آج یعنی21اپریل برصغیر ہندو پاک کے ساتھ ساتھ پوری دنیا اقبال کے یوم وفات پر انہیں ادب واحترام کے ساتھ خراج عقیدت پیش کررہی ہے ۔عالمی شہرت یافتہ شاعر و فلسفی ڈاکٹر علامہ محمد اقبال21 اپریل1938میں اس دارِ فانی سے61 سال کی عمر میں رخصت ہوئے ۔ زندگی کے آخری ایام میں عشق کا پیمانہ اس طرح لبریز ہواتھا کہ مدینہ منورہ کانام آتے ہی ان کی آنکھوں سے اشک پیہم جاری ہوجاتے۔ انہیں رسول رحمت ﷺ سے اس قدر محبت تھی کہ آخری ایام میں یہ فکر دامن گیر رہی کہ ان کی عمر ،حضرت محمدﷺ کی عمرِ مبارک سے تجاوز نہ کرجائے، کیونکہ وہ اسے سوئے ادب سمجھتے تھے ۔اللہ نے اس کی یہ دعا منظور کی اور وہ 61سال کی ہی عمر میں رخصت ہوگئے، اور لگ بھگ ستر ہزار افراد ان کے جنازے میں شامل تھے اور پھر انہیں لاہور میں بادشاہی مسجد کے سامنے سپردِ خاک کیا گیا۔
اقبال ایک متاثر کن شاعر، ممتاز فلسفی اور دوراندیش انسانی رہنما کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے ۔ انہیں شاعرِ مشرق اور حکیم الامت کے نام سے پوری دنیا جانتی ہے۔ انہوں نے پوری دنیا کو اپنے پیغام سے مستفید کیا ۔دیکھا جائے تو اقبال کا پیغام لگ بھگ پچانوے فیصداردو اور فارسی شاعری میں ہے اورباقی پانچ فیصد ان کی نثری تخلیق میں ان کے مکاتیب ،کتاب’ علم الاقتصاد‘ اور انگریزی میں The Reconstruction of Religious thought in Islam کے علاوہ The Development of Metaphysics in Persia شامل ہیں۔ ان کی شخصیت اور ان کے پیغام سے ناانصافی ہوگی کہ اگر ہم انہیں صرف مسلمانوںکے شاعر تصور کریں ، کیونکہ انہوں نے پوری انسانیت کے لئے اپنا پیغام پہنچانے کی سعی کی۔برصغیر سے لے کر یورپ اور عرب ممالک تک ان کے کلام کو پذیرائی حاصل ہے ۔
چنانچہ ان کی فکر سے ہرطبقہ کے ادباء ومفکرین متاثر اور ان کی فکر کو سراہتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔اسی طرح عرب معاشرے میں علامہ کے کلام کی کافی پذیرائی ہوئی اور عرب معاشرے کے تمام طبقات نے ان کے کلام کو پسند کرکے انہیں عرب دنیا میں متعارف کرایا۔اس حوالے سب سے پہلے ڈاکٹر عبدالوہاب عزام کی شخصیت ہے جنہوں نے اقبال کے کلام کانہ صرف منظوم ترجمہ بلکہ ان کی حیات، شعر ،فلسفہ و ادب پر بھی کتابیں اور مقالات کا بیش بہا خزانہ پیش کیا ۔ انہوں نے ایک مشہور کتاب ’اقبال،سیرتہ ،شعرہ وفلسفہ ‘رقم کی جوکہ عرب ممالک بالخصوص مصر میں کافی مشہور ہوئی۔اس کے علاوہ علامہ کی ایک مشہور نظم’شکوہ اور جواب شکوہ‘ کا عرب کے ایک مشہور شاعر صاوی شعلان نے عربی زبان میں ترجمہ کیا ، جس کو ملک عرب کے علاوہ پوری دنیامیں مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کے علاوہ عرب کے ایک معروف موسیقار ریاض السنبانی نے اسی نظم کو ایک گانے کی صورت ’’حدیث الروح‘‘ The talk of the Soul کے عنوان سے تیار کیا جسے مصر کی ایک نامور گلو کارہ ام کلثوم نے گایا۔