پیرپیران حضرتِ شیخ سیّد عبدالقادر جیلانی ؒ یاد ِاسلاف

oplus_0

بو نعمان محمد اشرف بن سلام

الا ان اولیاء اللہ لاخوف علیھم ولاھم یحزنون ہ (سورہ یونس) ترجمہ کنزالایمان:’’سن لو بے شک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم۔‘‘
سیداوّلیا محبوب سبحانی غوث اعظم پیر پیران حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی ؒ باغ اسلام میں ایساگلاب کھلا ،جس نے اپنے خوشبو ئے سے سارے عالم کو مہکادیا ہے اورعلوم کی تاریخ میںآپؒ کی شحضیت اتنی جامع اور نمایاںحیثیت کی حامل ہے کہ تمام نامور فقہا، علماء ودانشوروں اور عرفاء نے آپ ؒ کی عظیم شحضیت اور علمی مرتبہ کی بھر پور ستائش بھی کی ہے اور اُن کی علمی عظمت اور فیضل وکمال کو عدیم المثال قرار دیا ہے۔
غوثیت بزرگی کا ایک خاص درجہ ہے، لفظ ‘‘غوث‘‘ کے لغوی معنی ہیں ’’فریادرس یعنی فریاد کو پہنچنے والا‘‘ چونکہ حضرت شیخ سیدعبدالقادر جیلانی ؒ غریبوں، بے کسوں اور حاجت مندوں کے مددگار ہیں، اسی لئے آپؒ کو ‘‘غوث اعظم‘‘ کے خطاب سے سرفراز کیا گیا اور بعض عقیدت مند آپ کو ‘‘پیران پیر دستگیر‘‘ کے لقب سے بھی یاد کرتے ہیں۔
اولیاء کرام بشمول حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی ؒکا تذکرہ کرتے ہوئے عموماً ہمارے زیر نظر اْن کی کرامات ہوتی ہیں اور ہم ان کرامات سے ہی کسی ولی کے مقام و مرتبہ کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ صحیح اور درست اسلوب یہ ہے کہ ہم اولیاء کاملین کی کرامات تک ہی اپنی نظر محدود نہ رکھیں بلکہ اُن کی حیات کے دیگر پہلوئوں کا بھی مطالعہ کریں کہ اُن کا علمی، فکری، معاشرتی، سیاسی اور عوام الناس کی خیرو بھلائی کے ضمن میں کیا کردار ہے۔
حضرت عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اے فرزند، تجھے دنیا میں بقا اور عیش کے لئے نہیں پیدا کیا گیاہے۔ اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ امور کو تبدیل کردے۔تو نے سمجھ لیا ہے کہ اللہ اتعالیٰ کی اطاعت کے لئے لا الہ الاللہ محمد رسول اللہ پڑھ لینا کافی ہے، یہ تیرے لئے اسی وقت مفید ہوگا جب تو اس کے ساتھ کچھ اور امور (اعمالِ صالحہ) ملائے گا۔ جب تو گناہوں ،لغزشوں میں مبتلا اور احکام الہٰیہ کی مخالفت کا مرتکب ہوگا، ان پر اصرار کرے گا ، نماز، روزہ، صدقہ اور افعال خیر ترک کرے گا تو یہ دو شہادتیں تجھے کیا فائدہ دیں گی۔ جب تو نے لاالہ الاللہ کہا تو یہ ایک دعویٰ ہے، تجھے کہاجائے گا کہ اس دعوے پردلیل کیاہے ؟اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کا حکم دیا ہے ان کا ادا کرنا، جن سے منع کیا ہے ان سے باز رہنا،آفتوں پر صبر کرنا اور تقدیرِ الٰہی کو تسلیم کرنا اس دعویٰ کی دلیل ہے۔جب تونے یہ عمل کئے تو اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص کے بغیر مقبول نہ ہوں گے۔ قول بغیر عمل کے اور عمل بغیر اخلاص اور اتباع سنت کے مقبول نہیں۔شیخ سید عبدالقادر جیلانی ؒ کو اولیاء اللہ میں ایک ممتاز اور سرخیلِ صوفی ہیں جن کا گروہِ اولیا ء میں بہت اونچا مرتبہ ہے اور ولایت و تصوف میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ماخوذ۔
