پھر وہی تلاش

کلائمکس۔۔۔۔۔۔۔۔پھر وہی تلاش۔۔۔۔۔۔۔ایک نئے افسانے کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تخلیق کار۔۔۔۔۔۔۔گلی کو چوں‘صحنوں‘بیابانوںسے ہو کرحالات کا مشاہدہ کرتا رہتا۔کہیں خون آلودہ منظردیکھ کر تلملا اُٹھتاتوکہیں شادیانے بجتے دیکھ خوش بھی ہو اُٹھتا۔مگر حزن ویاس میںدبی آرزوئیںدرانی ؔصاحب کولکھنے کیلئے اُکساتی رہتیں ۔وہ اپنے مشاہدے کی بنا پر ہی افسانے تخلیق کرتے۔ان کے گڑھے افسانوں میںزیادہ تردرد اور کرب میںڈوبی سسکتی بلکتی آوازیں ہی سنائی دیتیں۔درانیؔ صاحب یہ دکھ درداپنے افسانوں میں لڑیوں کی طرح پرو کرمنظر عام پر لاتے رہتے۔جنت نما وادی کاچپہ چپہ خون آلودہ‘سینہ سینہ چھلنی۔Genocideسفید کبوتروں کا۔۔۔بھلا کیوں۔۔؟یہ بات سمجھ سے باہر تھی۔ان سفید کبوتروں کی پریشانی روز بروز بڑھتی ہی جارہی تھی
درانیؔ صاحب زیادہ تر دکھ بھرے افسانے ہی لکھتے رہتے۔وہ لکھتے لکھتے سوچتے رہتے
’’یہ افسانے پڑھ کر شاید کوئی ان سفید کبوتروں کی مدد کے لئے آگے آئے اور جنت نما وادی کے طول و عرض پر بکھرے پڑے خون کے دھبے بھی دھو ڈالے جنہیں دیکھ کر ان سفید کبوتروں کی جان نکلتی ہی جا رہی ہے اور قتل وغارت گری کرنے والے کا لے دیوئوں کے ہاتھ پیر سُن پڑیں۔‘‘
تخلیق کار۔۔۔یہ سب کچھ لکھنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے۔درانی ؔ صاحب سفید کبوتروںکی حالت بے بسی پرخون کے آنسوں روتے رہتے۔وہ سوچتے۔
’’اس جنت نما وادی سے کالے دیوئوں کاصفایا کرنا لازمی ہے جبھی سفیدکبوترچین کی سانس لے سکیں گے اور تبھی ان کے بُشرے چمک اُٹھیں گے۔فصل بہار جگمگا اُٹھے گی۔ورنہ کیا بہار ‘کیا خزاں۔‘‘
لکھتے لکھتے ان کے ہاتھ کبھی نہیں تھکتے۔مگرمن ہی من میں سوچتے رہتے۔
’’آخر کب تک میں دکھ بھرے افسانے لکھتا رہوں۔ ان افسانوں کو کوئی کب تک سنتا رہے۔ ان کے گاہک بھی ایک دن غائب ہو جائیں گے۔یہ رومانس کا دور ہے چیل کوے، تیتر مور سب اڑوس پڑوس میںمزے سے رہ رہے ہیںیہ سفید کبوتر تو دن بہ دن ذہنی مریض بنتے جارہے ہیں۔
درانی ؔصاحب یہ دکھ بھرے افسانے لکھتے لکھتے اُکتا سے گئے تھے یہ سب سوچنے کے بعد بھی وہ لکھتے جاتے کیونکہ وہ ایک تخلیق کار تھے اور ا ن سفید کبوتروں کا درد ان سے سہا نہیں جاتا۔وہ ہر دم ہی سوچ کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب کرایسے ایسے افسانے تخلیق کرتے کہ عقل دنگ رہ جاتی۔ان کے ایک افسانے کے کلائمکس میں لکھا تھا کہ۔۔۔۔
’’ چیل کوئوں نے فضا کی وسعتوںکو تقسیم کرکے اپنی اپنی حدیں مقرر کر لی ہیں۔ اب وہ آرام سے رہ رہے ہیں۔‘‘
اس دن ڈاکٹر جاوید بھی انہیں مبارک باد دینے آئے تھے۔ ان کی آمد پر درانی ؔ صاحب من ہی من سو چتے رہے
’’آج ضرور کوئی نیا موضوع لے کر آئے  ہونگے۔‘‘
وہ جوں ہی نز دیک پہنچے تو درانی صاحب بولے۔
’’تشریف رکھئے ڈاکٹر صاحب۔‘‘
’’کیا کمال کا افسانہ لکھا تھا کلائمکس پڑھتے ہی میرے ہوش اُڑ گئے۔’’چیل کوئوں نے فضا کی وسعتوں کی حد بندی کر لی ہے‘‘ آپ تو زمین پر رہتے ہوئے بے کراں فضائوں کی خبریںدیتے ہیں۔ میں آپ کا بہت گرویدہ ہوا ہوں۔‘‘
