ڈاکٹر غلام قادر لون
زیر تبصرہ کتاب ’’ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی۔ حیات وافکار‘‘بیس مقالات/ مضامین پر مشتمل ہے جن میں دس مقالات وہ ہیں جو دسمبر 2022 کی آن لائن انٹرنیشنل کانفرنس میں پیش کئے گئے تھے۔ کانفرنس کا انعقاد ایس۔ آئی۔ او آف انڈیا کی طرف سے کیا گیا تھا۔ ان مقالات کے علاوہ کتاب میں دس مضامین شامل ہیں جن میں علماء اور دانشوروں نے ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب مرحوم کی زندگی اور ان کی علمی خدمات پر روشنی ڈالی ہے۔
کتاب میں ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی صاحب مرحوم کے خاندانی پس منظر، ماحول ان کی ابتدائی زندگی اور حصولِ علم کے لئے ان کی تگ ودو کے بارے میں جو معلومات سامنے آئی ہیں،ان سے بہت کم لوگ باخبر ہیں۔ علمی دنیا کے نامور فضلاء نے کسب علم کے لئے ان کے وفور شوق کی جو تفصیل دی ہے؛ اس میں ان لوگوں کے لئے بہت بڑا سبق ہے جو علوم کو قدیم وجدید کے خانوں میں بانٹنے کی وکالت کرتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی صاحب معاشیات کے عالم تھے۔ انہوں نے اسلام کے معاشی اور مالیاتی نظام کو تحقیق کا موضوع بنایا۔ استحصال سے پاک غیر سودی معاشی نظام کی وکالت کی اور بلا سودی بنک کاری کے علمبرداروں کی صف میں اپنا مقام بنالیا۔ اسلام کے انہیں مخلص ترجمانوں کی مساعی جمیلہ کا ثمرہ ہے کہ آج مشرق و مغرب میں ‘اسلامک بنکنگ’ اور ‘بینکنگ آن شریعہ’ جیسے موضوعات پر بحث ہورہی ہے۔ غیر سودی بنک کاری کے تجربے ہورہے ہیں اور امریکہ اور یورپ کے روشن دماغ اسلام کے معاشی نظام کی داد دے رہے ہیں۔ امریکہ نے 1999ء ہی میں ’’لا رِبا‘‘ کے نام سے اسلامک بنکنگ کا آغاز کردیا تھا۔ 2009 ء کے مالی بحران کے نتیجے میں جب لوگ سڑکوں پر احتجاج کررہے تھے تو ہاتھوں میں “وِی وانٹ اسلامک بنکنگ” کے تختے اٹھائے ہوئے تھے۔ 2015 سے یورپ میں بھی اسلامک بنکنگ کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ برطانیہ ، فرانس ، جرمنی اور دوسرے ملکوں میں اسلامک بنک کھل رہے ہیں۔ آسٹریلیا میں بھی اسلامک بنکنگ کو لائسنس مل چکا ہے۔ یکم ستمبر 2023ء سے روس بھی اسلامک بنکنگ کا آغاز کررہا ہے اور آج اسلامک بنکنگ کی اس مقبولیت کو دیکھ کر ہی ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی صاحب مرحوم کے افکار کی قدرو قیمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی صاحب مرحوم نے معاشیات کے علاوہ دوسرے موضوعات پر بھی کام کیا ہے۔ انہوں نے دینی درسگاہوں میں اصلاحِ نصاب پر جو تجاویز پیش کی تھیں اور جن کا مقصد مدارس کے نظام میں کچھ تبدیلی لانا تھی، اس پر بھی کتاب کے ایک مضمون میں بحث کی گئی ہے۔ مدارس کے نصاب و نظام میں اصلاح کی آوازیں پہلے بھی اٹھتی تھیں مگر جب تک مدارس کے ذمہ داران اپنے اداروں میں تبدیلی لانے کے لئے آمادہ نہ ہوں اصلاح کی آوازیں صدابہ صحرا ثابت ہوں گی۔
زیر تبصرہ کتاب میں ادب اور فن کے متعلق ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب مرحوم کے خیالات پر بحث کی گئی ہے۔ ڈاکٹرصاحب مرحوم فن برائے زندگی کے قائل تھے جس کا اظہار انہوں نے اپنی کتاب جو ان کے مضامین کا مجموعہ ہے، میں کیا ہے۔ ان کا بیان ہے کہ اسلام فرد کی شخصیت اور سماج کی تعمیر سے متعلق ہر بنیادی مسئلہ میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔ فنون لطیفہ کے سلسلے میں بھی ہمیں اسلام کی اصولی رہنمائی ملتی ہے۔ مضمون میں اسلامی ادب، اسلام اور فنون لطیفہ ، موسیقی ، مصوری، سنگتراشی وغیرہ کی حیثیت کا جائزہ لیا گیا ہے۔
