چھوٹی سی محبت

ابا کے انتقال کے بعد رشتہ داروں نے ساری جائداد پر قبضہ تو کر لیالیکن اگر امی مجھے وہاں سے لیکر بھاگ نہیں آتیں تو خاندان والے گدھوںاور چیلوں کی طرح ہماری بوٹیاں نوچ کھاتے۔
امی بڑے گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں مگر گھر والوں کی مرضی کے خلاف ابا سے شادی کرنے کی وجہ سے ان لوگوں نے امی سے ہمیشہ کے لئے تعلق ختم کر لیاتھااس لیے ہمیں کشمیر میں پناہ لینی پڑی۔ اس وقت میری عمر تقریبا گیارہ برس رہی ہوگی۔ کشمیر میں ابا کے دوست رہتے تھے ، سو انھوں نے ہمارے رہنے کا انتظام بھی کردیا تھا۔ امی پڑھی لکھی تھیں لہٰذا انھیں کسی اسکول میں ٹیچر کی ملازمت دلوادی اور پھر امی نے مجھے بھی اسکول میں داخل کروا دیا۔ 
ہم جس گھر میں رہتے تھے وہ ایک بہت بڑا گھر تھا ۔ چھوٹے چھوٹے کمرے تھے اور ہر کمرے میں کرایہ دار رہتے تھے ۔ ہمارے سامنے والے کمرے میں ایک کرایہ دار رہتا تھا جس کی عمر پچیس تیس سال رہی ہوگی۔ چہرے پر داڑھی تھی ، رنگ گورا، قد درمیانہ تھا۔وہ کرتا پائجامہ پہنتا تھا جو تقریبا ٹخنوں سے اوپر ہوتا تھا اور ہاں سر پر سفید رنگ کی ٹوپی بھی ہوتی تھی ۔ دیکھنے میں تو خوبصورت تھا لیکن مزاج کچھ عجیب تھا ۔ اس کے کمرے کا راستہ ہمارے کمرے کے سامنے سے ہوکر گذرتا تھا۔وہ کسی کالج میں پڑھتا تھا اور ہوسٹل میں نہ رہ کر کمرہ کرایے پر لے کر رہتا تھا۔وہ ایک اچھے گھرانے سے تھا لیکن اس کا حلیہ اور رہن سہن اتنا سادہ تھا کہ کہیں کسی طرح سے بھی وہ پیسے والے گھرانے کا نہیں لگتا تھا۔ میں اکثر کھیلتے ہوئے اسے اپنے کمرے کے سامنے سے گزرتے دیکھتی تھی۔ مگر وہ تھا کہ کسی کو بھی نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا، بس یا تو وہ اپنی پڑھائی میں لگا رہتا یا پھر پابندی سے نماز پڑھنے مسجد جاتاتھا۔
ہمارے کمرے کے سامنے سے اکثر وبیشتر گزرنے کی وجہ سے اس ا سامنا مجھ سے ہوتا تو کبھی کبھار نظریں نیچی کرکے سلام کر لیتا اور آگے بڑھ جاتا۔ ویسے ہماری اس سے زیادہ جان پہچان نہیں تھی۔ ارے میں تو اس کا نام  بتانا ہی بھول گئی… اسکا نام محسن تھا۔ محسن امی کو تو سلام کرتا لیکن مجھ سے کبھی بات کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔
دھیرے دھیرے کبھی کبھی محسن ہمارے گھر آتا اور امی کے پاس بیٹھتا اور امی جب اس سے کوئی سوال کرتیں تو وہ جواب ضرور دیتا۔ شاید اچھا جواب دیتا لیکن اس کے جواب دینے کا جو طریقہ تھا وہ بہت سخت ہوتاتھا۔ یعنی جتنا سوال اتنا ہی جواب۔ اپنی طرف سے کوئی بھی کبھی بھی نہ تو سوال ہی کرتا اور نہ ہی بات شروع کرتا۔ اس کی یہ عادت مجھے بہت عجیب لگتی تھی۔ لیکن اس کا مطلب یہ بالکل نہیں ہے کہ وہ اچھا انسان نہیں تھا۔ وہ اچھا انسان تو تھا ہی ساتھ ساتھ وہ بہت نیک بھی تھا۔لیکن کافی ریزرو ٹائپ ہونے کی وجہ سے خشک لہجے میں بات کرتا تھا۔
 امی جب کبھی کوئی اچھی چیز میرے لئے بناتیں تو کہتیں جا تھوڑا محسن کو بھی دے آ۔ محسن برتن لے لیتا اور سامان لیکر خالی برتن بغیر کچھ کہے مجھے واپس کر دیتا۔میں من ہی من سوچتی کہ کم از کم شکریہ توادا کر ہی سکتا تھا۔ 
