’’ڈسکورسز آف حاجنی کے آئینے میں ‘‘

 یہ   سب کاوشیں بغیر نتیجہ اپنے اپنے  اختتام کو پہنچی۔ اگر واقعی گورنر ملک کی محتاط ستیہ وانی مودی 0.2کی کسی دُور اندیش پالیسی کا حصہ ہے، تو حکومت سے یہ سوال پوچھا جانا ضروری ہے کہ مذاکراتی انسچوشن کو منہدم کرکے کون سے گراونڈمیں مذاکرات ہونے ہیں، اور اگر کوئی ایسا تھیٹر سجانے کی تیاری ہے جس میں بغیر کرداروں کے کوئی ڈائریکٹر سٹیج پر آکے محض ڈرامہ پڑھ کر سنائے تو وہ الگ بات ہے!  مقالے کا بین السطور مطالعہ یہ کہتا ہے کہ جب مغرب علمی اعتبار سے تارکیوں اور ظلمتوں میں گرا ہوا تھا تو مشرق میں مسلمان سائنسدان ،سائنسی اور تجرباتی علوم و فنون میں ستاروں پر کمندیں ڈال رہے تھے ۔یہاں مضمون نگار علم کیمیا میں خالد بن یزید ،جابر بن حیان ، ابولالقاسم علی الاندلوسی، ابو منظر عراقی ، ابن در کا حوالہ دے کر کہتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے خون جگر سے علم کیمیا کے شجر ہائے سایہ دار کو مشرق میں سینچا تھا : 
''Scientists such as Thabit bin Qurra , Ikhwan us safa , Banu Musa , Ibn i Sina , ….besides being specialists in other sciences , wrote on chemistry ; but there were numerious others whose main researches converged on chemical knowledge,Among these, we can include Khalid bin Yazeed (d-704) , Jabir bin Hayaan (B _ 721-22), Abul Qasim Ali – Al – Andulusi ( 13th century) , Abul Manzar , Azzud din -al – Jiladaki (13th cent) , Abul Qasim al Iraqi ( 13th Cen) , Ibn Dur and Tughral whose are the pioneers in the field ….'' REf : Discourses of Prof. Mohi ud Din Hajini ,2013,pg 44-45
بنیادی طور پر اس مقالے میں مسلمانوں کی شاندار سائنسی اور علمی میراث کا ایک عالمانہ تعارف ملتا ہے یہ مضمون انتہائی سلیسانہ زبان میں لکھا گیا ہے جس میں مشرقی سائنسدانوں کے حوالے جگہ جگہ دیکھے جاسکتے ہیں ۔مثال کے طور پر ابوالبقر الراضی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ان کی دانشوری مسند کو گلیلیو اور بویل کی سطح پر رکھا جاسکتا ہے، ہال میڈ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ راضی نے کیمیا پر کم سے کم بیس کتا بیں لکھی ہیں جن میں خاص طور پر ان کی تصنیف ''The secrets of secrets ''(kita bul -sirr- wa- al – asrar pg 47)  بہت مشہور ہے اسی طرح سے ابولقاسم عراقی کی مشہور کتاب Al Muktasab )پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ کتا ب قرون وسطی کی شاندار علمی تحقیق پر مبنی ایک لازوال سرمایہ ہے .جلاد کی کی نہایت الطلب اور جابربن حیان کی تصنیف ’’کتا ب الموازنہ‘‘ پر موضوف نے سیر حاصل گفتگو کی ہے اس مقالے کی خصوصیت یہ ہے کہ سائنسی تاریخ کے دبیز پردوں کو چاک کرتے ہوئے قرون وسطی کے ان سیکنڑوں مسلم سائنسدانوں کے کارنامے چھپے ہوئے ہیں جنہوں نے ایک علمی تاریخ مرتب کی ہے ۔یہ مضمون سائنسی علوم سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے کافی بصیرت افروز اور معلوماتی ثابت ہوسکتا ہے جس میں تجرباتی ، بیانیہ اور تجزیاتی عمل کے ساتھ ساتھ جگہ جگہ تقابلی نوٹ نظر آتے ہیں ۔  
(Religion in World Thought) کے عنوان سے کتاب میں تیسرا مضمون درج ہے جو آفاقی نوعیت کا ہے جس کی شروعات درج  ذیل اقتباس سے ہوتی ہے۔   ''What is man in Nature ? ''Asks blaise Pascal . "A nothing in comparision with the Infinte , an all in comparision with nothing , a – mean between nothing and everything …''pag no 61
