ملک منظور
دنیا میں انسان کو جن چیزوں سے چین وقرار، خوشی اور مسرت ، حوصلہ اور قوت یا راحت اور اطمینان ملتا ہے، وہ چیزیں حسن وجمال ،شراب وشباب ،شان و شوکت اور مال و دولت ہیں ۔لیکن ان سب سے زیادہ آجکل انسان کو پیسے سے زیادہ سکون ملتا ہے ۔یہ سچ تو نہیں ہے لیکن لوگوں کا ماننا ہے کہ پیسہ ہے تو سب کچھ ہے ۔پیسہ ہے تو رتبہ ہے ،پیسہ ہے توعزت ہے،پیسہ ہے تو خوشیاں ہیں ،پیسہ ہے تو اثر رسوخ ہے،پیسہ ہے تو طاقت ہے،پیسے سے سب کچھ خریدا جاسکتا ہے یہاں تک کہ کسی کی عزت بھی اور ایمان بھی ۔پیسہ دیکھ کر مولوی ذکر و ازکار بیچتا ہے،سادھو پرشاد بیچتا ہے،مجبور بیٹی بیچتا ہے ،غریب گردہ بیچتا ہے،منصف انصاف بیچتا ہے،وکیل اپنی گفتگو بیچتا ہے،ڈاکٹر بھروسہ بیچتا ہے،قانونکا رکھوالا قانون بیچتا ہے،حکمران رعایا کو بیچتا ہے،انجینئر خلوص بیچتا ہے ۔الغرض پیسے کے لئے لوگ قاتل بن کر مقتول بناتے ہیں ،ظالم بن کر مظلوم بناتے ہیں ۔اسی پیسے کو پانے کے لئے لوگ چوریاں کرتے ہیں ۔اسی لیے یہ بات عام ہوگئی ہے کہ پیسہ بھگوان ہے اور بھگوان کے آگے جھکنا مجبوری ہے ۔پیسوں کے خاطر انسان کیا سے کیا بن جاتا ہے ۔ایمان کو چھوڑ کر شیطان بن جاتا ہے،علم کو چھوڑ جاہل بن جاتا ہے،پیسے جٹانے کے لئے ہزاروں ہتھکنڈوں کو اپنایا جاتا ہے،کاروباری ملاوٹ کر کے نفع کماتا ہے،راشی رشوت لے کر پیسے بٹورتا ہے،دوا فروش جعلی ادویات بیچ کر مال جمع کرتا ہے،مالدار سود پر قرضے دے کر کمائی کرتے ہیں ۔باتصاف ہے پیسے کے خاطر انسان احسن التقویم کے درجے کو چھوڑ کر أسفل السافلین تک پہنچ جاتا ہے ۔بیٹے کی شادی پر لاکھوں کا جہیز اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔پیسوں کے خاطر انسان نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔ انسان طاقت کے حصول کے جنون میں مبتلا ہے اور پھر طا قت کے حصول کے لئے وہ پیسے کو ہی پہلی اور آخری سیڑھی سمجھتا ہے ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ خو ش نصیبی کو بھی دولت سے ہی مشروط کر دیاجاتا ہے،ما دیت پرستی میں غرق اِس دنیا میں خو ش نصیبی کے عجیب ہی انداز سمجھے جا تے ہیں۔دنیا میں خو ش نصیب اُس فرد کو سمجھا جاتا ہے جو منہ میں سونے کا نوالہ لے کر پیدا ہوا ہو یا جو حکمران کے گھر پیدا ہو اور اُسے وراثت میں تا ج شا ہی پہنا کر اقتدار پر بٹھا دیا جائے۔ اگر کو ئی وسیع عریض کا روباری سلطنت کا مالک ہو شہروں میں پھیلا ہوا کا روبار ہو، بنگلے،مہنگی گا ڑیاں،فارم ہاؤسز، لمبے چوڑے بینک بیلنس، یعنی موجودہ دور کا ما دیت پرستی میں غر ق انسان ہر کامیابی یا مسئلے کا حل پیسے کو سمجھاجاتا ہے۔ اپنی ذات کا اظہار دوسروں پر،حکو مت کی خوا ہش ‘برادری معاشرے میں نا ک اونچی رکھنے میں پیسے کو ہی کلیداعظم سمجھاجاتا ہے، یعنی پیسوں کی بھرمار ہر مسئلے اور کامیابی کی چابی ہے ۔لیکن کیا دولت ہی خو ش نصیبی کی ضامن ہے ؟نہیں ایسا بالکل بھی نہیں ہے، کیونکہ پیسوں سے سب کچھ حاصل نہیں کِیا جا سکتا۔پیسوں سے ہم کھانے کی چیزیں خرید سکتے ہیں لیکن بھوک نہیں۔ دوائی خرید سکتے ہیں لیکن صحت نہیں۔ آرام دہ صوفے خرید سکتے ہیں لیکن نیند نہیں۔ ڈگری خرید سکتے ہیں لیکن علم و دانشمندی نہیں۔ ظاہری خوبصورتی خرید سکتے ہیں لیکن باطنی خوبصورتی نہیں۔ تفریح کا سامان خرید سکتے ہیں لیکن فراحت نہیں۔ دوست بنا سکتے ہیں لیکن رشتے نہیں۔ نوکر خرید سکتے ہیں لیکن وفاداری نہیں۔مطلب صاف ہے پیسے سے انسان پانی خرید سکتا ہے لیکن پیاس نہیں ۔ہوا خرید سکتا ہے لیکن سانسیں نہیں۔مکانسنوار سکتا ہے لیکن قبر نہیں ۔دنیا کے قانون سے بچ سکتا ہےلیکن موت سے نہیں۔اب ذرا اس پہلو پر غور کرکے دیکھتے ہیں ۔
ہر دور میں ایک سے بڑھ کر ایک پیسے والا زمین پر نمو دار ہوا ہے اور بالآخر صفہ ہستی سے مٹ بھی گیا،لیکنآج تک کو ئی دولت کے بل بو تے پر مو ت کو شکست نہیں دے سکا۔ نہ ہی کوئی اپنی جسمانی بیما ریوں اور شکست و ریخت کو روک سکا،نہ کوئی بوڑھا پا روک سکا، نہ کوئی جوانی میں حسن کے شاہکار جسم کو کھنڈر میں تبدیل ہو نے سے روک سکا ،نہ کوئی مضبوط جوان جسم کولرزش اور کمزوری سے روک سکا،سرخ سفید چہرے کو زرد سیا ہ ہو نے سے کوئی نہیں روک سکا۔ نہ کوئی جسم کو فالج ہو نے سے روک سکا۔ نہ سارے جہاں کے ڈاکٹروں لیبارٹریوں ہسپتالوں میں پیسے خرچ کر نے کے بعد کوئی دوبارہ جوانی پا سکا ۔اتنا ہی نہیں بلکہ آج تک کوئی سر کے بالوں کو سفید ہو نے اور گرنے سے نہ روک سکا اور نہ ہی روک سکے گا۔ اِس کے باوجود آدم زاد سمجھنے کے لیے تیا ر ہی نہیں ۔
بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کو سچائی ،ایمانداری،انصاف ،اور بندگی سے سکون قلب حاصل ہوتا ہے ۔پیسوں کے انبار پانے کے بعد صرف خدا دوست انسان ہی استقامت پر کھڑے نظر آئے ورنہ زیا دہ تر پیسوں نے انسان کا دما غ خراب ہی کیا ہے اور انسا ن تکبر غرور گھمنڈ کا شکا ر ہوا۔ اسی غفلت میں غافل انسان ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں خالق کا ئنات مہلت کی رسی کو کھینچ کر اس کوعبرت ناک سبقدیتا ہے۔ حقیقت میں وہی پیسے والا خوش نصیب ہے جو سخاوت سے کام لے ایسے آدمی کے لئے پیسے زحمت کے بجا ئے رحمت اور سعادت بن جا تے ہیں۔ قارون اور عثمانؓ بن عفان میں یہی فرق تھا، قارون دولت کے گھمنڈ میں مبتلا ہو کر ذلت کی بد بو دار وادی میں دفن ہوا اور خلیفہ سوم قیا مت تک کے لئے شہرت کا ستارہ بن کر چمکے۔
[email protected]