چھاپے اور گرفتاریاں

 جب سینئر حریت لیڈر نعیم خان کو این آئی اے کی طرف سے پاکستان سے رقومات حاصل کرکے انہیں مبینہ طور سے کشمیر میں تشدد کو ہوا دینے کیلئے استعمال کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تو حریت کا رد عمل بد قسمتی سے ہندوستانی میڈیا کے غلط پروپگنڈہ کی وجہ سے کچھ اس طرح سامنے آیا کہ جیسے نعیم خان نے واقعی کوئی بہت بڑا گناہ کیا ہو ۔ لیکن اس کے بعد شبیر شاہ کو بھی جب بلاوا بھیج کر گرفتار کیا گیا اور پھر حریت گ کے چار سرکردہ لیڈروں ایاز اکبر، پیر سیف اللہ، الطاف فنتوش اور معراج احمد کلوال کو بھی سرینگر سے گرفتار کرکے جیل پہنچا دیا گیا تو مزاحمتی قیادت کو معاملے کی سنگینیت اور حساس ہونے کا کچھ اندازہ ہوا ۔ لیکن نعیم خان کی گرفتاری اور حریت گ کے چار لیڈروں کی گرفتاری کے درمیان وقفہ میں مزاحمتی قیادت کی عدم دلچسپی نے عام لوگوں کے دلوں میں جہاں کچھ غلط فہمیوں کو پنپنے کا موقع دیا وہاں نئی دلی نے موقع کو غنیمت سمجھ کر بھر پور جارحانہ رخ اختیار کیا ۔ غرض ابتدا ء میں کچھ سادہ لوح کشمیریوں کو لگا کہ جیسے حریت لیڈروں نے واقعی تحریک کے نام پر کاروبار شروع کیا ہے لیکن جیسے جیسے این آئی اے نے سیاسی کارکنوں سے لیکر تاجروں اور صحافیوں سے لیکر ریاست کے سرکردہ قانونی ماہر اور بار ایسو سی ایشن کے صدر میاں عبدالقیوم کو دلی بلانے کا حکمنامہ صادر کیا تو اہل کشمیر کے ہوش آہستہ آہستہ ٹھکانے آنے لگے اور انہیں یہ احساس ہونے لگا کہ نئی دلی کا مقصد کشمیریوں کی جائز قیادت کو اپنے لوگوں کی نظروں میں گرانے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ جب بڈگام میں آغا صاحب کے گھر پر این آئی اے کی چھاپہ ماری شروع ہوئی تو عوام نے سڑکوں پر نکل کر اپنی ناپسندیدگی اور غم و غصہ کا اظہار کیا ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا ضروری ہے کہ بلا شبہ کئی لوگ اور خاندان تحریک کے نام پر اپنے لئے  وہ سب کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جو خواب میں ان کیلئے سوچنا بھی ممکن نہیں تھا لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ اس کی آڑ میں ساری مزاحمتی تحریک کو بدنام کیا جائے اور وہ بھی ان لوگوں کے ہاتھوں جنہوں نے کہ کشمیریوں کے خون کو پانی سے بھی سستا سمجھا ہے ۔این آئی اے نے تحقیقات کے دوران جو کچھ بھی دعوے کئے ہیں اس میں حقیقت کتنی ہے وہ تو وقت ہی بتا دے گا لیکن سوال یہ ہے کہ کیاگذشتہ 29برسوں کے دوران جموں و کشمیر میں صرف یہی ایک چیز تحقیق کرنے کے قابل ہے کہ حریت نے پاکستان سے کتنا روپیہ حاصل کیا اور باقی سب کچھ یہاں قوائد و ضوابط کے تحت چلتا رہا ۔ نئی دلی کو اس سوال کا بھی جواب دینا ہو گا کہ آخر کشمیریوں کا ناحق قتل کرنے کے الزام میں کتنے وردی پوشوں کو سزا دی گئی ۔ فوج کی طرف سے 1989ء سے2005ء تکROPکے تحفظ کے نام پر ہزاروں لوگوں سے جبری اور بلا معاوضہ بیگار لینے والوں سے کیوں حساب نہیں لیا گیا ۔ اخوانیوں کے ہاتھوں انسانیت کی عصمت تار تار کرنے والوں کا کیا ہوا ۔ وی ڈی سی کے نام پر جموں خطہ میں مسلمانوں کے ساتھ زیادتیاں کس قانون کے تحت عمل میں لائی گئی اور عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کے نام پر کھربوں روپیہ کن لوگوں کی جیبوں میں گیا ۔ اگر نئی دلی نے جموں کشمیر میں امن قائم کرنے کے نام پر اپنے تمام اداروں ، افراد ، تنظیموں اور سرغنوں کو سب کچھ کرنے کی چھوٹ دے رکھی تو اس سے چاہئے کہ ملکی مفاد کے نام پر انسانیت سوز مظالم ڈالنے کو باضابطہ طور سے اعلانیہ قانونی قرار دے ۔ اگر ہندوستان کی سرکار این آئی اے کے چھاپوں کی روشنی میں کچھ بھی کہے لیکن اس سے اس بات کا اعتراف کرنا ہوگا کہ اس کے دوہرے معیاروں کا پردہ بری طرح سے فاش ہو چکا ہے اور اہل کشمیر اور دلی کی دوریاں پہلے سے زیادہ بڑھ چکی ہیں ۔ جموں و کشمیر کے پورے معاملے کو عسکریت پسندوں کے خلاف جارحانہ کاروائیوں اور مزاحمتی قیادت کے ساتھ ساتھ ہر حق بات کہنے والوں کی زبان بندی اور انہیں جیلوں میں بند کرنے تک محدود رکھنے سے خود ہندوستان کے اندر موجود با ضمیر اور انصاف پسند لوگوں کی بڑی تعداد کی نظروں میں ملکی اداروں کی افادیت مشکوک بن کے رہ گئی ہے ۔ تصویر کا صرف ایک پہلو سامنے لا کر حقائق کو مسخ کرنے سے سچائی چھپ نہیں سکتی اور کون نہیں جانتا کہ سچائی کو اگر لاکھ بار بھی چھپایا جائے تو بھی وہ کبھی از خود کسی کی اجازت کے بغیر سامنے آ ہی جاتی ہے ۔ عوامی تحریکیں افراد سے نہیں نظرئیہ سے چلتی ہیں اور اگر کوئی یہ سمجھنے کی چوک کر رہا ہے کہ مزاحمتی قیادت کا قافلہ حیات تنگ کرکے جموں کشمیر کے لوگ ناک رگڑ کر توبہ کریں گے تو ایسا شائد ہی کبھی ممکن ہوگا ۔ جہاں نام نہاد مین اسٹریم پہلے ہی عوام میں اپنی اعتباریت کھو چکا ہے وہاں نئی دلی کی طرف سے مزاحمتی قیادت کو سیاسی منظر نامہ سے ہٹانے کی کوششیں ایک ایسی صورتحال کو جنم دے سکتی ہیں جس کا کہ سب سے زیادہ نقصان خود نئی دلی کو ہی اٹھانا پڑے گا ۔ ایسا ہرگز ممکن نہیں کہ نئی دلی کو یہ بات معلوم نہیں کہ آج نہیں تو کل جموں کشمیر کے سیاسی مسئلہ پر اس سے با معنیٰ اور سنجیدہ مذاکرات کرنے ہی ہوں گے تاکہ ہندوستان پورے خطہ میں اپنی جغرافیائی حجم ،انسانی وسائل اور جدید ٹکنالوجی سے بھر پور فائدہ اٹھا کر امریکہ اور چین کے ساتھ اقتصادی محاذ پر مقابلہ کر سکے۔ لیکن جس طرح جموں کشمیر میں سیاسی قیادت کو ختم اور غیر موثر کرنے کے احمقانہ منصوبے عملائے جا رہے ہیں اس کا یہ لازمی نتیجہ نکلے گا کہ مستقبل قریب میں نوجوان نسل سے ایسی قیادت ابھر کر سامنے آئے جو جموں کشمیر سے ہندوستان کی مکمل آزادی کے حصول کیلئے موجودہ مزاحمتی قیادت سے زیادہ سنجیدہ، زیادہ مخلص ، زیادہ انتہا پسند اور زیادہ ہٹ دھرم ہو گی اور نئی دلی کیلئے اس سے معاملات طے کرنا بے حد مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہو سکتا ہے ۔ اس بات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ موجودہ مزاحمتی قیادت کی جگہ ابھر کر سامنے آنے والی نئی قیادت پاکستان کے اثر و رسوخ سے کافی حد تک آزاد ہو اور ایسی صورتحال میں نئی دلی کو لوہے کے چنے چبوانے پڑنے کے امکان کو رد نہیںکیا جا سکتا ہے۔ حریت قیادت کو مشکوک بنانے کی کوششوں کا یہ بھی ایک نتیجہ سامنے آنے کا غالب امکان ہے کہ اب سے ہر چھوٹا بڑا فرد یا جماعت یا گروہ نئی دلی نئی دلی کے ساتھ کسی بھی سطح کے مذاکرات کیلئے آمادگی ظاہر کرنے سے پہلے دس بار سوچے گا کہ نئی دلی پہلے ہر کسی کو پیار سے بلاتی ہے اور پھر اس سے دھوبی کے کتے کی طرح نہ گھر کا رکھتی ہے اور نہ گھاٹ کا ۔ اس ساری صورتحال کے درمیان مین اسٹریم جماعتوں کا رد عمل بے حد مایوس کن اور افسوسناک دکھائی دے رہا ہے اورمزاحمتی قیادت کے خلاف جاری سازشوں اور یلغار کے درمیان مین اسٹریم جماعتیں اپنے لئے کھوئی ہوئی Spaceکو پانے کیلئے ہاتھ پائوں مار رہی ہے ۔ دونوں بڑی علاقائی جماتیں NCاور PDPحریت قیادت کی کردار کشی پر باہر سے کچھ بھی کہیں لیکن اندر سے وہ اس بات پر پھولے نہیں سما رہی ہے کہ حریت کو عوام میں داغدار بنانے کا فائدہ براہ راست انہیں مل سکتا ہے لیکن ایسا کسی بھی طرح سے ممکن نہیں ہے۔ اگر عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی دلی کے ہر حکم کی تعمیل کرکے اپنے لئے اقتدار اور مراعات حاصل کر رہے ہیں لیکن انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دلی انہیں تبھی گھاس ڈالتی ہے جب مزاحمتی قیادت نئی دلی کے دبائو کے آگے جھکنے سے انکار کرتی ہے۔ جس قدر مزاحمتی قیادت مضبوط ہوگی اسی قدر نئی دلی کو مین اسٹریم جماعتوں کی ضروررت ہوگی اور اگر خدا نہ خواستہ مزاحمتی قیادت کمزور ہو جاتی ہے تو مین اسٹریم جماعتوں کی اہمیت پہلے سے بھی کم ہو کے رہ جائے گی جس کی غالب وجہ یہ ہے کہ نئی دلی کشمیر مسئلہ کے حل میں نہ ماضی میں کبھی مخلص تھی اور نہ فی الحال مخلص نظر آ رہی ہے ۔ شائد اسی لئے وہ کشمیری لیڈر شپ کو نہ صرف ایک دوسرے کی نظروں میں بلکہ عام لوگوں کی نظروں میں بھی مشکوک بنانا چاہتی ہے جسکا توڑ کرنا کشمیریوں کا بحیثیت قوم کے اولین فرض ہیں ۔ 