دور جدید کے عربی زبان کے ایک مشہور مصنف ڈاکٹر احمد امین پر اقبال کے اثرات کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ انہوں نے اقبال کاذکر پہلی بار اپنے ایک مقالے ’حلقۃ مفقودۃ ‘ میں کیا ہے۔ اس بات کا بھی انکشاف ہوتا ہے کہ عید، رمضان، حج اورنئے ہجری سال کے آغازجیسے مذہبی مواقع پر اقبال کی نظموں کو بڑے شوق سے پڑھا جاتا تھا۔ اقبال خود بھی شہر مدینہ کی زیارت کے بڑے آرزو مند تھے۔ انہوں نے ایک جگہ اپنے کلا م میں فرمایا:
تو باش اینجا و با خاصان بیا میز
کہ من دارم ہوا ئے منزل دوست
ترجمہ: تو مکہ میں اپنے خاص بندوں کے ساتھ مل جل کر رہ، میں تو اپنے محبوب ﷺ کے شہر کی خواہش رکھتا ہوں ۔
اقبال کو عربی زبان و ادب سے کا فی لگائو تھا ۔ عربی اور فارسی انہوں نے اپنے استاد شمس العلماء سید میر حسن سے سیکھی۔ جن کے بارے میں سر عبدالقادر نے دیباچہ بانگِ درا میں لکھا ہے :
’’ان کی تعلیم کا یہ خاصہ ہے کہ جو کوئی ان سے فارسی یا عربی سیکھے ، اس کی طبعیت میں اس زبان کا صحیح مذاق پیدا کردیتے ہیں ‘‘۔ اقبال نے فارسی اور عربی ،دونوں زبانوں پر عبور حاصل کیا، اور اردو کو بھی مکمل کیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عربی ان کے روح میں سرایت کر گئی تھی۔بظاہر وہ برصغیر کے ساتھ منسلک تھے لیکن ان کا دل اور ان کی روح ہمیشہ مدینہ کی سر زمین کے لئے تڑپتی رہی۔ اسی لئے انہوں نے ایک جگہ فرمایا:
عجمی خم ہے تو کیا مے تو حجازی ہے میری
نغمہ ہندی ہے تو کیا لے تو حجازی ہے مری
اقبال نے عرب کی ادبی روح کو اپنے اشعار میں سمو دیا ہے۔ جس سے ان کی تشبیہیں،استعارے، تلمیحات اور خیالی تصاویر قاری کے ذہن کو عربی ماحول کی طرف منتقل کردیتا ہے۔ جیسے بانگ درا کی ایک نظم ’ خضرِ راہ‘ کو لیجئے ۔شاعر خضر سے پوچھتا ہے:
چھوڑ کر آبادیاں رہتا ہے تو صحرانورد
زندگی تیری ہے ، بے روزوشب وفردادوش
اور خضر جواب میں کہتے ہیں :
کیوں تعجب ہے میری صحرانوردی پر تجھے
یہ تگا پوئے دمادم زندگی کی ہے دلیل
اے رہینِ خانہ تو نے وہ سما ں دیکھا نہیں
گونجتی ہے جب فضائے دشت میں بانگِ رحیل
ریت کے ٹیلے پہ وہ آہوکا بے پروا خرام
وہ حضر بے برگ و ساماں ، وہ سفر بے سنگ ومیل
وہ سکوت شام صحرا میں غروب آفتاب
جس سے روشن تر ہوئی چشم جہاں بین خلیلؑ
تازہ ویرانے کی سودائے محبت کو تلاش
اور آبادی میں تو زنجیریٔ کشت ونخیل
کلمئہ نخیل اور بیت المقدس کے باعث ذہن، اقبال کی مشہور نظم ’ذوق وشوق‘ کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اس نظم کا آغاز اپنی معنوی خوبی کو واضح کرتا ہے کہ اسے عربی ادب کے آئینے میں ہی دیکھا جائے۔ ملاحظہ کیجئے:
قلب ونظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں
چشمۂ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں
سرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحابِ شب
کو ہِ اضم کو دیا گیا رنگ برنگ طیلساں
