نظر بد سے محفوظ فرمائے اور اُجڑتے گھرپھر سے جنت نظیر بن جائیں۔ آمین