سیّدنا غوث الاعظم رحمتہ اللہ علیہ کی پوری زندگی دین و شریعت ،اور اتباع سنت کی حسین تصویر تھی اور بدعات و خرافات کی اندھیریوں میں اور بے دینی و بے راہ روی کے تاریک ماحول میں اصلاح و ہدایت کا ایک روشن مینار تھی، کی بزرگی اور ولایت کو شروع سے پوری دنیاتسلیم کرتی آئی ہے اور اللہ تعالی نے آپ کے ذریعہ اصلاح وہدایت کا بڑا کام لیا۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ اللہ والوں کی زندگیاں صرف بیان کرنے اور جلسوں میں سنانے کے لئے نہیں ہیں بلکہ ان کی باتوں پر ،ہدایتوں پر اور تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اللہ تعالی کے قرب کو حاصل کرنے اور دل کی ویران دنیا کو آباد کرنے اور تعلق مع اللہ کو مضبوط کرنے کے لئے ایک نسخہ اکسیر ہوتی ہیں۔لہٰذا ہمارے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم صرف ان کی حیات کو سننے اور سنانے سے زیادہ اور زبانی محبت وعقیدت کا اظہار کرنے کے بجائے ان کی قیمتی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے والے بنیں اور جس راہ پر چل کر وہ خدا کے نیک بندے بنے ،اسی راہ کو اختیار کرنے والے بنیں ۔شیخ سیدعبدالقادر جیلانی ؒ نے اپنی تعلیمات اور ارشادات میں انسانوں کو خدااور نبی ؐ سے جوڑنے اور دل کی دنیا کو آباد کرنے کی بہت سی باتیں بیان کی ہیں ،خلافِ دین باتوں سے بچنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شریعت میں نئی چیزوں کو ایجاد کرنے اور رسم و رواج کو عام کرنے سے سختی سے منع کیا ہے۔آپؒنے طالبین ِ حق کے لئے گرانقدر کتابیں تحریرکیں، جن میں غنیہ الطالبین،الفتح الربانی والفیض الرحمانی،ملفوظات،فتوح الغیب،جلاء الخاطر،بہجتہ الاسرار،الحدیقہ المصطفویہ،الرسالتہ الغوثیہ شامل ہیں۔
قطبِ ربانی غوث الاعظمؒ غنیتہ الطالبین میں متصوف کے بارے میں لکھتے ہیں۔متصوف وہ ہے جو صوفی بننے کیلئے ریاض کرتا ہے اور اتنی کوشش کرتا ہے کہ وہ آخر کار صوفی بن جاتا ہے، پس بج وہ مشقتیں اٹھا سکتا ہے اور اس قوم کے طریقہ کو اپنا شعار بنالیتا ہے اور لوگوں کی راہ اختیار کرلیتا ہے وہ متصوف کہلا تاہے ،جس طرح قمیض پہننے والے اور زرہ باندھنے والے کو کہاجاتا ہے کہ اس نے قمیض پہنی اور زرہ باندھی اور اسکو صاحب زرہ کہہ کرپکارتے ہیں اسی طرح زہداختیار کرنے والے کو تز ہد کہتے ہیں۔اور جب وہ اپنے زید میں اس کمال پر پہنچ جاتا ہے کہ تمام اثیاء کو ہیچ سمجھنے لگتا ہے تواس وقت اسکو زہد کہا جاتاہے، وہ اس وقت اس کے سامنے ایسی بہت سی باتیں آتی ہیں جنکو نہ وہ چاہتا ہے اور نہ ان سے نفرت کرتاہے، وہ ان تمام باتوں میں احکام الہی کی پابندی کرتاہے اور مفل الہی کا منتطر رہتا ہے، اسی مثال پرمتصوف اور صوفی کو قیاس کرلینا چائے۔