کتاب میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب مرحوم کی ان خدمات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب قرآنی علوم کے بارے میں شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی تجدیدی خدمات کو آگے بڑھانے کی تاکید کرتے تھے۔ یہ امام الہند ہی تھے جنہیں قرآن حکیم کا فارسی ترجمہ کرکے برصغیر کے مسلمانوں کو رجوع الی القرآن کی دعوت دی تھی۔ ڈاکٹر صدیقی صاحب مرحوم نے قرآنیات سے متعلق جو مضامین تحریر کئے ہیں وہ ‘رجوع الی القرآن اور دوسرے مضامین’ کے نام سے القلم پبلشرز بارہمولہ کشمیر سے 2015 میں شائع ہوچکے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب مرحوم نے توحید کے موضوع پر بھی قلم اٹھایا ہے۔ ان کے نزدیک توحید ایک صداقت ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کا پورا نظام صرف اللہ کی مرضی سے چل رہا ہے۔ وہی اس کائنات کا خالق اور مالک ہے۔ توحید کا صحیح تصور جب واضح ہوجائے تو انسانیت تمام زنجیروں سے آزاد ہو کر حقیقی فلاح و کامرانی سے ہمکنار ہوسکتی ہے۔ ان کے اس تصور توحید پر بھی زیر تبصرہ کتا ب میں ایک مضمون میں بحث کی گئی ہے۔
ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی صاحب مرحوم کی ایک اہم کتاب ’’مقاصد شریعت‘‘ ہے۔ “مقاصد شریعت” جب چھپی،اس وقت اس پر بھی علمی حلقوں کی طرف سے اعتراضات کئے گئے تھے۔ تاہم بعض حلقوں نے اختلاف کے باوجود کتاب کو سراہا تھا۔ مقاصد شریعت نے علماء کو آج کے انسان کو درپیش مسائل کا حل نکالنے کے لئے غوروفکر کی دعوت دی ہے مگر کتاب کو وہ پزیرائی نہیں ملی جس کی وہ مستحق تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ کتاب میں جو سوالات اٹھائے گئے تھے، ان سے اکثر مسلمان ناواقف ہیں۔ کسی بھی کتاب کی قدر وقیمت کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جو کتاب کے موضوع سے دلچسپی رکھتا ہو۔زیر تبصرہ کتاب میں ایک مستقل مضمون میں ’’ مقاصد شریعت‘‘ کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب مرحوم کی فقہی تجدید کے منصوبے پر بحث کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ کئی مضامین میں “مقاصد شریعت” کا تذکرہ آیا ہے۔ بعض مضامین میں “مقاصد شریعت” کے نکات بھی زیر بحث آئے ہیں۔
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم جماعت اسلامی ہند سے وابستہ تھے۔ کم و پیش سولہ سال تک مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن رہے۔ زیر تبصرہ کتاب میں مولانا مودودی، مولانا ابو اللیث اصلاحی اور دوسرے علماء کے ساتھ ان کی مراسلت سے ان کی علمی شخصیت کے نئے گوشے سامنے آئے ہیں۔
کتاب میں سب سے طویل مضمون محترم ابو الاعلیٰ سید سبحانی صاحب کا ہے جو 57 صفحات پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب مرحوم کی جامع شخصیت کے حوالے سے تمام مضامین اچھے ہیں جس سے نئے لکھنے والوں کو رہنمائی ملے گی۔ کتاب کی ترتیب وادارت ذوالقرنین حیدرسبحانی کے ہاتھوں ہوئی ہے جبکہ وھائٹ ڈات پبلشرز، نئی دہلی نے مقاصد انسٹی ٹیوٹ سے کتاب شائع کی ہے۔کتاب کے کل صفحات 368ہیں۔سن ِ اشاعت2023ء ہے اور کتاب کی قیمت 400روپے ہے۔کتاب وھائٹ ڈاٹ پبلشرز۔ ڈی۔ 307 ، ابو الفضل انکلیو جامعہ نگر ، اوکھلا نئی دہلی۔ پن کوڑ۔ 110025 پر دستیاب ہے جبکہ فون نمبر08447622919پر بھی ناشرین سے رابطہ کیاجاسکتا ہے۔
کتاب ہارڑ باونڈ، کاغذ عمدہ اور گٹ اپ شاندار ہے۔ دام مناسب ہیں۔مرتب ومدیر محترم ذوالقرنین حید سبحانی صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ڈاکٹر صاحب کی وفات کے چھ سات ماہ کے اندر مضامین کا مجموعہ مرتب کرکے اسے کتابی صورت میں قارئین تک پہنچایا۔اللہ انہیں اس کا بہترین جزادے۔آمین
رابطہ۔حدی پورہ بارہمولہ ،کشمیر
(مضمون میں ظاہر ک گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)