چند سال قبل نئی دلی ہائی کورٹ نے ایک فیصلہ سُنایا۔ ہوا یوں کہ کسی خداکے بندے کو طوطوں کو پنچروں میں دیکھ کر عار محسوس ہوا ، اور اُس نے ہائی کورٹ میں رِٹ داخل کردی کہ پنجروں میں پرندوں کو قید کرنے اور ان کا کاروبار کرنے پر پابندی عائد کردی جائے۔ ہائی کورٹ کے حساس جج جسٹس منموہن سنگھ نے پنجروں میں پرندوں کو قید کرنے یا اِن کو سمگل کرنے پر پابندی کا تاریخی فیصلہ سُنایا۔اپنے فیصلے میں جسٹس سنگھ نے کہا: ’’مجھے اس بارے میں کوئی شائبہ تک نہیںکہ سبھی پرندوں کے بنیادی حقوق ہوتے ہیں، اور ان حقوق کے تحت وہ افلاک کی سیر کرنے کی آزادی رکھتے ہیں، انہیں چھوٹے پنجروں میں قید کرکے ان کا کاروبار کرنے کا کسی انسان کو کوئی حق نہیں۔ـ‘‘ جج صاحب نے یہاں تک کہہ دیا کہ، ’’ پرندوں کو عزت کے ساتھ جینے کا بنیادی حق حاصل ہے، اور ان پر عتاب کرنا یا ان کا کاروبار کرنا ،انہیں پنجروں میں کھانے پینے اور طبی امداد کے بغیر رکھنا اُن کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔‘‘ عدالت نے پرندوں کا کاروبار کرنے والے دلی کے ایک شہری محمد معظم کے نام ایک نوٹس بھی جاری کیا ۔
اس فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر یہ بحث عام ہوئی کہ بھارت جدید اخلاقی اصولوں میں یورپ اور امریکہ سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ اس کے بعد بالی ووڈ کی فلموں کو ریلیز سے قبل جانچنے اور پرکھنے والے ادارے سینسر بورڈ نے بھی ایک حکمنامہ جاری کیا کہ ہر فلم ساز یہ یقینی بنائے کہ شوٹنگ کے دوران کسی جانور کو تکلیف تو نہیں دی گئی، اور اس کا حلفیہ اعلان فلم کے آغاز میں ہی کیا جائے۔اس سے قبل آوارہ کتوں کی اجتماعی ہلاکت پر بھی بھارت بھر میں مہم چلی تھی۔ ویسے ان حکمناموں سے لگتا بھی ہے کہ بھارت کا اجتماعی ضمیر ظلم اور بربریت کی تمام علامتوں سے کڑھتا ہے، اور حکومتی ادارے بے باک انداز میں پرندوں اور حیوانوں کے حقوق سے متعلق بھی حساس ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ گجرات میں جب بندروں نے سیاحوں کی ناک میں دم کردیا تو گجرات کی حکومت نے آوارہ بندروں کے لئے ’’شوٹ ایٹ سائٹ‘‘ کا حکم جاری کردیا۔ دلچسپ امر ہے کہ اُسوقت بھی گجرات میں بی جے پی کی حکومت تھی، لیکن پرندوں کی قید اور کتوں کی ہلاکت پر پابندی واقعی انسانیت کا بلند تر درجہ ہے، جس پر سوشل میڈیا میں خوب تعریفی مہم چلی۔
اب ذرا پرندوں اور حیوانوں سے ہٹ کر انسانوں کا رُخ کرتے ہیں۔حیوانوں کے حقوق اس قدر انسانی حقوق پر غالب آگئے ہیں کہ محمد اخلاق اُس جانور کا گوشت کھانے پر قتل کیا گیا جسے کبھی ذبح نہیں کیا گیا، پہلو خان اُس جانور کی چوری پر مارا گیا جو آرام سے اصطبل میں چارہ کھا رہا تھا۔ اور اس سے بھی بڑی بات کہ کشمیری محض اس لئے پرندوں اور حیوانوں سے بھی گیا گزرا ہوگیا کیونکہ وہ تاریخ کی ناانصافیوں پر آواز بلند کررہا ہے، وہ ظلم و جور کے خلاف سینہ کوبی کرتا ہے، جو قمریوں،عندلیبوں اور طوطیوں کی طرح آزاد فضا میں اُڑنا ا چاہتا ہے۔
لیکن اس کی یہ پرواز ہر بار سیکورٹی کے نام پر روک دی جاتی ہے، اس کے پر کاٹے جاتے ہیں، اس کی طرز ِفغاں پر پہرے بٹھائے جاتے ہیں، اور اس کے عبور و مرور پر رُکاوٹیں کھڑی کردی جاتی ہیں۔
سیاست دانوں سے سابق فوجی جنرلوں تک سب یہ کہہ چکے ہیں ہائی وے پر ہفتے میں دو دن سول ٹریفک روکنا سیکورٹی کے اعتبار سے ایک بھونڈافیصلہ ہے، لیکن حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی۔اگر پرندوں اور کتوں کو ’’عزت سے جینے‘‘ اور ’’آزادی سے اُڑنے ‘‘ کی فکر بھارتی عدلیہ کو ستانے لگی، کشمیری تو پھربھی اشرف المخلوقات ہی کا حصہ ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے دیگر بھارتی شہری۔
19سال قبل فلسطین میں دوسرے انتضاضہ کے بعد اسرائیل نے مغربی پٹی اور فلسطین کے درمیان ایک اونچی دیوار کھڑی کرکے اسے ایک اہم سیکورٹی اقدام قرار دیا۔دو سال بعد اقوام متحدہ نے اس دیوار کے خلاف قرارداد منظور کرلی، لیکن یہ دیوار آج بھی فلسطینی دلوں میں خنجر کی طرح پیوست ہے۔کیا بھارتی عوام کومذہبی قوم پرستی کی اتنی غذا کھلائی گئی ہے کہ وہ اب کشمیریوں کو اجتماعی طور سزا دینے کے اعمال کا حظ اُٹھاتے ہیں؟ اگر واقعی کشمیریوں کو ستانے سے بھارت کی سیاست چلتی ہے تو مستقبل کا خدا ہی حافظ ؟ اور اگر یہ پیسے اور پاور کے بل پر کھڑا کیا گیا ہوا ہے، تو وقت آگیا ہے کہ بھارتی عوام کے ساتھ رابطے اُستوار کئے جائیں۔کشمیری اس قدر محصور ہیں کہ دلی ہائی کورٹ کا فیصلہ انہیں سنایا جائے تو ان کی زبان سے بے ساختہ یہ فقرہ نکلے گا: کاش ہم پرندے ہوتے!
ہفت روزہ ’’نوائے جہلم‘‘ سری نگر