پروفیسر حاجنیؔ|1917-1993))نہ صرف کشمیری زبان کے مقتدر ادیب مانے جاتے ہیں بلکہ وادی کشمیر کے بلند قد عالم اور دانشور تسلیم کیے جاتے ہیں جنہوں نے اپنی علمی بصیرت کا ثبوت مختلف تخلیقات کے حوالے سے دیا ہے ۔موصوف بیک وقت تین زبانوں میں لکھتے رہے ، کشمیری زبان کو وہ ایمان کی حد تک پڑھتے اور لکھتے رہے اردو زبان میں وہ زیادہ دیر تک نہ لکھ سکے ،صرف چند ایک انشائے اور اخباری کالم اردو زبان میں لکھ چھوڑے ہیں ۔ ان کا اردو زبان کو خیر باد کہنا کشمیری زبان کے خدمت کے تئیں کا نتیجہ تھا جو کہ ان کا خود کا بیان ہے ۔حاجنی صاحب انگیزی زبان پر بھی خاصی دسترس رکھتے تھے انہوں نے مختلف علمی ،سائنسی ،تجزیاتی ،تبصراتی مضامین ساٹھ اور ستر کے عشرے میں لکھے ہیں جو وقتاً فوقتاً رسالہ ’’ڈسکورس ‘‘ اور ’’ پرتاب ‘‘ ایس ۔پی ۔کالج سیرنگر میں شائع ہوچکے ہیں ۔
ان کے مختلف شائع شدہ مضامین کو ادبی انجمن ’’حلقہ ادب حاجن ‘‘ نے کتابی صورت میں (Discourses of Prof.Mohi ud din Hajini) کے عنوان سے شائع کرایا ہے اس کام کو بحسن خوبی بطور (مرتب ڈاکٹر محمد امین فیاضی) نے انجام دیا ۔زیر تبصرہ کتاب انگریزی زبان میں ہیں جو کل ملا کر ۸ مختلف مقالات پر مبنی ہے ۔یہ کتاب متن اور مواد کے اعتبار سے تین مختلف حصوں میں تقسیم کی گئی ہیں حصہ اول میں مقالات کی نوعیت فلسفیانہ ،مذہبی اور سائنسی مسائل سے متعلق ہیں ان مقالات میں موصوف کی علمی وسعتوں اور دانشورانہ سوچ و اپروچ کا مظہر جابجا ملتا ہے یہ مقالات پڑھ کر قاری اس بات سے بھی واقف ہوجاتا ہے کہ مقالہ نگار مشرقی اور مغربی علوم ، فکر و دانش اور علمی مزاج پر گہری نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ سائنسی استفسارات اور توجہات کا خزانہ لازوال رکھتے تھے جس کا ابھی تک کوئی ثانی موجود نہیں ہے اس حوالے سے کتاب کے اڈیٹر لکھتے ہیں :
''In Discourses of Prof MD Hajini most of the papers do actually the ''Retrieval of History "in the words of Wole Soyinka , a noted African Novelist .Most of the papers are actually an attempt to document and critically analyze ,the evolution and devolution of civilizations with reference to knowledge production and other science based literary contributions . The present collection of papers is sufficient to prove Prof Hajini …a historian par exellence ,a critique of cultures ,litterary analyst ,man of science , philosophy and of holy texts with ability to interrelate , contextualize and cross connect the literary streams …''
(Discources of Prof. MD Hajini .year 2013 ,pg 14 )
