گزشتہ ماہ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے مالی سال 2022-23 کا بجٹ پیش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ بھارت اس سال سے اپنا ڈیجیٹل کرنسی کا نظام شروع کر رہا ہے۔
ملک میں کرنسی جاری کرنے کا ذمہ ریزرو بینک آف انڈیا (آربی آئی) کے پاس ہے۔ آربی آئی نے سینٹرل بینک ڈیجیٹل کرنسی (سی بی ڈی سی) جاری کرنے کے لیے ضروری تیاریاں جاری ہیں۔ عام شہریوں کی ڈیجیٹل کرنسی سے واقفیت بس خال خال ہی ہے۔ وہیں اسکے بارے میں تھوڑی بہت جانکاری رکھنے والے بھی کئی طرح کے شکوک اور شبہات کا شکار ہیںاور شش و پنج میں پڑے ہیں۔ – عموماً لوگ ڈیجیٹل کرنسی کو کرپٹو کرنسی سمجھتے ہیں، تاہم حکومت نے واضح کیا ہے کہ بھارت کی ڈیجیٹل کرنسی کرپٹو کرنسی نہیں ہوگی۔عیاں ہو کہ کرپٹو کرنسی اور ڈیجیٹل کرنسی میں فرق ہے۔ ڈیجیٹل کرنسی لیگل ٹینڈرز یعنی قانونی کرنسی ہوگی جبکہ کرپٹو کرنسی کو ابھی قانونی حیثیت نہیں دی گئی ہے۔ بنیادی طور پر کرنسی کے تین کام ہوتے ہیں –۔ یہ لین دین اور مبادلہ کا ایک ذریعہ ہے، اکاؤنٹ کی اکائی ہے، اور دولت کا ذخیرہ بھی ہے۔ ڈیجیٹل کرنسی ان تمام افعال کو انجام دے گی۔ فرق صرف اتنا ہوگا کہ یہ کرنسی کاغذی نہ ہو کر الیکٹرانک شکل میں ہوگی۔
بھارت میں کرپٹو کرنسی کا استعمال مبادلہ کے بجائے دولت کے ذخیر کے طور پر زیادہ ہوتا ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق ملک میں 15 ملین سے زیادہ لوگ 458 کرپٹو اکسچینجر کے ذریعے 17436 کرپٹو کرنسیوں میں کھربوں ڈالر کا سالانہ کاروبار کرتے ہیں۔ یہ سارا کاروبار قیاس آرائیوں اور سٹے بازی پر منحصر ہوتا ہے۔ نتیجتاً کرپٹو کرنسی کے غیر مستحکم اور غیر پائیدار ہونے کا خطرہ بھی لاحق رہتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کرپٹو کرنسی کا کاروبار پونزی اسکیم جیسے خطرناک طریقوں سے کیا جاتا ہے۔
اس کے برخلاف، سی بی ڈی سی کرنسی آربی آئی کے مستحکم اور پائیدار نظام سے بروئے کار لائی جائے گی۔ یہ کرنسی مبادلہ و لین دین کا ذریعہ بنےگی نہ کہ سامان ذخیرہ اندوزی و سٹے بازی۔خاص طور پر، سی بی ڈی سی کرنسی ڈیجیٹل والیٹس یا 'پری پیڈ انسٹرومنٹز (پی پی آئی) سے مختلف ہوگی۔ ڈیجیٹل والیٹ اور پی پی آئی صرف اس وقت کام کرتے ہیں جب آپ کے اکاؤنٹ میں رقم جمع ہو۔ مطلب یہ کہ پی پی آئی کے ذریعے ٹرانزیکشن کرنے پر رقم براہِ راست ایک اکاؤنٹ سے دوسرے اکاؤنٹ میں منتقل ہو جاتی ہے۔وہیں کرنسی کی شکل میں پی پی آئی مثلاً پے فون، گوگل پے امیزون پے وغیره کو لیگل ٹینڈر یا قانونی حیثیت نہیں رکھتی۔ مطلب یہ کہ اگر آپ کسی کو ادائیگی یا لین دین کے لیے پی پی آئی کا استعمال کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ جبکہ اگر کوئی ادائیگی یا مبادلہ ڈیجیٹل کرنسی میں کیا جائے گا، تو آپ کو اسے قبول کرنا پڑے گا۔
مثال کے طور پر، فرض کیجئے آپ نے کسی دوکان سے خریداری کی، آپ سامان کے قیمت کی ادائیگی گوگل پے کرنا چاہتے ہیں، آپ ادائیگی کے اس طریقے کا استعمال تبھی کر سکتے ہیں جب دوکاندار اسے لینے کو راضی ہو۔ وہیں اگر آپ ادائیگی ڈیجیٹل کرنسی سے کرنا چائیں تو دوکاندار ڈیجیٹل کرنسی لینے سے انکار نہیں کر سکتا۔ لیگل ٹینڈر کے یہی معنی ہیں۔
