ڈاکٹر کوثر رسولؔ کی نظموں کا ایک مطالعہ

سہیل سالمؔ
نام کتاب: ہوں

شاعرہ:ڈاکٹر کوثر رسولؔ

صفحات:۱۶۰،قیمت: 250 روپے

سن اشاعت:2022

ناشر:ایچ ۔ایس آفسیٹ دہلی

   دبستان کشمیر میں بطور شاعرات جن چند خو اتین نے اپنی صلاحیتوں سے یہاں کے شعری منظر نامے پر اپنے گہرے مطالعے،مشق اورمشاہدے سے ایک اعلی مقام حاصل کیا  ان میں ایک اہم نام کوثر رسول ؔکا ہے۔اردو تنقید اور تانیثیت پر انھیں کافی دسترس حاصل ہے نیز آپ کی  کتاب’’ممکنات‘‘2019 میں منظر عام پر آکر دادو تحسین  حاصل کر چکی ہیں۔’’ ہوں ‘‘کوثر رسول ؔکا پہلا شعری مجموعہ ہے جو کہ 81نظموںپر مشتمل ہے۔کوثر رسول ؔنے اپنی شاعری کا آغاز 1994 میں کیا لیکن ان کی پہلی نظم ’’ انوکھا بچپن‘‘ 2000میں کشمیر یونیورسٹی سے شائع ہونے والے جریدے ’’گلالہ ‘‘ میں شائع ہوئی ہے۔جہاں تک ان کی نظموں کا تعلق ہے، کوثرؔ رسول کے یہاں موضوعات کی نہ تو کوئی قید ہے اور نہ ہی کمی ۔ان کی نظموں کا انداز منفرد ہے اور وہایک ہی لفظ کو سورنگوں سے رنگنے کے ہنر سے بھی بخوابی واقف ہیں۔’’ عورت‘‘ ان کی نظموں میں طواف کرتی ہوئی نظر آتی ہیںلہٰذا ہر نظم آج کی ماں،بہن ،بیٹی ،بہو اور ساس  کے جذبات کی ترجمانی معلوم ہوتی ہے۔کوثر رسولؔ نے اپنی نظموں میں زندگی کو مختلف ادور میں تقسیم کرنے کی سعی کی ہے۔زندگی کا پہلا دور یعنی بچپن کی یادیں ، دوسرا اہم دور جوانی کے خواب اور پھرزندگی کا آخری پڑائو یعنی بڑھاپا،ان تمام  ادور میں حاصل ہوئی دلی کیفیات اور داخلی احساسات کو نظم کرنے کی اُنہوں نے بھرپور کوشش کی ہے۔ اللہ تعالی نے اس کائنات کے تسلسل اور اس کی حفاظت کے لئے مرد و عورت کے نام  سے دو جنسوں کے ذریعہ اس کائنات کو زینت بخشی۔ ہر صنف میں دوسری صنف کی طلب اور جذبات ایک دوسرے میں پنہاں رکھے تاکہ عورت مرد کی رفیق حیات بن کر زندگی  کے نشیب وفراز میں ہر ہر قدم پر اس کا ساتھ دے سکے اور اس کی ہم نواہ ہم سفر بن کر زندگی کی گاڑی کھینچ سکے لیکن اس کے بعد بھی ایک مر د زندگی کے اہم مراحلے پر کائنات کی اس عظیم شے کو نظر اندز کر کے اسے یہ باور کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ آپ کا ’’وجود ‘‘یا آپ کی ’’ذات‘‘کوئی اہمیت نہیں رکھتی ہے۔کوثر رسول ؔمجموعہ کی پہلی نظم ’’ہوں‘‘ میں  اپنے وجود  کا کس طرح تعارف کرواتی ہے۔نظم کا بند ملاحظہ فرمائیں       ؎

’’ میں ہوں ‘‘ ایک سوال ہے 

استفسار ہے،اُس ذات سے

جس نے شعورِ ذات کا سبق دیا

جس نے میں سے تُو

اور تُو سے میں کے درمیان پردہ حائل رکھ کر بھی

نہیں رکھا کچھ درمیان

اب میں کس کو بتائوں

اس لیے خاموشی سے 

  چند باجرے اور چاول کے دانے 

چن کر پلو میں باندھ رہی ہوں

یہ عمل اب بھی جاری ہے

کوثررسولؔ ؔ نے بہت ہی اہم سلگتے ہوئے اور سنجیدہ و موضوعات اپنی نظموں میں پروئے ہیں جو ان کے ارد گر رونما ہوتے ہیں۔گھر آنگن کے دکھ درد بالخصوص عورتوں کے مصائب و مشکلات کی تصویر کشی کی ہے۔آپ کی نظموں کے موضوعات وہی ہیں جو آئے دن ان کی آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتے ہیں۔ زندگی کے نشیب و فراز اور روز رو شب کی الجھنوں کی ترجمانی خوبصورتی کے ساتھ کی ہے مگر نسوانی الجھنیں ،ان کا ادرک و فہم ،ان کے خواب ، ان کی خواہشات اور ان کی مسکراہٹوں کے تمام خد وخال پورے آب و تاب کے ساتھ جلو ہ گر ہیں۔وہ اپنے آس پاس کے تمام حالات سے اچھی طرح واقف ہیں۔اسی لئے ان کی نظموں میں عورت کے کئی پہلو نمودار ہوتے ہیں۔کہیں ماں کی شکل میں ممتا کی ندی،کہیں بیوی کی شکل میں وفاشعاری ،کہیں بیٹی کی شکل میں آنکھوں کی بینائی اور کہیں زمانے کی زہر آلودہ  ہوا سے مرجھائی ہوئی کلی۔کوثر رسول ایک ذی حس خاتوں ہیں،جس کا اندازہ آپ کو اس نظم’’ایسا کیوں ہے‘‘ سے ہوگا؎