حصہ الف کے پہلے مقالے کا عنوان ’’ The Quran and the Fundamentals of science.A concordance '' ہے ۔ یہ مقالہ انتہائی پر مغز اور تحقیقی بنیادوں پر لکھا گیا ہے جس میں معاصر سائنسدانوں اور مذہبی مسائل پر گفتگو کرنے والے مفکرین کے نظریات کے آئینے میں مذہبی اصولوں کی بنیاد پر قرآن مجید کے متعدد آیات کے آئینے میں قرآنی علوم اور سائنس کی بنیادی توجہات کے درمیان ہم آہنگی اور مطابقت کے آپسی رشتے کی بنیاد پر بحث کرتے ہیں جس کے تناظر میں ان کا ماننا ہے کہ قرآن حکیم کو Words of Wisdom کہا جاتا ہے یعنی اس میں حکمت ،دانائی ،وجہ ، اجتہاد ، استفسار ، تحقیق ، نالج ، منطق اور استدلال پر زور دیا گیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ سائنس کے تمام تر تجربات انہی بنیادی اصولوں پر مبنی ہے سیکنڑوں آیات کا ذکر کرتے ہوئے موصوف اشارتاً یا وضاحتاً جدید سائنسی تحقیق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس بات کو دہراتے ہیں کہ قرآنی علوم سائنس کی تحقیقات سے منکشف کیے گیے کائنات کے مختلف سربستہ حقائق کا احاطہ کرتے ہیں ۔یہ مقالہ علمی لحاظ سے کافی وسیع الظرف اور وقیع ہے تحقیق کے اعتبار سے بڑی بلوغیت کا حامل ہے مقالہ نگار بہت سارے مغربی دانشوروں ،سائنسدانوں اور فلسفہ دانوں کا حوالہ دیتے ہوئے ان کے تصور اللہ یا تصور مذہب کو بیان کرتے ہیں اور پھر اسی طرح سے جگہ جگہ قرآن اور سائنس کے درمیان مطابقت کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ان کا رسائی کا عمل سائنسی مزاج کا حامل ہیں منطق اور استدلال کی باتیں اس طرح کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ Physical science ,Mathamatics , Chemical science , physical Chemistry , Philosophical Concepts اور Enthropology کے مختلف حوالے اس میں ملتے ہیں ۔ان کی علمی گفتگو اس دلیل کی وضاحت کرتی ہے کہ تخلیق ِکائنات بقولِ قرآن حکیم ’’کن ‘‘ سے شروع ہو کر ’’فیکن ‘‘ پر منتج ہوتی ہے اور اس طرح سے خالق کے موجود ہونے کی قرآنی دلائل سامنے لاکر وہ تدریج ’’Evolution‘‘ کو ’’فیکن ‘‘ میں منکشف پاتے ہیں ۔ اس حوالے سے ملاحظہ ہو زیر تبصرہ مقالے کا یہ اقتباس :
'' Before Proceeding on this Delicate point , we should note (1) that the Holy Quran Designates all natural processes as ''The ways of Allah '' or '' "the acts of the vital principle'',A Khallique ,and that (ii) The Quran is not a text book of any science ; hence it does not eloberate causes for every natural phenomenon.On the other hand , it regards the entire Creativity as a single process , a manifestation of '' Let there be'' (KUN) , and then the process continues ….Fayakoon . Hence the Quran , in conformity with the transformist theory in Science , ascribes to the crown of creation, ie man , all the major milestones in-organic evolution even before his organic compounds were at the earliest stage of molecular structure , ''Hast not there passed upon man a period of time , part of eternity '' it self when he was not even a mentionable entity ''(76/1-2),and after innumerable transformation ''mans creation begin from the caly '' (32/7) thus the Quran incidentally repudiates the pan-spermy Theory in Zeology . Ref: Discourses of Prof.MD Hajini ,year 2013 ,pg 35
