پینتھرس پارٹی کا بی جے پی کے خلاف احتجاج | میٹنگ میں مدعو جموں کے لیڈران پر اعتماد نہیں: ہرش دیو سنگھ

جموں // جموں و کشمیر نیشنل پینتھرس پارٹی نے اتوار کے روز مرکزی حکومت کی پالیسوں کے خلاف بی جے پی مخالف مظاہرہ کیا۔اس مظاہرے میں پارٹی ورکران اور کارکنان کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی ۔یہ مظاہرہ پارٹی آفس کے باہر ہرش دیو سنگھ کی قیادت میں کیا گیا ۔معلوم رہے کہ اگلے ہفتے وزیر اعظم کی صدارت میں ایک اجلاس دہلی میں منعقد ہونے جا رہا ہے جس میں جموں وکشمیر کی آٹھ سیاسی جماعتوں کے چودہ رہنماؤںکو مدعو کیا گیا ہے جس میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعہ 24 جون کو نئی دہلی میں مرکزی خطے کیلئے آئندہ کے لائحہ عمل پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔مدعو کئے جانے والوں میں چار سابق وزرائے اعلیٰ ہیںجن میں فاروق عبداللہ ، عمر عبداللہ ، کانگریس کے سینئر رہنما غلام نبی آزاد اور پی ڈی پی کے سربراہ محبوبہ مفتی کے علاوہ جے کے این پی پی کے بانی بھیم سنگھ بھی شامل ہیں ۔تاہم بھیم سنگھ نے کہا کہ وہ آج پارٹی قائدین سے اس دعوت پر تبادلہ خیال کرنے اور ان کی شرکت کے بارے میں فیصلہ لینے کیلئے ملاقات کر رہے ہیں۔جے کے این پی پی کے صدر نے بتایا ’’مجھے اجلاس کیلئے دعوت نامہ موصول ہوا ہے اور فیصلہ کرنے کیلئے آج پارٹی رہنماؤں سے اس پر تبادلہ خیال کروں گا۔‘‘تاہم جے کے این پی پی کے چیئرمین اور سابق وزیر ہرش دیو سنگھ کی سربراہی میں پارٹی کارکنوں کے ایک گروپ نے پارٹی کے ہیڈکوارٹر کے باہر بی جے پی کی زیرقیادت مرکزی حکومت کے خلاف احتجاج کیا ۔ہرس دیو نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ مرکزی حکومت نے تمام کشمیری جماعتوں کو اجلاس کیلئے مدعو کیا لیکن جموں کی قیادت کو نظرانداز کیا۔انہوں نے کہا کہ الطاف بخاری کی حال ہی میں شروع کی جانے والی اپنی پارٹی اور سجاد لون کی پیپلز کانفرنس جسے ابھی تک ہندوستان کے الیکشن کمیشن نے تسلیم نہیں کیا ہے کو ہی یہ دعوت نامہ ملا ہے۔انہوں نے کہا کہ جموں سے جن لیڈران کو دعوت دی گئی ہے ،ان پر ہمیں اعتماد نہیں ہے اور وہ ان کے ساتھ مل کر مقابلہ کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں بھیم سنگھ پر اعتماد ہے لیکن اجلاس میں انھیں بولنے کیلئے کتنا وقت ملے گا‘۔دریں اثنا ، کشمیری مہاجر پنڈتوں کے نمائندے پنون کشمیر نے کہا کہ ان کی برادری کی شرکت کے بغیر کشمیر سے متعلق کوئی بھی اجلاس نامکمل ہوگا۔انہوں نے کہا کشمیری پنڈت کشمیر میں ہونے والے تشدد کے بنیادی شکار ہیں اور اس کے نتیجے میں ہمیں آل جماعتی اجلاس کا ایجنڈا جاننے کی ضرورت ہے۔