غلام محمد
سوپور//جموں کشمیر کے نوجوانوں کی خوابوں سے اختراع تک، تعلیم کے ذریعے اپنی دنیا کو تبدیل کرنے کی کامیابی کی ناقابل اعتبارکہانیاں منظرعام پرآرہی ہیں۔گیس بخاریاں کشمیر کے گھروں میں عام ہیں کیوں کہ لوگ موسم سرما میں سردی سے بچنے کیلئے گیس اورکوئلے کی بخاریوں کااستعما ل کرتے ہیں۔اوراس دوران رات بھر کمرے میں معقول ہواداری نہ ہونے کی وجہ سے متعددلوگ دم گھٹنے سے مرجاتے ہیں۔طبی ماہرین کے انتباہ کے باوجود لوگ ان آلات کابے تحاشہ استعمال کررہے ہیں جس سے آکسیجن سے کم ماحول پیداہوتا ہے اورکمروں میں زہریلی گیس جمع ہونے سے اموات ہوتی ہیں۔تاہم ان مشکلات کاہائرسکینڈری سکول فتح گڈھ کے دوہونہار طلاب نے اختراعی حل ڈھونڈ لیا ہے ۔انہوں نے کمرے میں زہریلی گیس جمع ہونے کی نگرانی کرنے اور درجہ حرارت کوریگولیٹ کرنے اورزہریلی گیسوں کاپتہ لگانے کا آلہ تیار کیا ہے۔اس سے نہ صرف متعدداموات کوروکا جاسکے گابلکہ انسانی مداخلت کو بھی روکا جائے گا۔اس ایجاد نے انہیں یوتھ ڈیلتھان 2022 میں سوسرفہرستوں میں جگہ دی ہے۔اٹل ٹنکرنگ لیبس اور پائی جام فائونڈیشن نے ان طلاب کو پریکٹیکل کمپوٹرتعلیم فراہم کی ۔کامیابی کی ایک اور داستان ادھمپور سے آئی ہے جہاں گنیش نامی ایک نوجوان نے نالیوں میں آئی رکاوٹوں کا پتہ لگانے کاآلہ اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ مل کر بنایا۔گنیش کاصرف ایک بازوکام کررہا ہے اور ایک حادثے میں اس کادوسرابازوبہت کمزور ہے۔