’’ڈاکٹر صاحب رہتے تو ہم زمین پر ہی ہیںمگر سوچ کی اُڑان اُنچی بھرتے ہیں‘‘۔
’’درانیؔ صاحب آپ نے کمال کا افسانہ تخلیق کیا ہے۔ چیل کوئوں کے قصے کو ہی ختم کر دیا۔آپ واقعی کمال کے تخلیق کار ہیںفن پارے تخلیق کرنا کوئی آپ سے سیکھے۔‘‘
’’ڈاکٹر صاحب اب یہ چیل کوے ایک دوسرے سے بے فکر     ہو کر رہ رہے ہیں۔‘‘
’’آپ کے افسانوں کی ایک بڑی خاصیت ہے آپ ایسی جگہ پر قلم روک لیتے ہیں کہ قاری سوچنے پرمجبور ہوجاتا ہے‘‘
’’ارے بھئی !اگر تھوڑی بہت ذہنی مشقت قاری بھی کرے توافسانے کا حسن بڑھ جائے گا۔‘‘
کچھ دیر سوچنے کے بعدڈاکٹر صاحب بولے۔
درانیؔصاحب آپ کی کالے دیوئوں والی کہانی کاکلائمکس تکمیل کو پہنچا ہے کہ نہیں۔۔۔۔۔یہ کالے دیو اب کچھ زیادہ ہی خون کے پیاسے ہوگئے ہیں۔یہ ان سفید کبوتروں کے جوان بچوں کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑے ہیںیہ ان کا Genocide کرتے ہیں۔ ایک دن یہ ختم ہی ہو جائیں گے اور گھروں کی چھتیں سونی سونی پڑینگیں۔‘‘
’’ہاں ! ڈاکٹر صاحب Genocide۔۔۔۔۔۔۔ان کا Genocide کر کے یہ اپنی ہی ذات برادری کے اور دیوئوں کو بلانا چاہتے ہیںسفید کبو تر بہت پریشان لگ رہے ہیں۔‘‘
’’آپ کے خیال میں یہ سفید کبوترGenocideسے کیسے بچ سکتے ہیں۔‘‘
’’ڈاکٹر صاحب! لوہا لوہے کو کاٹتا ہے اور ۔۔۔ہاں وہ کہانی تکمیل کو پہنچ چکی ہے۔کیا ہے کہ۔۔۔‘‘
ایک دن سفید کبوتروں نے میٹنگ بلائی۔ایک بوڑھے کبوتر نے اپنی رائے د یتے ہوئے کہا۔
’’ہمارا رنگ سفید ہے ہم جوں ہی پرواز کرنے نکلتے ہیںتو یہ کالے دیو ہمیںدور سے دیکھ لیتے ہیںاور وار کرنے میں ذرا سی بھی دیر نہیں لگاتے۔ میری مانو تو ہمیں ابابیلوں سے دوستی کرکے ان کی مدد لینی چاہیے۔وہ رنگ میں ان ہی جیسی ہیں اور وہ ان کی صفوں میں گھس کروار کرسکتی ہیںچھوٹے چھوٹے کنکروں سے۔‘‘
یہ سن کر چاروں جانب غڑغوںغڑغوںکا شور مچ اٹھا۔کبوتروں کے چہروں سے خوشی جھلکنے لگی۔چنانچہ پھر ایسا ہی ہوا۔
ایک دن کالے دیوکھلے میدان میںمجتمع ہو کرسفید کبوتروں کی نسل کا سرے سے ہی صفایا کرنے کا پلان بنا رہے تھے کہ اچانک ابابیلوں نے ان پر دھاوا بول دیا۔ وہ ان پر کنکر گراتی رہیںاور کالے دیوئوں کوبالکل بھی سنبھلنے کا موقع نہیں دیا۔ وہ خون میں لت پت ہو کربالآخرجان بحق ہوگئے اس طرح جنت نما وادی کا لے دیوئوں سے مکت ہوئی اور اس روز سفیدکبوتر ہرطرف پرواز کرتے ہوئے نظر آئے۔ ان کی جیسے عیدتھی۔ ‘‘
’’واہ۔۔۔!درانیؔ صاحب۔ظلم کاانت آخر ہو ہی جاتا ہے۔‘‘
کلائمکس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’درانیؔ صاحب۔۔میں نے ایک نئی دوائی کی کھوج کی ہے۔‘‘
’’آپ ڈاکٹروں کا کام ہی ہے یہی۔۔۔چلئے صاحب آپ کی لیبارٹری چلتے ہیں۔‘‘
دونوںتیز تیز ڈگ بھرتے ہوئے لیبارٹری کی طرف چل دئیے۔۔۔۔۔پھر وہی تلاش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
٭٭٭
دلنہ      بارہمولہ،موبائل نمبر:-9906484847