کامیابی راتوں رات نہیں ملتی | مقصد زندگانی کی خاطر زندگی کو بدلنا پڑے گا حرفِ حق

امتیاز خان

انسان نے جوں جوں ترقی کی ،مختلف شعبہ ہائے زندگی میں آگے بڑھنے کی دوڑ شدت اختیار کرتی چلی گئی۔ کامیابی کے حصول کیلئے جدوجہد کرنا انسان کی فطری خواہش ہے اور کچھ ایسی بْری بھی نہیں لیکن کامیابی کے معیارات انتہائی مبہم اور غیر واضح ہو گئے ہیں۔ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے یا یوں کہئے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے مقابلے کی فضا نے زندگی کے ہر شعبے کواپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ کچھ بننے اور کچھ کر دکھانے کے حوالے سے آج کے انسان پر اس قدر دبائو ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زندگی پیچیدہ تر ہوتی جارہی ہے۔ ایک طرف تو یہ حقیقت ہے کہ کم و بیش ہر معاملے میں الجھنیں بہت بڑھ چکی ہیں۔ معمولی سے واقعات بھی پیچیدہ ہوچکے ہیں۔ دوسری طرف اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتاہے کہ انفرادی سطح پر طے کرلیا گیا ہے کہ معاملات کو درست کرنے پر متوجہ نہیں ہونا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ درستی کی خاطر جو تھوڑا بہت کیا جاسکتا ہے وہ بھی نہیں کیا جارہاہے۔ ہردور میں انسان کیلئے اپنے وجود کو ماحول کے مجموعی اثرات کے حوالے سے محفوظ رکھنا انتہائی دشوارہو رہا ہے۔
ہم ساری زندگی اسی کوشش میں گزارتے ہیں کہ دنیا ہمیں ایک کامیاب انسان تسلیم کرلے۔مطلب ساری زندگی کی بھاگ دوڑصرف دوسروں کو دِکھانے کیلئے ہے ۔اگر محنت و مشقت کے بعد ایسا ہوبھی جائے کہ دنیا آپ کو کامیاب مانے اور آپ کی شہرت کے چرچے چاردانگ عالم پھیل جائیں لیکن آپ جب خود میں جھانکیں تو آپ کو اس تلخ حقیقت کا سامناہو کہ میں تو اندر سے وہ ہوں ہی نہیں جو دنیا مجھے سمجھتی ہے۔آپ جب بھی اپنے من میں ڈوبیں تو وہاں آپ کو خالی پن کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ایک با ت یاد رکھیں کہ اگر آپ محنت کرکے کسی سوال کا جواب نہیں ڈھونڈتے توپھر یہ ہوگا کہ اس چیز کے متعلق جو بنی بنائی معلومات ہیں وہ آپ کے گلے پڑجائیں گی۔کامیابی کے بارے میں آپ کا جوبھی تصور ہے آپ کی پوری زندگی اس کے گر د گھوم رہی ہوتی ہے۔اگر آپ زیادہ پیسے کمانے کوکامیابی سمجھتے ہیں تو آپ کارہن سہن اور سوچ وفکر بھی اسی نقطے کے مطابق ہوگی۔آپ کا ہر کام اسی نقطے سے شروع ہوگا۔آپ کسی بھی کام کو اسی سوچ کے ترازو میں تولیں گے۔ممکن ہے کہ آپ محنت کریں ، دن رات کتنی بھی آبلہ پائی کریںاور منزل تک پہنچ بھی جائیں لیکن آپ زندگی کو کھودیں گے۔بڑی تنخواہ والی نوکری،شاندار گاڑی ، خوبصورت بنگلہ اور نوکر چاکر یہ سب معاشرے کی سوچ ہے اور معاشرہ ان چیزوں کی بنیاد پر لوگوں کے کامیاب یا ناکام ہونے کا فیصلہ کرتا ہے لیکن آپ کی نظر میں کامیابی کیا ہے؟ اپنے دِل سے پوچھیں۔آج اگر آپ کے پاس یہ سب چیزیں آجائیں تواس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ آپ خوش بھی ہوں گے؟
رابن ولیم کو کون نہیں جانتا۔اس کو دنیا کا ایک عظیم مزاحیہ اداکار کہا جاتا ہے۔اس نے کئی دہائیوں تک لوگوں کے دِلوں پر راج کیا۔وہ اسٹیج کا بادشاہ تھا۔اس کی مزاحیہ حس اتنی شاندارتھی کہ صرف امریکہ ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں اس کے چاہنے والے موجود تھے۔’مورک اینڈ مینڈی‘ اس کاوہ پروگرام تھا جس نے مقبولیت کے ریکارڈ توڑدئے تھے۔ٹائم میگزین نے اس کی تصویر کو اپنے ٹائٹل پر چھاپا۔اس کواپنی شاندار پرفارمنس پرکئی اعزازات سے نوازا گیا جن میںآسکر ایوار ڈبھی شامل ہے۔پیسہ ،شہرت،گاڑی، بنگلہ اور ایک پرتعیش زندگی ، اس کی زندگی میں کسی چیزکی کمی نہیں تھی۔اس کے پاس وہ سب کچھ تھا جس کا ایک عام انسان صرف خواب دیکھ سکتا ہے۔اگر میں آپ کے جواب کے تناظر میں رابن ولیم کوپرکھوں تو سیدھا جواب یہی آتا ہے کہ وہ ایک کامیاب ،خوش قسمت اور پرسکون زندگی گزارنے والا شخص تھا ،جس کی زندگی میں کوئی محرومی نہیں تھی لیکن یہاں آکر یہ سب پیمانے غلط ثابت ہوجاتے ہیں جب 11اگست 2014کو وہ اپنے گھر میں خودکشی کرلیتا ہے۔تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ کوکین کا عادی بن چکا تھا اور اس کی زندگی ڈپریشن سے بھرپور تھی۔