قرانی علوم ہی کے اینے میں حاجنی دھماکا عظیمbig bang theory پر بحث کرتے ہوے کہتے ہیں کہ بنیادی طور پر قران کا تصور کاینات بھی یہی ھے کہ یہ ایک بہ بہت بڑا آتشیں گولہ تھا جو ایک عظیم دھماکے کے بعد مختلف سیاروں اور ستاروں میں تقسیم ہوا ایک جگہ لکھتے ہیں:
''…ofcource, in a dust cloud form.''do dont those who disbelieve'',says the Quran,''see that the havens and the earth were once closed up as one mass and then we fussured them or rent them …''pg no: 31
اسی طرح سے قراآن اور جدید علم حیوانات کے نظریے کا ذکر کرتے ہوے مضمون نگار کہتے ہیں کہ تمام زندہ اشیا کی بنیاد پانی پر ہے اسی زمرے کی بہت سی قرانی آیات،ساینسی تحقیقات کے حوالوں سے یہ غلط فہمیاں دور کرنے کی کامیاب کوششیں کی گی ہیں کہ قرآن اور ساینس کسی بھی صورت میںایک دوسرے سے متصادم نہیںہیں۔اس مقالے کی دلکشی نیز منطقی صفت بیان کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مقالہ نگار موضوع پر کافی گرفت ، تسلسل اور بر محل و مناسب اقتباسات کا حوالہ دے کر پر اعتمادی سے کلام کرتے ہیں اس تحریر کا اسلوب نہایت ہی محققانہ اور فلسفیانہ ہے علاوہ بریں زبان کا استعمال کہیں تخلیقی سطح کا ہے اور کہیں انشائیہ نقطہ آفرینی دیکھنے کو ملتی ہیں جس سے اس نوعیت کا باریک مقالہ جو ہر سطح پر نہایت ہی منتشر خیالی کا شکار بھی ہوسکتا تھا لیکن ان کے زور کلک نے ایسا نہیں ہونے دیا ۔بلکہ پر تنوع مزاجی کا ایک ایسا بھر تاو سامنے لایا جس سے کہ سائنس اور قرآن کے اشتراکی نقطہ نظر یعنی سائنس کے ان مشاہدات کا حوالہ جن کا ممبع سر تا سر قرآنی آیات کا سرچشمہ ہے کو اس طرح پیش کیا کہ ایک علم کا دریا رواں نظر آتا ہے ۔ مقالے میں انہوں نے یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ تحقیق و تفتیش یا علم و تجربہ اور مشاہدہ ایک غیر منقسم اکائی ہے جس کو دینی اور دنیاوی حصوں میں بانٹا نہیں جاسکتا بلکہ دونوں کے درمیان ایک ایسا ربط اور تطابق ہے کہ اگر دونوں کو ملا کر پڑھا جائے تو انسان کے تصور اللہ ، تصو ر کائنات اور تصور تخلیق کی ہزار ہا سربستہ خوبصوتیاں صاف طور پر انسانی آنکھ اور دل و دماغ پر علم الیقین سے عین الیقین بن کر کھل جائیں گیں ۔
(Medival legacy to Modern inorganic Chemistry) کے عنوان سے کتاب کا دوسرا مضمون ہے جس میں مسلمانوں کی عظمت رفتہ اور عظیم الشان علمی اور تحقیقی تاریخ کا مفصل ذکر ملتا ہے خاص طور سے مسلم امہ کی سائنسی میدان میں علمی اور تحقیقی و مشاہداتی میراث ۔اس موضوع پر انہوں نے اپنے ایام جموں میں کافی تحقیقی مواد جمع کیا تھا ۔تقریباًپانچ سال کی محنت شاقہ سن ۱۹۴۷ء میں جموں میں مسلم کش فسادات کی نظر ہوگئی اور بعد میں اپنے یاداشت کی ورق گردانی کرتے ہوئے انہوں نے اپنی تمام تحقیقی اور تجزیاتی کاوشیں اس مقالے کی صورت میں ایس۔ پی ۔ کالج سرینگر کے ایک سیمنار میں پیش کیں ۔ مقالے کا بین السطور مطالعہ یہ کہتا ہے کہ جب مغرب علمی اعتبار سے تارکیوں اور ظلمتوں میں گرا ہوا تھا تو مشرق میں مسلمان سائنسدان ،سائنسی اور تجرباتی علوم و فنون میں ستاروں پر کمندیں ڈال رہے تھے ۔
email: [email protected]
(بقیہ بدھ کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)