میرے اندر باہر،ہر جگہ خاموشی ہے

یوں لگتا ہے کہ مجھے خاموشیوں نے 

چاروں طرف سے گھیر لیا ہے

کم گو تو میں پہلے بھی تھی 

مگر اب لگتا ہے کہ گونگی ہوچکی ہوں 

کچھ کہنے کے لیے منہ کھولتی بھی ہوں

مگر

کوئی لفظ آواز میں نہیں ڈھل پاتا 

میں تو آپ سے پوچھنے والی تھی 

کہ ایسا کیوںہے؟ 

کسی بھی شاعر یا شاعرہ کے لئے اس کا ماضی ایک قیمتی سرمایہ ثابت ہوتا ہے اور اسی ماضی سے وہ اپنے زندگی کے دامن کو سنوراتے رہتے ہیں۔ماضی میں رونما ہوئے تاریخی واقعات اور تجربات  سے عبرت حاصل کر کے وہ مستقبل کا سفرطے کر سکتا ہے ۔کوثر رسولؔ کی کئی نظموںمیں آپ تاریخی واقعات کو دیکھ سکتے ہیں۔لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ ماضی سے رشتہ  استوررکھنا ، گردوپیش کے حالات اور اپنے عہد کی  سماجی ،اقتصادی ،سیاسی  اورتہذیبی تبدیلیوں سے کنارہ کشی اختیار کرلینا ایک حساس فنکار کے لیے ممکن نہیں۔لہذا آپ محسوس کریں گے کوثر رسولؔ کی نظموں میں اپنے عہد کی تبدیلی بھی سانس لیتی ہے۔جدید شعراء  اور شاعرات نے عورتوں کی آزادی کو اپنے شعر وسخن کے دفتر میںدرج کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ جن میں کوثر رسولؔبھی پیش پیش ہے۔نظم ’’مِتھ ‘‘ کا یہ بندملاحظہ فرمائیں ؎

کیا واقعی میں آزاد ہوں؟

مجھے کیوں ان ایوانوں سے دبی دبی ہنسی کی

آوازیں آتی سنائی دے رہی ہیں؟

مور کے پنکھ سچے ہیں یا

اس کے پائوں کی بدصورتی 

یہ کیسا معمہ ہے!

اُف!

میرے پائوں میں یہ کیسی ان دیکھی بیڑیاں ہیں؟

ان کی نظمیں پڑھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاعرہ زندگی اور انسانی قدروں کے بدلتی ہوئی حالات و معاملات کو بڑی آسانی سے اور عام فہم انداز میں نظم کے قالب میں ڈھال دیتی ہیں۔ ان کی نظمیں رومانیت اور حسن پرستی کی نمائندگی نہیں کرتی ہے بلکہ ان سے تلخ حقائق کا انکشاف ہوتا ہے۔زیر تبصرہ کتاب میں اور بھی کئی نظمیں ہیں جو مختلف موضوعات پر مشتمل ہیں اور جو عورت کی سیاسی،نفسیاتی ،جنسی ،اخلاقی اور خوداری کے موضوعات کے ساتھ ساتھ اسکے تقدس کی بے حرمتی کی عکاسی کرتی ہیں۔ ایسی نظموں میںپائی کا پیڑ،تعلق ، سر سے بیتر،تنہائی،خواب و خیال،لوڈ تھنکنگ،ماڈرن ومن،اَنا کی ہار ،نیا سفر،نروان،آپ کی سوچ،ڈینگو،فلیش بیک،کیوپڑ،ایک معصوم خواہش،بے عنوان متن،میری آنکھیں، پوور مین ،ادراک ،نزع کی حالت اور آخری سوغات  وغیرہ ہیں۔نظموں کی زبان عام فہم ،سلیس اور رواں ہے۔  ’’ہوں‘‘ کے مطالعے ومشاہدے کی بنیادی پر یہ کہا جاسکتاہے کہ کوثر رسولؔ دبستان کشمیرکی نمائندہ اور  کامیاب شاعرہ ہیں اور ان کا تخلیقی تجربہ قابل قدر ہے۔ انھوں نے فطری شاعری کو ترجیح دی ہے ۔کتاب کے ابتدمیں مشہور صحافی بشیر منظر کا مضمون بہ عنوان ’’ ہوں کا سفر ‘‘  موجو د ہے نیز کتاب کی طباعت کا فی اچھی ہے۔قیمت بھی مناسب ہے۔اُمید قوی ہے کہ ادبی حلقوںمیں اس کی خوب پذیرائی ہوگی۔

 

���

رعناواری سرینگر۔۔8899037492