ایک دن میں اسکول سے واپس آئی تو دیکھا امی بستر پر لیٹی ہیں اورمحسن ان کے سامنے والی کرسی پر بیٹھا ہے۔ امی نے مجھے دیکھا تو کھانستے ہوئے بولیں بیٹا وہاں کھانا رکھا ہے کھا لو۔ آج میری طبیعت کچھ خراب ہے۔ میں کھانا وانا چھوڑ کر امی کے پاس دوڑ کر گئی اور ان سے لپٹ گئی۔ امی مجھے سینے سے لگا تے ہوئے محسن سے بولیں۔ مجھے صرف اپنی بچی کی فکر ہے نہ جانے میرے بعد اسکا کیا ہوگا؟ دنیامیں اسکا میرے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ پھر محسن کی طرف دیکھا اور کہا کیا تم میرے جانے کے بعد اسکا خیال رکھو گے۔ میں تمہارے سوا دنیا  میں کسی اور پر بھروسہ نہیں کر سکتی۔ محسن نے کوئی جواب نہیں دیا۔
  امی کی طبیعت میں سدھرے کے بجائے دن بہ دن اور زیادہ خراب ہونے لگی اور ایک دن امی مجھے محسن کے حوالے کرکے اس بھری دنیا میں اکیلا چھوڑ کر رخصت ہوگئیں۔
محسن کی پوسٹ گریجویشن ختم ہو چکی تھی اور وہ آگے کی پڑھائی کے لئے بیرونِ ملک جانا چاہتا تھا لیکن میری وجہ سے پریشان تھا کہ اب مجھے کہاں لے جائے اور اس کے گھر والے بھی میرے بارے میں نہیں جانتے تھے۔ پھر محسن مجھے بورڈنگ میں داخل کراکے خود امریکہ چلا گیا۔ ایسا نہیں تھا کہ مجھے بورڈنگ میں داخل کرانے کے بعد اس نے میری خبر نہیں لی بلکہ وہ برابر میرا خرچہ بھی بھیجتا تھا اور جب کبھی امریکہ سے واپس آتا تو مجھ سے ملنے ضرور آتا۔
وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ میں بھی اب جوان ہوچکی تھی۔ میری سہیلیاں کہتی تھیں کہ میں اپنی امی کی طرح خوبصورت ہوں ۔ نہ جانے کب اور کیسے میرے دل میں محسن کے لئے جگہ بننے لگی، مجھے پتا بھی نہیں چلا۔ میں ہمیشہ محسن کے فون کا بے صبری سے انتظار کرتی یا بہانہ ڈھونڈتی رہتی محسن سے بات کرنے کااور اسکے خوابوں خیالوں میں کھوئی رہتی۔ اکثر اپنے آپ سے سوال کرتی کہ کہیں یہی پیار تو نہیں؟اور یہ تو صرف ایک طرفہ پیار تھا ۔کیونکہ مجھ میں ان کے سامنے اپنے پیار کا اظہار کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ لیکن شکرہے محسن نے مجھ سے بات کرنا شروع تو کی لیکن اتنی ہی بات جتنی ضرورت ہو ۔اگر محسن کبھی مجھے میرے نام سے پکارتے تو میرے من میں لڈو پھوٹنے لگتے اور اپنا نام مجھے بہت خوبصورت معلوم ہوتا۔
میرا گریجویشن کا کورس مکمل ہو چکا تھا اور محسن کی امریکہ میں چھٹیاں شروع ہوچکی تھیں۔ محسن واپس آئے تو وہ ہمیشہ کی طرح مجھ سے ملنے کے لئے آئے۔ 
محسن نے سر نیچے کئے ہوئے مجھ سے پوچھا ، کیسی ہو؟ امتحانات کیسے ہوئے؟ 
اچھے ہوئے۔ میں نے جواب دیا۔
محسن کچھ اور پوچھتے اس سے پہلے ہی نے اپنی خواہش محسن کے سامنے ظاہر کی۔ 
میں چھٹیوں میں آپ کے ساتھ گھر چلنا چاہتی ہوں۔
محسن نے دھیرے سے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور پھر سر جھکا کربے رخی انداز میں جواب دیا۔ ٹھیک ہے کل صبح تیار رہنا ، میں تمہیں لینے آؤں گا۔
یہ سن کر میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ خوشی کے مارے رات بھر نیند نہیں آئی ، انتظار کرتی رہی کہ کب صبح ہو؟  جیسے تیسے صبح ہوئی اور محسن مجھے لینے آ گئے۔
  تمہارا سامان کہاں ہے ؟
لاؤ گاڑی میں رکھو! 