ڈیجیٹل کرنسی اصل میں کاغذی نوٹ کی ہی ایک شکل ہے۔ سو ڈیجیٹل کرنسی وہ سارے کام کرے گی جو عام کرنسی یعنی کاغذی نوٹ کرتے ہیں۔یہ جاننا دلچسپ ہوگا کہ ڈیجیٹل کرنسی نہ تو چوری ہو سکتی ہے اور نہ ہی اسے ضائع کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے اسے بینک میں جمع کرنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا جب تک کہ اس پر کچھ انسنٹیو نہ دیا جائے۔ ظاہر ہے اس سے شرح سود بڑھ سکتی ہے اور بینکوں کے ڈیپازٹ لون کا تناسب کم ہو سکتا ہے۔
ڈیجیٹل کرنسی دنیا کے کئی ممالک میں رائج ہو چکی ہے۔ نائجیریا، چین، بہاماس سمیت نو ممالک ہیں ،جہاں لین دین میں اسکو مکمل طور پر رائج کر دیا گیا ہے۔ برطانیہ جیسی ترقی یافتہ معیشتیں بھی سی بی ڈی سی جاری کرنے کے امکانات پر غور کر رہی ہیں۔
ڈیجیٹل کرنسی عوام الناس میں تبھی مقبول ہوگی جب میکرو اور میکرو — دونوں سطحوں پر مکمل تیاری ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے لوگ جدید ڈیجیٹل ٹیکنالجی سے عملی واقفیت رکھتے ہوں۔ اور وقت ضرورت انکا استعمال با آسانی کر لیتے ہوں۔ دوسری شرط یہ ہے کہ ملک میں وسیع پیمانے پر، تیز رفتار انٹرنیٹ کنیکٹیوٹی کی فعال موجودگی اور کم از کم ہر گھرانے تک موبائل کی دستیابی ہو۔الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت کے مطابق ڈیجیٹل خواندگی سے مراد ہے کہ روز مرہ کی زندگی میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کا بامعنی استعمال کرنے کی صلاحیت۔ کوئی بھی فرد جو کمپیوٹر/ لیپ ٹاپ/ ٹیبلیٹ/ اسمارٹ فون چلا سکتا ہے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق دیگر آلات استعمال کر سکتا ہو، اُسے ڈیجیٹل طور پر خواندہ سمجھا جاتا ہے۔ وزارت کی اس تعریف کی بنیاد پر بھارت میں صرف 38 فیصد گھرانے ہی ڈیجیٹل طور پر خواندہ ہیں۔ شہری علاقوں میں ڈیجیٹل خواندگی 61 فیصد ہے ،وہیں دیہی علاقوں کے لیے یہ تناسب محض 25 فیصد ہے۔قومی شماریات کے دفتر (این ایس او) کے 75 ویں راؤنڈ کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت کے ہر 10 میں سے 1 گھرانے کے پاس کمپیوٹر ہے۔ تاہم، تقریباً ایک چوتھائی گھرانوں میں انٹرنیٹ کی سہولیات موجود ہیں۔شہری علاقوں کے 42 اور دیہی علاقوں کے صرف 15 فیصد گھرانوں میں ہی انٹرنیٹ کی سہولیات دستیاب ہیں۔در حقیقت کرنسی کا تعلق ٹیکنالوجی کی ترقی سے ہے جو آنے والے دور کا لازمی جزو ہے۔ ڈیجیٹل کرنسی ایک نہ ایک دن پیپر کرنسی کی جگہ حاصل کر لے گی۔ لیکن اس کرنسی کی اجراء سے پہلےفرد کی سطح پر مکمل ڈیجیٹل خواندگی اور معیشت کی سطح پر موبائل انٹرنیٹ کی کنیکٹوٹی کے جدید ٹیکنولوجیز کا فعال انتظام و انصرام یقینی بنایا جائے۔ ان بنیادی شرائط کی تکمیل کے بغیر ڈیجیٹل کرنسی دُور کی کوڑی ہوگی۔
(اسسٹنٹ پروفیسر (اقتصادیات),موبائل9470425851