گرد سے پاک ہے ہوا، برگِ نخیل دھل گئے
ریگِ نوا ح کاظمہ نرم ہے مثل پرنیاں
مذکورہ اشعار میں انہوں نے کئی الفاظ کا استعمال کیا ہے ، جن کا تعلق عرب ہی کی سرزمین سے ہے۔ جیسے کوہِ اضم وہ پہاڑی سلسلہ ہے جس کی وادی میں مدینہ منورہ ہے۔ کاظمہ بصرہ کے نزدیک ایک بستی تھی جسے دورِ جاہلیت اور دورِ اسلام کے کئی شعراء نے محبوب منزل کے بطور اپنی شاعری میں استعمال کیا ہے ۔جیسے عرب کے ایک شاعر نے کہا:
الم یبلغک مافعلت ظباہ
بکاظمۃ غذاتہ لقیت عمرا
ترجمہ: کیا تمہیں یہ خبر نہیں پہنچی کہ جس صبح میں عمر سے ملا تھا، اس صبح کا ظمہ کے مقام پر اس کے ساتھ اس کے غزال بچے نے کیا برتائو کیا تھا ۔
ایک اور قصیدہ گو شاعر امام بوصیری نے’ قصیدہ بردہ ‘ میں مدینہ شریف کے لفظ کاظمہ ہی سے اشارہ کیا ہے ۔ ان کے اس مشہور قصیدے کا یہ شعر ملاحظہ کیجئے:
ام ھبت الریح من تلقاء کاظمۃ
او مض البرق فی الظلماء من اضم
ترجمہ: ایسا تو نہیں ہے کہ کاظمہ کی طرف سے ہوا کا جھونکا آیا ہو یا یہ کوہِ اضم کی بجلی تاریکیوں میں چمک رہی ہو۔
مزید برآں اقبال نے نظم ’ذوق و شوق ‘ کے کئی اشعار فلسطین میں کہے لیکن و ہ عالم تخیل میں نواحِ مدینہ کی سیر کررہے تھے۔ مندرجہ ذیل اشعار میں یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ انہوں نے کس طرح کارواں ، قافلہ، زمام، ناقہ، مقام، طناب ، خیمہ، نخل وغیرہ جیسے الفاظ کو اپنے کلام میں استعمال کیا ہے۔
بہر جائے کہ خواہی خیمہ گستر
طناب از دیگراں جستن حرام است
ترجمہ: جہاں چاہے اپنا خیمہ لگا،(مگر اتنا خیال رکھ کہ)دوسروں سے طناب مانگنا(یعنی فرنگیوں کا سہارا ڈھونڈنا) حرام ہے۔
ایک اور شعر کو دیکھئے جس میں انہوں نے خیمہ اور طناب جیسے لفظوں کو استعمال کیا :
اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا طبعیت کا فساد توڑ دی بندوں نے آقائوں کے خیموں کی طناب
اسی نظم ’’ذوق وشوق‘‘ کے یہ مصرعے دیکھئے جس میں انہوں نے قافلہ حجاز کا ذکر کیا ہے۔ملاحظہ ہو یہ شعر:
قافلۂ حجاز میں ایک حسین ؓ بھی نہیں
نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ وبو
اس کے علاوہ ان کی شاعری میں عربی ماحول دیکھنے کو ملتا ہے۔ عربی ماحول اور عربی شاعری کی یاد بھی تازہ ہوجاتی ہے جب ہم نظم’ مسجد قرطبہ‘ کے الفاظ پہ غور کرتے ہیں ۔ چنانچہ اقبال نے عربوں ہی کے انداز میں مسجد قرطبہ کی وسعت اور عظمت کے حوالے سے اسے حرم قرطبہ کہہ کر اس کا استعمال کیا ہے۔ دیکھا جائے تو اقبال سے کئی سوسال پہلے ابن المثنیٰ نے اس مسجد پر جو اشعار کہے تھے ان کو دیکھ کر اس نے باضابطہ طور پر حرمِ کعبہ سے تشبیہ دی تھی۔ جیسے:
بنیت للہ خیر بیتا
نخرس عن وصفہ الانام
حج الیہ من کل ادب
کانہ المسجد الحرام
کان محرابہ اذا ما
حف بہ الرکن والمقام