گاڑی میں سامان رکھنے کے بعد میں پیچھے کی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ 
آگے کی سیٹ پر بیٹھو! میں کوئی تمہارا ڈرائیور نہیں ہوں۔
روکھے انداز میں محسن نے کہا۔  میں اپنی سیٹ سے دھیرے سے اٹھی اور آگے والی سیٹ پر محسن کے ساتھ بیٹھ گئی۔ یہ پہلا موقع تھا جب ہم دونوں ساتھ ساتھ گاڑی میں سفر کر رہے تھے۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے میں کوئی خواب دیکھ رہی ہوں۔ مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا ۔ میں آنکھیں بند کئے من ہی من خواب دیکھ رہی تھی شاید ایسی کو کھلی آنکھ سے خواب دیکھنا کہتے ہونگے، بہر حال کچھ بھی ہو خواب بہت حسین تھا۔میں دعا کر رہی تھی کہ یہ سفر کبھی ختم نہ ہو۔ یونہی زندگی بھر چلتا رہے۔
گاڑی رکی اور محسن نے کہا گھر آ گیا ۔میں نے آنکھ کھول کر دیکھا تو واقعی گھر آچکا تھا لیکن میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ہم اتنی جلدی کیسے پہنچ گئے ۔ 
محسن گاڑی سے اترے اور مجھے کچھ کہے بغیر گھر کے اندر چلے گئے ۔ اندر سے ان کا نوکر گلشن آیا اور اس نے سامان اٹھایا اور کہا؛
 صاب آپ کو اندر بلا رہے ہیں۔ 
میں دوڑتی بھاگتی تیزی سے گھر کے اندر داخل ہوئی تو دیکھا محسن فون پر بات کر رہے ہیں۔ میں وہیں کھڑی رہی اس انتظار میں کہ وہ فون پر بات ختم کرکے کچھ کہیں گے ۔ انھوں نے تھوڑی دیر کے بعدریسیور کو فون پر رکھتے ہوئے کہا، اوپر تمہارا کمرا ہے جاؤ آرام کرو اور کسی چیز کی ضرورت ہو تو نوکر سے کہنا اور یہ کہہ کر وہ آفس چلے گئے۔ میں کافی تھکی تھی اسلئے مجھے نیند آگئی۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ کون ہے؟ اس امید میں تھی کہ شاید محسن ہونگے! اورتکیہ کو اپنے گود میں لیتے ہوئے کہا اندر آئیے ! نوکر اندر داخل ہوا ۔ میم صاب کھانا ٹیبل پر لگا دیا ہے۔ چلئے کھا لیجئے ٹھنڈا ہو جائے گا ۔دن بھر سے آپ نے کچھ نہیں کھایا ہو۔ اچھا! ٹھیک ہے مگر صاحب نے کھانا کھایا؟ کہاں کھایا۔ صاب تو صبح جلدی آفس کے لئے نکل جاتے ہیں اور دیر رات واپس آتے ہیں۔ نوکر نے کہا:
دوسرے دن محسن کے جانے کے بعد میں نے ان کا کمرا صاف کیا ، کپڑوں کو سلیقے سے الماری میں رکھا، ان کی چپل کو بیڈ کے پاس رکھا ، پانی رکھا اور ضرورت کے ہر سامان کو سلیقے سے ڈریسنگ ٹیبل پر سجا کر رکھ دیا اور ہاں ان کا تولیہ جو کبھی ان کو نہیں مل پاتا تھا وہ بھی واش روم میںرکھ دیا۔ اور جلدی جلدی کیچن میں جاکر ان کی پسند کا کھانا بنایا۔
میں وہیں صوفے پر دیر رات تک ان کا انتظار کرنے لگی۔ انتظار کرتے کرتے میری آنکھیں جھپک گئیںکہ اچانک گاڑی کے ہارن کی آواز آئی۔ میں جلدی سے کھڑی ہوگئی۔ 
محسن ہاتھ میں بریف کیس لئے اندر داخل ہوئے اور نوکر سے کہاکہ کھانا ٹیبل پر لگا دو ، میں ابھی فریش ہو کر آتا ہوں۔ واپس آئے اور ڈائنگ ٹیبل پر بیٹھ گئے۔ آج کھانے سے تو بہت  اچھی خوشبو آرہی ہے۔ کھاناپلیٹ میں نکالتے ہوئے کہا!