عملی زندگی کے حوالے سے ہمیشہ نئی نسل کو غیر معمولی دبائو کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ عنفوانِ شباب میں انسان بہت کچھ کرنے کے خواب دیکھتا ہے اور ہر خواب کو شرمندئہ تعبیر کرنے پر تْل جاتا ہے۔ اْٹھتی جوانی انسان کو بہت کچھ کرنے کی تحریک دے رہی ہوتی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ تارے توڑ لائے تاکہ لوگ اْسے مانیں۔ عہدِ شباب انسان کیلئے انتہائی بارآور بھی ثابت ہوسکتا ہے اور انتہائی نقصان دہ بھی۔ بارآور یوں کہ عمر کے اِس حصے میں انسان بہت کچھ کرنے کی سکت رکھتا ہے اور کر دکھاتا بھی ہے۔ نقصان دہ اس طرح کہ محض جذباتیت کی نذر ہوکر انسان اپنے آپ کو ناکامی کے گڑھے میں گرا سکتا ہے۔اب مشکل یہ آن پڑی ہے کہ ماحول دن بہ دن پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا جارہا ہے۔ مواقع بہت ہیں مگر اْن سے کماحقہ مستفید ہونے کے بارے میں سوچنے والے کم ہیں۔ ایسا اسلئے ہے کہ زندگی کے کم و بیش تمام ہی پہلوئوں کو عجلت پسندی نے گرفت میں لے لیا ہے۔ نئی نسل پر عجلت پسندی نے زیادہ کاری وار کیا ہے۔ نئی نسل کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بہت تیزی سے بہت کچھ کرنا اور پانا چاہتی ہے۔ جن نوجوانوں نے ابھی زندگی باضابطہ طور پر شروع کی ہوتی ہے وہ بھی صریحاً بلا جواز عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے وجود کو تماشا بنانے پر تْلے رہتے ہیں۔

