کرالہ گنڈ (کپوارہ)//فورسز کی جانب سے پلٹ گن کے استعمال سے طالب علم کی ہلاکت کے خلاف قاضی آ باد میں زبرست غم و غصہ پایا جارہا ہے جبکہ کرالہ گنڈ میں واقعہ کے خلاف ہڑتال اور اور لوگو ں نے نماز جمعہ کے بعد پر امن جلوس نکالا اور غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا ۔11اپریل پارلیمانی الیکشن کے دوران قاضی آ باد کے پائین علاقوں میں لوگو ں نے پولنگ بوتھوں کا کم ہی رخ کیا اور اس دوران فورسز اور نوجوانوں کے دوران معمولی پتھرائو کے واقعات پیش آئے ۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ پورے علاقہ میں جب پارلیمانی الیکشن کے لئے ووٹ ڈالنے کا وقت اختتام کو پہنچ گیا تو ا س دوران جو ں ہی فورسز کی بھاری جمعیت گا ڑیو ں کے ذریعے منڈگام کرالہ گنڈ کے نزدیک پہنچ گئیں تو وہا ں نوجوانو ں نے فورسز پر پتھرائو کیا جس کے دوران نوجوانو ں اور فورسز کے درمیان جھڑپو ں کا سلسلہ شروع ہوا ۔مقامی لوگو ں کا کہنا ہے کہ فورسز اہلکار بستی میں داخل ہو گئے اور بے تحاشا پلٹ کا استعمال کیا جس کے دوران جماعت ہفتم کا طالب علم اویس احمد میر ولد مشتاق احمد میر کے سر میں پلٹ لگ جانے سے شدید زخمی ہوئے ۔مقامی لوگو ں نے فوری طور انہیں اسپتال پہنچایا لیکن اویس اسپتال پہنچنے سے قبل ہی دم تو ڑ بیٹھا ۔اویس کے جا ں بحق ہونے کی خبر پھیلتے ہیں آ س پاس علاقوں کے لوگ منڈی گام پہنچ گئے اور ہزارو ں کی تعداد میں لوگو ں نے ان کے نمازجنازہ میں شرکت کی اور انہیں پر نم آنکھو ں سے سپرد خاک کیا ۔اس دوران جمعہ کو کرالہ گنڈ علاقہ میں ہڑتال رہی جس کی وجہ سے تمام کاروباری سرگرمیاں ٹھپ ہو کر رہ گئیں جبکہ لوگو ں نے نماز جمعہ کے بعد منڈی گام سے کرالہ گنڈ بازار تک ایک پر امن جلوس نکالا جس کے دوران بارہ مولہ ہندوارہ شاہراہ پر گا ڑیو ں کی نقل و حمل کچھ دیر کے لئے متاثر ہوئی ۔علاقہ میں دوسرے روز بھی انٹر نیٹ سروس بند رہی ۔
منڈی گام کی فضا سوگوار ،والدین پر قیامت ٹوٹ پڑی
منڈی گام (قاضی آ باد)//اشرف چراغ //اویس کی ہلاکت پر جہا ں منڈی گام اور اس کے مضافاتی دیہات میں ماحول سوگوار تھا وہیں اویس کے غم سے نڈھال والدین کا حال بے حال تھا ۔اویس جماعت ہفتم کا طالب علم تھا لیکن پورے علاقہ میں اپنی قابلیت کا لوہا منوایا تھا ۔اویس کے بدقسمت والد مشتاق احمد میر اپنے لخت جگر کی جدائی پر خون کے آنسو روہا ہے اور اپنے دل کو طفل تسلی دیکر ان لوگو ں سے بات چیت کر تا تھا جو تعزیت کیلئے آرہے تھے ۔اویس کے گھر میں دن بھر لوگو ں کا تانتا بندھا رہا لیکن اویس کے بڑی ہمشیرہ عشرت اپنے بھائی کے صدمہ سے دلبرداشتہ ہوگئی ۔عشرت فائنل ائیر کی طالبہ ہے لیکن اپنے بھائی کے ان راہو ں پر ان کی نظریں ٹکی تھیں جہا ں سے سکول جاتا تھا ۔اویس کے والد مشتاق احمد میر نے کشمیر عظمیٰ کو بتا یا کہ اویس کی جدائی نے میرا سب کچھ لٹا دیا ۔انہو ں نے کہا کہ21جنوری 2008میں میرے مکان کو اس بناء پر زمین بوس کر دیا گیاکیونکہ یہا ں جنگجونے پناہ لی اورجھڑپ کے دوران عدم شناخت جنگجو جا ں بحق ہوئے۔انہو ں نے بتایا کہ جب فوج نے پورے گائو ں کو محاصرے میں لیا ۔انہو ں نے مزید کہا کہ فوج نے میرے مکان کو تباہ کر ڈالا اور ہمیں سر چھپانے کے لئے جگہ نہیں رہی ۔انہو ں نے کہا کہ چلہ کلان کی یخ بستہ ہوائو ں میں بھی ہم نے اس وقت کھلے آسمان کے تلے راے گزاری اور جب فوج نے اپنا محاصرہ ختم کیا تو میرے والد محمد افضل میر اور بھائی محمد شفیع اور مجھے فوج نے حراست میں لیا جس کے بعد میرے والد اور بھائی کو 17روز بعد رہا کیا تاہم مجھے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیل میں بند کیا اور جب7مہینے کے بعد رہا کیا گیا تو میں نے آج تک محنت مزدوری کر کے اپنی دو بیٹوں اور دو بیٹوں کو پڑھانے کے لئے سب کچھ دائو پر لگایا اور اویس میر ا سب سے چھو ٹا مگر پیار ابیٹا تھا کیونکہ ایک تو وہ ذہین تھا دوم انہو ں نے اپنی زندگی کے حوالہ سے بہت سے خواب سجائے تھے لیکن اس نے اپنے سارے ارمانو ں کو اپنے ہی دل میں دفن کیا ۔مشتاق احمد کا مزید کہنا ہے کہ 11اپریل کو علاقہ میں حالات پرامن تھے اور لوگ ووٹ بھی ڈالتے تھے لیکن شام کے وقت اویس اپنے ہی گھر کے نزدیک کرکٹ کھیل رہا تھا کہ یہا ں سے فورسز کی گاڑیا ں گزریں اور کسی نے ان پر پتھر مارا جس کے بعد فورسز اہلکارو ں نے بے تحاشا پلٹ گن اور ٹائر گیس شلنگ کی اور اویس پلٹ کا شکار بن گیا ۔انہو ں نے کہا کہ لوگو ںنے خون میں لت پت میرے لخت جگر اویس کو اٹھا کر اسپتال لے جانے کی کوشش کی لیکن وہ راستے میں اپنی زندگی کی جنگ ہار کر ہم سب کو رو ٹھ کر چلا کیا ۔مشتاق کا مزید کہنا ہے کہ یہ میرے گھر پر دوسری قیامت بپا ہوئی ۔انہو ں نے کہا کہ پہلے میرے آشیانے کو اجاڑا گیا اور اب میرے بیٹے کو مجھ سے جد کر کے میری دنیا ہی اجڑ گئی ۔انہو ں نے مطالبہ کیا کہ معاملہ کی جو ڈیشنل تحقیقات عمل میں لائی جائے تاکہ ان فورسز اہلکارو ں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے اور انہیں کڑی سے کڑی سزا دی جائے ۔انہو ں نے کہا کہ پھول کا کیا قصور تھا جنہیں کھلنے سے پہلے ہی تو ڑ دیا گیا ۔