مختلف مذاہب ، نظریات ، رجحانات اور افکار کے آئینے میں انسانی وجود ‘  اس کی معنویت اور اہمیت کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ مشہور و معروف عہدعتیق کے فلسفہ دانوں سے لے کر جدید دور کے دانشوروں کا حوالہ دے کر قلمکار نظریہ مذہب  پر روشنی ڈالتے ہوے نظر آتے ہیں۔ لیکن کہیں کہیں ایسا بھی لگتا ہے کہ مضمون نگار موضوع سے ہٹتے بھی ہیں افلاطون ،ارسطو، نطشے ، اڈورڑ کلوڑ ، پاسکل ، کانٹ ، ہیگل ، آرنلڈ ، ڈرکیم ، سی جے جنگ ، اینسٹائن ، نیوٹن ، کپلر ، اڈن گوٹن ، گلیلیو ، مولانا رومی ، چالس سٹنمز ،  (ص۶۲۔۶۳)جیسے مفکرین کے نظریات کو لے کر نرالی اور انوکھی عالمانہ و محققانہ شان اور طرز نگارش کے انداز میں قاریئن کو فلسفہ ، مذہب ، علم نفسیات ، علم ریاضی ، علم کیمیا اور علم حیاتیات کی بازگشت کراتے ہیں اور جگہ جگہ پر ان مختلف شعبہ ہائے علوم سے عالمانہ انداز میں خوشہ چینی کرکے تصور مذہب پر بات کرتے ہیں ۔ متن کی بنیادی حیثیت میں یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ بدمت میں مذہب نروان حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ، Hinduism میں سنکھیا اور یوگا کا تال میل مذہب کہلاتا ہے اور اسلام میں تصور مذ ہب اپنی تمام خواہشات کو ایک خدا کے سپرد کرنے کا نام ہے اس حوالے سے مقالے کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو : 
 ''It is intresting to note that in the west modern philosophers have offten failed in locating the religious consciousness in the human psyche. Kant put it in the sphere of will , schlieimacher william james in feeling, Hegal in Reason and Comte in total phyche itself . the fact is that the western thinkers have often discribed religion rather than experienced it for them selves in its totality , and that is why, besides disagreeing in its totality in its physical location ,its fuction is not yet ascertained.Ornald difines'' it as morality touched by emotions'', Principal Caird as ''a thing of heart '', Prof Durkhiem , ''as something like the integrating force of social groups '' , C.J.Gung as ''the systamatic cure for all the ills of the soul '' …In the east Religion is either a means ''to attain a Nirvana '' (buddhist) or the Dynamic interaction of Sankhya and Yoga (geeta) , Nearness …to Yazdan God of light at the cost of Ahriman God Of darkness or ….Peace by surrender of will to the creater (islam)..pg no (62-63)
 مذہب کو زبان کی مماثلت میں سمجھاتے ہوئے اس کے متن سے یہ بات اخذ کی جاتی ہے کہ زبان بطور faculty بنی نواع انسان کے لیے ایک ہی ہے اور اس کے بعد اس پر مختلف اقسام کے لسانیاتی ، تہذیبی ، احساسی ، ثقافتی اور اصطلاحی قوائد ، صرف و نوح کا اطلاق کیا جاتا ہے ۔ مطالعے کی آسانی کے لیے مضمون نگار مولانا رومی کی ایک منظوم تحریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ تمام مذاہب بنیادی طور پر ایک ہی حق کی تلاش اور جستجو میں ہے اسی لیے مذہبی شعور ہر انسان کے لیے یکسان ہوتا ہے ۔