ترجمہ: (اللہ کے لئے بہت ہی اعلیٰ گھر کی تعمیر کی گئی ہے۔ لوگوں کی زبانیں اس کی صفت بیان کرنے سے قاصر ہیں ۔ لوگ ہر نواح سے اس کا رخ کرتے ہیں ۔ گویا کہ وہ مسجد حرام ہو، جب لوگ اس کے ارد گرد جمع ہوتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کا منبر کعبے کے رکن و مقام کا کام دے رہا ہے۔ )
اقبال نے مسجد قرطبہ کے حوالے سے عروج وزوال اقوام وملل پر غور کیا اور مایوسی کی تاریکیوں میں امید کی شمعوں کا نظارہ کرتے ہوئے دریاء کبیر سے مخاطب ہیں ۔
آب روانِ کبیر !تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
یہی وہ دریا ء کبیر ہے جس کے کنارے کبھی ابوبکر ابن اللبانہ الدانی بنو عباد کو یاد کرتے تھے ۔ اقبال نے بالِ جبریل کی زینت میں ایک نظم ’قید خانے میں معتمد کی فریاد‘ لکھی، جو محمد معتمد بن معتفد عبادی کے اشعار کا آزاد ترجمہ ہے ۔ ابن اللبانہ ، دریائے کبیر کے کنارے بیٹھ کر کہتا ہے ’’ اے دریا، میں چشم تصور کی مدد سے دیکھ رہا ہوں کہ بنو عباد کی کشتیاں سمندر کی طرف جارہی ہیں ۔ اور پھر وہ اصول عروج و زوال کے غم انگیز خیالات میں کھو کر بنو عباس اور بغداد کی اوائلی شان وشوکت کو یاد کرنے لگتا ہے۔ اقبال نے ہسپانیہ کے مسلم حکمرانوں کو عمومی رنگ میں بڑی محبت سے ان کا تذکرہ کیا ہے۔
ساقی ٔ ارباب ِ ذوق ، فارسِ میدان شوق
بادہ ہے اس کا رحیق ، تیغ ہے اس کی اصیل!
لیکن یہاں دیکھئے کہ ابن اللبانہ نے ایک مخصوص انداز میں بنو عباد کی تعریف کرکے اپنے اشعار میں کہا ہے:
تبکی السماء بمزن رائج غادی
علی البھا لیل من ابناء عبادی
علی الجبال التی ھدت قواعدھا
وکانت الارض منھم ذات او تادی
ترجمہ: ابر باراں صبح و شام سردارانِ عبا دپر اشک افشاں ہے۔ وہ ان پہاڑوں پر اشک افشاں ہے جن کی بنیاد یں اکھاڑ دی گئیں ، حالانکہ خود انہی کی وجہ سے زمین کو سہارے میسر تھے۔
اس کے علاوہ اقبال نے جاوید نامہ میں عرب جاہلیت کے ذہن کی جو ترجمانی کی ہے وہ واقعی لائق تحسین ہے۔ جیسے انہوں نے اس میں ’طاسین محمد نوحۂ ابو جہل در حرم کعبہ‘ لکھ کر عرب و عجم کے قارئین کو متوجہ کرکے ان پر اپنے فن اور ادب کا اثر ڈالا۔یہاں اقبال کے ادبی اور فنی محاسن کا جائزہ لیجئے کہ کس طرح حرم کعبہ میں ابوجہل نوحہ خوانی کرتا ہے ،جسے اقبال نے اپنے کلام میں پیش کیا ہے ۔اس کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے:
مذہب او قاطع ملک و نسب
از قریش و منکر از فضل عرب
قدر احرار عرب نشناختہ
باکلفتان حبش در ساختہ
ترجمہ: آپؐ کا مذہب ملک و نسب کی جڑیں کاٹ دیتا ہے ، آپؐ اہل عرب اور قریش کی فضیلت کے منکر ہیں ۔آپؐ نے احرار عرب کی قدر نہیں پہچانی ، آپؐ نے کالے حبشیوں کے ساتھ موافقت اختیار کرلی۔
غرض اقبال عربی ادب اور عرب ماحول سے متاثر تھے، اسی لئے انہوں نے کئی جگہوں پر ایسی اصطلاحات اور ایسے الفاظ کا انتخاب کیا جس سے قارئین کو لگتا ہے کہ وہ عرب ماحول میں ہی اقبال کو پڑھ رہے ہیں ۔
رابطہ:اقبال انسٹی ٹیوٹ ، کشمیر یونیورسٹی
فون نمبر۔7006025010