صوفی میں جب یہ وصف پیدا ہوجائے گا تو اسکو صوفی کہنے لگے۔لفظ صوفی فوعل کے وزن پر ہے۔ اور مصافات سے مشتق ہے اس اعتبار سے صوفی کے معنی ہوں گے وہ ایک بندہ جس کو اللہ تعالیٰ نے صفائے قلب عطافرمائی۔صوفی وہ ہے جو نفس کی آفتوں اور اس کی براے سے خالی ،خداکے نیک راستے پر چلنے والا ،حقالق کو گرفت میں لینے والا اور اپنے دل کو مخلوق کے درمیان غیر متحرک محسوس کرنے والا ہو۔
پروفیسرڈبلوبراوئے نے انسائیکلوپیڈیاآف اسلام اپنے مضمون میں غنیتہ الطالبین کے سلسلے میں رقمطراز ہے کہ یہ دور تھا ،جس میں حضرت سید عبدالقادر جیلانی ؒ نے اپنے مشن کا آغاز کیا، وہ اپنی تصنیف غنیتہ الطالبین طریق و الحق مطیہ عہ قاہرہ 1304ھ ایک عالم نظرآئے ہیں۔کتاب کی ابتدامیں وہ ایک مسلمان کے اخلاقی اور سماجی فرالض بیاں کرتے ہیں۔وہ حنبلی نظرسے ایک ایسا دستورالعمل مرتب کرتے ہیں جسکا جاننا ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے۔ اس میں 73 فرقوں کا تذکرہ بھی کیا ہے اور کتاب کو طریق تصوف کے بیان پر ختم کیا ہے۔خصلت میں فرماتی ہے۔ کینہ ،نافرمانی اور تکبر کو دل سے نکال دے۔ظاہر وباطن اور ہر حال میں اس کی زبان یک طرفہ ہو۔ظاہر وباطن میں اس کا قصد بھی ایک ہی کسی کونصحت کرنے والا نہ ہو۔اگر لوگوں میں سے کسی کو کسی کی برائی کرتا سنے یا اس کے ساتھ خود بھی برائی کرنے میں شریک ہویا کسی کی برائی سن کراس کا دل خوش ہو تو یہ امر عابددں اور زاہددں کی سعادت کو ختم کردیتا ہے۔ جن لوگوں کو خدا نے تو فیق دی ہے وہ اپنی زبان کو نگاہ میں رکھتے ہیں اور اپنی رحمت سے خدانے انکے دل منور کردیے ہیں ،وہ ان باتوں سے بچتے ہیں۔اور فرماتے ہیں ! اے اللہ کے بنددں پر ڈاکہ ڈالنے والو! تم کھلے ظلم اور کھلے نفاق میں مبتلا ہو،اہل دل کی صحب اختیار کرو تاکہ تم کوبھی دل نصیب ہو۔لیکن تمہارے پاس تو دل ہے ہی نہیں ،تم تو سراپا نفس و طبیت اور ہواوہوس ہو!۔آپؒ پر بعداد کی معاشرتی سماجی اور دینی زندگی کی بگڑوتی ہوئی حالت پوشیدہ نہیں تھی ،ظلم وستم جبرواستبداوفواحش دتن آسانی عیش وحرب میں دڈبی ہوئے زندگی کو ہلاکت کے بھنورسے باہر نکال کر لانا ہی آپؒکا مقصد داصل تھا اور اسی لئے آپؒنے بعداد کو اپنی دعوت کا مرکز بنایا تھا۔
سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ کے دور میں جس فوج نے بیت المقدس فتح کیا، اس میں شامل لوگوں کی بھاری اکثریت غوث الاعظمؓ کے تلامذہ کی تھی۔ گویا آپؓ کے مدرسہ سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ صرف متہجد ہی نہیں بلکہ عظیم مجاہد بھی تھے۔ صلاح الدین ایوبی کی آدھی سے زائد فوج حضور غوث الاعظم ؒ کے عظیم مدرسہ کے طلبہ اور کچھ فیصد لوگ میں وہ تھے جو امام غزالی ؒ کے مدرسہ نظامیہ کے فارغ التحصیل طلبہ تھے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے چیف ایڈوائزر امام ابن قدامہ المقدسی الحنبلی ، غوث الاعظم ؒکے شاگرد اور خلیفہ ہیں۔ آپؒ براہِ راست حضور غوث پاک کے شاگرد، آپ کے مرید اور خلیفہ ہیں۔ گویا تاریخ کا یہ سنہرا باب جو سلطان صلاح الدین ایوبی نے رقم کیا ،وہ سیدنا غوث الاعظمؓ کا فیض تھا اور امام ابن قدامہ المقدسی الحنبلی اور ان کے چچیراہ بھائی امام عبد الغنی المقدسی الحنبلی دونوں حضور غوث الاعظم ؓ کے تلامذہ میں سے ہیں۔ یہ دونوں فقہ حنبلی کے جلیل القدر امام اور تاریخ اسلام کے جلیل القدر محدث ہیں۔ ماخوذ
سلطان اولیاءشیخ سید عبدالقادر جیلانی ؒ کا اسم مبارک عبدالقادر کنیت ابو محمد اور القابات محی الدین، محبوب سبحانی، غوث الثقلین، غوث الاعظم ،سید الیاء ہیں۔ تاریخی معلومات ہے کہ غوث پاک ؒ نے ابتدائی سترہ برس اپنے وطن میں ہی گزارے ۔نو برس بعداد میں رہے جہاں آپ ؒ نے علوم ظاہری وباطنی کی تکمیل کی۔پچیس برس عراق کے بیایابانوں اور جنگلوں میں ریاضات ومجاہدات کے ذریعہ سے منازل سلوک طے کئے ۔چھتالیس برس تک ارشاد وہدایت اعلائے کلمتہ الحق اور اصلاح خلق میں مصروف رہے ۔ شیخ سیدعبدالقادر جیلانی ؒ کا سلسلہ نسبت سے حسینی سید ہیں۔
بلا آخر جو کوئی اس دنیا میں آیا اُس کو اللہ کے حکم مطابق اپنے وقت پر اللہ کی طرف واپس جانا پڑتا ہے ،اسی طرح یہ عظیم المرتب ولی کامل، شریت کے علمبردار طریقت ومعرفت کے رہبراکانوئے برس عمر میں11 .ربیع الثانی 561ھ میںواصل بحق ہوئے۔ مدرسہ میں سائبان کے نیچے آپ کا جسم اقدس سپردِ خاک کیا گیا۔ بغداد شریف میں آپ کا مزار مبارک مرجع خلائق ہے۔ سیّدنا محی الدین عبد القادر جیلانی ؒ نے چار شادیاںکیں اور آپ ؒ کے فرزند شیخ عبدالرزاقؒ فرماتے ہیں ۔میرے والد بزرگوار کے یہاں انچاس بچے پیداہوئے، جن میں بیس لڑکے اور باق سب لڑکیاں۔سب سے بڑے صاحبزادہ شیخ عبدالوہاب ؒتھا ، جنہوں نے اپنے والد بزرگوار کے ساتھ انہیں کے مدرسہ میں درس وتدریس رہے اور والد بزرگوار کے انتقال کے بعد وعظ تبلیغ جاری رکھی اور شیخ حافظ عبدالرزاق بڑے بلند پائے کے عالم اور بزرگ گزرے ہیں۔حضرت محبوب سبحانی ؒ طالبین ِ حق کے لئے گرانقدر کتابیں تحریرکیں، ان میں سے کچھ کے نام درج ذیل ہیں۔غنیہ الطالبین۔الفتح الربانی والفیض الرحمانی۔ملفوظات۔فتوح الغیب۔ کبریت احمر،اسبوع شریف، قصیدہ غوثیہ یہ بھی عربی میں ہے اور غنیتہ الطالبین بہت زیادہ مشہور ہیں۔
ا سی عقیدت کے ساتھ یہ دعاکرتا ہوں کہ اے اللہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ پوری قوم کو توحید و سنت رسول رحمتؐ کیساتھ ساتھ صالحین واولیاء کاملین کی اتباع کی توفیق عنایت فرمائےاوروادی کشمیر کے تمام لوگوں کو پریشانیوںاور مصیبتوں سے محفوظ رکھ اور ہماری ہر نیک آرزو کو پورا فرمادے۔ آمین
( رابطہ۔ اومپور بڈگام 9419500008 )