ان بنیادوں پر یہ بات بھی اپنی جگہ طے ہے کہ اس کے قوائد و زوائد کا اطلاقی سطح پر اختیار ان لوگوں کے ہاتھوں میں چلا گیا جنہوں نے اسے ہر سطح پر استحصال کا ذریعہ بنا ڈالا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سائنس کو بجا ے ایک مذہبی سطون مانا جاتا کو اس انداز میں پیش کیا کہ دونوں میں ایک خلا ڈالا گیا جس سے شک و شباہت پیدا ہوئے جن کا فائدہ شیطانی عناصر نے ایسے اُٹھایا کہ دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ کبھی ملنے ہی نہیں دیا ۔اس کا فائدہ اعلی طبقے نے حاصل کیا تاکہ اس کو اپنے نجی فائدے کے لیے استعمال کر سکے جیسے بہت سارے بادشاہوں اور راجووں نے اس کو Device of hoodwinkبنا کر رعایا کو اپنی طرف مائل کیا ان ہی مختلف تشکیلات اور شیطانی و شیطنیت کے تناظر میں لکھتے ہیں : 
''Mistrust begot mistrust, and the Satanic forces Crept in , who instead of letting the religions coordinate , sowed the seeds of discord , Leave alone letting them bring science within the hold of religion or viceversa''  (ref: Discourses of  Prof.MD hajini,Halqa adab Hajin , 2013, pg 65'')
آج کی ترقی یافتہ دنیا مشرق و مغرب دونوں خطوں کے لوگ اگر چہ مادی سطح پر بہت ترقی یافتہ نظر آتے ہیں لیکن روحانی سطح پر تمام انسان اندونی خوشی ، سکون ،روحانی قراراور تسلی بخش افکار سے خالی نظر آرہے ہیں غرض روحانیت کا وہ فقدان نظر آرہا ہے جس نے تمام تر کنڑول مادی ایشیا کے حوالے کیا ہے ان مسائل کے تناظر میں مقالہ نگار نے کھل کر یہ باتیں لکھی ہیں کہ جب تک مادی سائنس اپنی تحقیق و تفتیش میں روح کا کردار شامل نہیں کرتی ،دنیا مادی اعتبار سے بہت آگے جانے کے باوجود بھی بہت پیچھے رہے گی ۔ان تاثرات کو قلم بند کرنے کے دوران موصوف بھی اسی صورت حال کو اپنے ادیبانا شعور کے ساتھ دیکھتے ہیں کہ ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ جب لوگ حاصل کی ہوئی ترقی کو چھوڑ کر روحانی بنیادوں پر زندگی گزارنے کو ترجیح دیں گے اپنے اس نظریے کی حمایت میں وہ Charles Steinmetzکا حوالہ دیتے ہوئے  لکھتے ہیں۔
"When asked what line research will he see the greatest development in the next fifty years , had to admit , ''i think the greatest doscoveries will be made along sprritual lines …some days peaple will learn that material things alone do not bring happiness …what that day comes, the world will se more advancement in one generation then it has seen in the last four ''.. (ref page no 80)
خلاصہ کلام بیان کرسکتے ہیں کہ مقالہ نگار کی علمی بصیرت انتہایی کمال کی ہے انہوں نے مغربی اور مشرقی علوم کا مطالعہ بغور کیا ہے بلکہ یوں کہے کہ تقابلی سطح پر تنقیدی اور تجزیاتی پیراے میں انالایز کرکے قاریین کی انکھوں سے دبیز پردے ہٹانے کا کام کیا ہے بحیثیت قاری میری راے یہ ہے کہ ہمیں اجتمایی طور پر موصوف کو اسی انداز میں پڈھنا چاہے جس انداز میں ان کی علمی بصیرت  سے انصاف کیا جاسکے اور ساتھ ہی ان کے ورثا نیز ان علمی و ادبی انجمنوں جن کی بنیاد حاجنی  مرحوم نے ڈالی ہے کے منتظمین کو چاہے کہ ان کے اس فن پارے (ڈسکورس)کوعالمی سطح کے اشاعتی پریس میں شایع کراکر انہیں بین الاقوامی علمی دنیا سے متعارف کرایں تاکہ حق ادا کیا جاسکے۔
(ختم شد )
ٍٍٍٍٍٍٍٍ