نئی نسل کو عملی زندگی کے حوالے سے غیر معمولی راہ نْمائی درکار ہے۔ ہر شعبے میں مسابقت خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ کیریئر کے بارے میں سوچنا آسان ہے مگر اِس حوالے سے جامع تیاریاں کرنا اور پھر میدانِ عمل میں آنا بہت دشوار ہے۔ نئی نسل کے ذہن میں عملی زندگی کا صرف یہ تصور ہے کہ صرف کمایا نہ جائے بلکہ زیادہ سے زیادہ کمایا جائے۔ اْس کی نظر میں جو کچھ بھی ہے وہ بس مال ہے۔ کسی نہ کسی طور محض زیادہ دولت کمانے کو کسی بھی درجے میں کیریئر قرار نہیں دیا جاسکتا مگر نئی نسل کو یہ بات سمجھانے کی زحمت گوارا کرنے والے خال خال ہیں۔ دورِ جدید کے شعبوں میں کام کرنے والے نوجوان بھی عام آدمی سے کہیں زیادہ کمانے کے باوجود اپنی زندگی میں کمی سی پاتے ہیں۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ صرف کمانے کو زندگی کا مقصد گرداننے لگتے ہیں۔ جب دولت کے سوا کچھ بھی دکھائی نہ دے رہا ہو تب انسان کنویں کے مینڈک کا سا ہو جاتا ہے۔ اْس کی زندگی میں دل کشی باقی نہیں رہتی۔ وہ بہت کوشش کرنے پر بھی زندگی میں وہ سْکون پیدا نہیں کر پاتا جو پیدا ہونا چاہئے۔

ہمارے ہاں نئی نسل کو یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی جارہی ہے کہ کامیابی راتوں رات نہیں ملتی اور اگر کبھی، حالات کی مہربانی سے، پلک جھپکتے میں کچھ زیادہ حاصل ہو بھی جائے تو اْسے حقیقی کامیابی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کامیابی وہی ہے جس کیلئے اچھی طرح تیاری کی گئی ہو، ذہن بنایا گیا ہو، متعلقہ اْمور کا خیال رکھا گیا ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اخلاقی پہلوئوں کو نظر انداز نہ کیا گیا ہو۔ اگر دوسروں کو دھکیل کر، گراکر آگے نکل گئے تو اِسے کسی بھی درجے میں حقیقی اور قابلِ فخر کامیابی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ نئی نسل کو بتایا جانا چاہئے کہ حقیقی کامیابی یہ ہے کہ انسان پْرآسائش زندگی تو بسر کرے مگر دل و دماغ پر، ضمیر پر کوئی بوجھ نہ ہو۔کامیابی کی راہ پر بڑھتے جانے کیلئے دوسروں کو دھکیلنا، گرانا کسی بھی درجے میں پسندیدہ عمل نہیں۔ یاد رکھیں کہ اگر آپ کی وجہ سے لوگوں کی زندگیوں میں کوئی بہتری آرہی ہے تو آپ ایک کامیاب انسان ہیں۔سکندر اعظم نے وصیت کی تھی کہ مرنے کے بعد میرے دونوں ہاتھوں کو کفن سے باہر رکھ لینا تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ دنیا فتح کرنے والا بھی دنیا سے خالی ہاتھ جارہا ہے۔

خود غرضی پر مبنی کامیابی کی دوڑ نے عالمی سطح پر بے چینی ،مایوسی، لالچ اور ہوس کو فروغ دے کر دیگر معاشرتی برائیوں کو جنم دیا ہے۔ہمیں اپنے اس بدترین دشمن کی پہچان کر کے اپنی آنے والی نسلوں کو اس سے محفوظ بنانا ہو گا ،مثبت مقابلے کا ماحول پیدا کر کے خود پرستی اور خود غرضی کا راستہ روکنا ہو گا ورنہ ہم دوسروں کیلئے تو مہلک ہوں گے ہی اپنوں کیلئے بھی برادرانِ یوسف ثابت ہوں گے۔