ریاستی حکومت پیشہ وارانہ اور تکنیکی تعلیم کو فروغ دینے کے دعوے کررہی ہے تاہم ان کالجوںمیں نہ ہی تدریسی عملہ تعینات ہے اور نہ ہی بنیادی ڈھانچہ میسر ۔ اس حوالے سے قانون ساز کونسل میں پیش ہوئے اعدادوشمارجہاں اس شعبے کی ابترصورتحال کا خلاصہ پیش کرتے ہیں وہیں اس سے یہ بات بھی عیاں ہوجاتی ہے کہ پیشہ وارانہ اور تکنیکی تعلیم کا خواب دکھلاکر جن طلباء کو ان اداروں میں داخلہ دیاگیاتھا ،ان کا مستقبل تاریکی کی نذر ہونے کا اندیشہ ہے ۔واضح رہے کہ ریاست میں اس وقت 24پالی ٹینکیک کالج کام کررہے ہیں جن میںسے 18کاقیام 2012میں سکل ڈیولپمنٹ کوفروغ دینے کے مقصد سے عمل میں لایاگیا۔حکومت نے کالج تو قائم کردیئے لیکن یہ کبھی نہیں سوچاکہ ان میں داخلہ لینے والے طلباء کوتعلیم و تربیت فراہم کرنے کےلئے تدریسی عملے کی بھی ضرورت ہے ۔سرکار کی طرف سے پیش کئے گئے اعدادوشمار کے مطابق ان کالجوںمیں 654اسامیوں کی ضرورت ہے جس میںسے 401معرض وجود میں لائی گئی ہیں اوران میںسے 293اسامیاں خالی پڑی ہوئی ہیں ۔طلباء کی تعلیم کا بندوبست اکیڈمک طور پر کیاجارہاہے جس کیلئے عارضی لیکچرار اور انسٹرکٹر وغیرہ تعینات کئے جاتے ہیں لیکن ان کو ماہانہ 9ہزار روپے سے زائد تنخواہیں نہیں دی جاتی ۔ بھلے ہی جموں اور سرینگر شہروں میں قائم ان کالجوں میں عملہ کچھ حد تک تعینات ہولیکن دور دراز اضلاع میں قائم ہوئے نئے کالجوں کی تو مٹی ہی پلید ہے جہاں ایسا لگتاہے جیسے تدریسی عملے کا اکال پایاجارہاہو۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست میں ان کالجوں کا قیام وقت کی اہم ترین ضرورت تھی لیکن حکومت کی طرف سے تدریسی عملہ کی تعیناتی اور بنیادی ڈھانچے کی فراہمی نہ کرنا طلباء کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ سے کچھ کم نہیں۔مستقل عملہ کی تعیناتی نہ ہونے کے نتیجہ میں ہر سال عارضی عملہ کی تعیناتی کا بندوبست ہوتا ہے اور پھر کلاسیں شروع کی جاتی ہیںاورکئی ماہ اس عمل میں ہی بیت جاتے ہیں۔پیشہ وارانہ اور تکنیکی تعلیم کا خواب دیکھنے والے طلباء ایسی مصیبت میں پھنس چکے ہیں جہاںسے وہ نہ آگے جاسکتے ہیں اور نہ ہی پیچھے مڑ کر دیکھ سکتے ہیں۔پہاڑی اور دور دراز اضلاع کے پالی ٹیکنیک کالجوں کا حشر یہ ہے کہ وہاں پرطلباء کو کسی بھی قسم کی سہولت میسر نہیں ۔ریاستی حکومت آئے روز یہ دعوے کرتے تھکتی نہیں کہ اس نے پیشہ وارانہ تعلیم کے شعبے کی ترقی کیلئے کئی طرح کے اقدامات کئے ہیںلیکن یہ اعدادوشمار سب کچھ بیان کرتے ہیں کہ پالی ٹیکنیک کالج کتنے برے دور سے گزر رہے ہیں اور جن اداروں کا پھلنے پھولنے کا وقت تھا ،وہ ابتداء سے ہی مرجھانے لگے ہیں ۔افسوسناک امر ہے کہ پیشہ وارانہ اور تکنیکی تعلیم کی ضرورت کا احساس تو ہر ایک کرارہاہے لیکن ارباب اقتدار میں کوئی بھی اس جانب توجہ دینے کیلئے تیار نہیں ۔یہ اعدادوشمار سرکار کیلئے چشم کشا ہیں اور ان کالجوںمیں جہاںتدریسی عملے کی تعیناتی عمل میں لائی جانی چاہئے وہیں طلباء کیلئے دیگر سہولیات بھی دستیاب رکھی جائیں تاکہ پونچھ ، راجوری ، ڈوڈہ ، کشتواڑ،رام بن اور ریاسی اضلاع کے طلباء کومقامی سطح پر ہی بہتر تعلیم کی سہولیات فراہم ہوسکیں ۔
! پیشہ وارانہ اور تکنیکی تعلیم کی حالت ِ زار