منہ میں ایک لقمہ ڈالا اور تھوڑا چباتے ہوئے نوکر سے بولے؛ گلشن آج کیا بات ہے میرا کمرا صاف ستھرا ہے اور ہر چیز بڑے سلیقے سے رکھی ہے تم نے اور ہاں! کھانا بھی تو آج تم نے میری پسند کا بنایا ہے اور وہ بھی اتنا ٹیسٹی، کیا تنخواہ بڑھوانے کا ارادہ ہے؟ مسکراتے ہوئے کہا۔
جی نہیں صاب ! یہ سب ہم نے نہیں کیا ہے اور نہ ہی ہم نے کھانا بنایا ہے۔ یہ سب تو آشا بٹیا نے بنایا ہے۔
اچھا! کہہ کر محسن نے کھانا ختم کیا اور سیدھے اپنے کمرے میں سونے کے لئے چلے گئے ۔ یہ سب میں دورسے چھپ کر دیکھ رہی تھی۔ انھوں نے میرے کھانے کی تعریف کی تو مجھے بہت اچھا لگا۔
اگلے دن محسن آفس سے جلدی گھر آگئے۔ گلشن سے مجھے بلانے  کے لئے کہا۔ میں ڈرتے ہوئے آکر دھیرے سے ان کے پاس کھڑی ہوگئی اور کہا آپ نے بلایا ہے۔
ہاں! یہ کچھ کپڑے اور تھوڑا سامان تمہارے لئے لایا تھا، دیتے ہوئے کہا۔ شام کو تیار رہنا کچھ مہمان تم سے ملنے کے لئے آئیں گے ۔
لیکن کیوں!
کیوں ! محسن نے دہراتے ہوئے کہا ، اسلئے کہ سلمان اچھے گھرانے سے ہے۔ ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہے۔ پڑھا لکھا ہے اور اچھی جاب کرتا ہے ۔ تم اس کے ساتھ بہت خوش رہوگی۔ محسن نے کہا۔
لیکن میں سلمان سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔
کیوں؟ کیا کمی ہے اس میں؟
کیا تمہاری کوئی اور پسند ہے؟ محسن نے ذرا سختی سے پوچھا 
میں خاموش رہی۔
جواب کیوں نہیں دیتی۔
ہاں میری پسند ہے۔
کون؟
میں پھر خاموش رہی۔
تم بولتی کیوں نہیں؟ بار بار اصرار کرنے پر میں نے جواب دیا۔
آپ!
 یہ کہتے ہوئے پہلی بار محسن نے میری طرف گھور کر دیکھا، کمرے میں چاروں طرف خاموشی چھا گئی، ایسا لگ رہا تھا کہ وقت رک سا گیا ہے۔
تم کیا بول رہی ہو؟ ہوش میں تو ہو؟
ہاں ہوش میں ہوں ! ڈرتے ہوئے جواب دیا۔
آپ نے میری پسند جاننا چاہی اور میں نے اپنی پسند بتا دی۔ یہ کہتے ہوئے میری آنکھوں میں آنسو آ گئے اور گلا بھر آیا۔  
یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔ محسن نے کہا
کیوں؟ کیا وجہ ہے؟ مجھ سے شادی نہ کرنے کی۔
اور اب کی بار صبر کا باندھ تقریبا ٹوٹ گیا،۔میں زور زور سے رونے لگی۔
تم جانتی ہویہ نہیں ہو سکتا؟
نہیں میں نہیں جانتی۔ اسی لیے تو پوچھ رہی ہوں۔ آخر کیا کمی ہے مجھ میں!
میں تم سے اٹھارہ سال بڑا ہوں۔
تو کیا صرف ایک یہی وجہ ہے انکار کی۔لیکن میں آپ سے ہی شادی کرنا چاہتی ہوں ۔ میں ! میں ! ہکلاتے ہوئے میں نے کہا کہ میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں۔ آپ کے بغیر جی نہیں سکتی اور کہتے ہوئے محسن کے گلے لگ کر زور زور سے رونے لگی۔ مجھے اپنے سے الگ مت کیجئے۔ میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ 
ہارن بجاتی ہوئی گاڑی گھر کی پارکنگ میں آکر رکی اور کار سے دو چھوٹے بچے اُترے اور مما! مما! کہتے ہوئے گھر کے اندر دوڑتے چلے گئے۔ مما ! مما دیکھو پاپا نے ہمیں کتنی ساری چیزیں خرید کر دیں۔ بچوں نے ہنگامہ کرتے ہوئے کہا۔
ٹھیک ہے ،ٹھیک ہے۔ لیکن تمہارے پاپا ہیں کہاں؟ آشا نے بچوں سے پوچھا؟
ہم آپ کو چھوڑ کر آخر کہا ں جاسکتے ہیں؟  یہ کہتے ہوئے محسن آشا کے پاس آگیا اور آشا کو گلے سے لگاتے ہوئے پیار سے بولا میری پیاری پگلی!
���
اسسٹینٹ پروفیسر بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری
ای میل؛[email protected]