کیپ ٹاوٗن کے مرکزی شہر میں رہایش پذیردونوں دوست آدؔم اور شہیر کھانا کھانے کے بعد باتیں کرتے رہے۔ کافی وقت بحث کرتے ہوئے گزرا ۔ آخر میں شہیر نے آدم سے کہا، دیکھو دوست کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو عقل اور شعور سے پرے ہوتی ہیں ۔ ان کو ایسے ہی قبول کرنا بہتر ہے۔ میں تو اس بات کو مانتا ہوں کہ ہمارے آ س پاس کچھ ان دیکھی قوتیں ہیں جیسے فرشتے، روحیں وغیرہ ۔ آدم نے بےتکلفی سے جواب دیا ،یار اس وقت میرے پاس بحث کر نے کے لئے وقت نہیں ہے کیونکہ مجھے جانے کی تیاری بھی کرنی ہے۔ چند مہینوں کی بات ہے، پھر تفصیل سے اس بارے میں بات کرینگے۔شہیر نے کہا ٹھیک ہے دوست ،اپنا خیال رکھنا اور آدم کو گلے لگا کر کہا،مجھے اجازت دو، ۔۔۔پھر ملیں گے۔
دوسرے صوبے یعنی مشرقی کیپ ٹاوٗن میں آدم نے اپنا کام شروع کیا۔ وہ اس بات سے بخوبی واقف تھا کہ کام بڑے جوکھم کا ہے اور بہت ہی ہوشیاری سے کرنا ہے۔اس کے لیے حکومت کی جانب سے چار افراد پر مبنی ایک ٹیم تشکیل دی گئی تھی۔ جس میں مقامی پولیس کے کرائم برانچ ونگ کے علاوہ ماہر عفریات (demonologist)اور ماہر روحیات (pneumatologist) جیسی تجربہ کار شخصیات کو بھی منتخب کیا گیا ۔جس میں کرائم برانچ کی طرف سے مسٹرسامیوؔل تھے ، مسٹر ڈیسوزہؔ بحیثیت ماہر روحیات تھے اور مسٹر احمدؔ ماہر عفریات تھے اور آدؔم بحیثیت صحافی جو سارے واقعات اور حادثات کو کوّر کر رہے تھے، شامل تھے تاکہ ایسے جرائم کا پردہ فاش ہو سکے، جو حال ہی میں عورتوں اور بچوں کے ساتھ کالے جادو کی آڑ میں ہو رہے تھے اور عوام کو ایسے جرائم سے آگاہ کیا جائے۔
ٹیم کو کام کرنے میں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑا ،پھر بھی چند مہینوں کے اندر ہی انہوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ بہت سارے گروہ بےنقاب ہوگئے۔ٹیم نے اپنا کام بخوبی نبھایا۔ اسی اثنا میں ایک دن ٹیم کو کسی شخص نےفون کیا اور کہا کہ ’میرے گھر میں کچھ عجیب واقعات ہورہے ہیں، مسٹر احمد نے غور سے فون پر ساری جانکاری لی۔ اس بندے نے اپنا نام ولیمؔ بتایا ۔ احمد نے ٹیم کی طرف سے پوری کوشش کرنے کا وعدہ کیا۔ احمد نے ٹیم کے ساتھیوں کو فون والے کیس کے بارےمیں آگاہ کیا۔ آدم نے فورا کہا ٹھیک ہے! اگلا کیس ولیم کا ہی اٹھائیں گے ۔احمد نے کہا میرے خیال سے یہ جرم سے متعلق معاملہ نہیں بلکہ کچھ اور ہے‘۔ سامیول اور آدم نے ایک ساتھ کہا ’پھر کیا ہے‘۔ احمد نے کہا ’اب وہی جا کے پتہ چلے گا ، میں نے اسکو ایک ہفتہ کے بعد کا وقت دیا ہے۔
ٹیم کے ممبران نے مقررہ وقت پر ولیم کے گھر،جو ایک پار ک کے نزدیک تھا،جاکر اُس کے ساتھ تفصیل سے بات کی۔ ولیم کے بیان کے مطابق وہ اپنی زوجہ مسز سلیناؔ ولیم کے ساتھ اس تین منزلہ مکان میں رہتے ہیں جو انہوں نے دو برس قبل خرید لیا تھا۔ولیم نے واقعات کا عجیب و غریب مزاحیہ خلاصہ پیش کیا ۔اس نے کہا کہ ’یہ چند ماہ پہلے کی بات ہے۔جب میری بیوی برآمدے میں کپڑے سکھانے کے لئے رکھتی تھی تو دوسری صبح جب ہم کچن میں جاتے تھے تو ہم دونوں کے زیر جامہ کھانے کی میز پہ سجائے ہوئے ملتے تھے ،باقی کپڑوں کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں ہوتی تھی۔ہم دونوں کے سوا اس گھر میں تیسرا کوئی نہیں جو ایسا کر سکے‘۔ولیم نے مزید کہا کہ ’کئی روز پہلے کی بات ہے میں آنکھیں بند کرکے بیٹھا تھا مجھے گد گدی ہونے لگی۔مجھے لگا کہ سلینا مجھے گد گدی کر رہی ہے ۔میں نے چلا کر سلینا کو روکنے کی کوشش کی لیکن سلینا وہاں تھی ہی نہیں ۔ وہ اپنے کام میں مصروف تھی اورپھر یہی واقعہ سلینا کے ساتھ بھی پیش آیا ‘۔ ٹیم کے سارے افراد دلیل سن کے اپنی ہنسی روک نہیں پائے۔اتنے میں ولیم کی بیوی سلینا بھی آگئی اور اس نے اپنے بیان میں کہا کہ ’ پرسوں شام کو ہم کھانا کھا رہے تھے کہ اچانک کسی انجانی قوت نے میرےہاتھ کو کھینچاجس میں کھانے سے بھرا چمچ تھا اور خودبخود ولیم کی ناک میں ڈالنے کی کوشش کرتا تھا۔ولیم کافی غصہ ہوگئے۔پھر کل صبح ولیم کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔سلینا نے کہا پہلے ہم کو بھی یہ مذاق لگ رہا تھا لیکن اب ہم ڈرنے لگے ہیں۔دونوں میاں بیوی نے ٹیم سےمدد کی التجا کی۔
آدم نے کہا کوئی آپ لوگوں کے ساتھ مذاق کر رہا ہے اور آپ خواہ مخواہ پریشان ہو رہے ہیں۔ڈیسوزہ اور احمد ذرا سنجیدہ ہو گئے ۔ وہ اس نتیجے پہ پہنچے کہ یہ گھر آسیب زدہ ہے۔ان دونو ں نے بہت سے ایسے واقعات دیکھے تھے اور ان کا کوئی نہ کوئی حل تلاش کیا تھا۔ وہ اس معاملے میں بھی سمجھداری سے کام لینا چاہتے تھے مگر آدم اور سامیول اوتاولے ہو رہے تھے۔ ان دونوں کے سامنے یہ فرسودہ خیالات کے سوا کچھ اور نہیں تھا ۔ان کے مطابق یہ قصے اور کہانیاںہو سکتے ہیں اور آجکل کے دور میں معصوم لوگوں کو ٹھگنے کی چالبازی ہے اور کچھ نہیں۔وہ کبھی ماننے کے لئے تیار نہیں تھے کہ حقیقی زندگی میں ایسا ہو سکتا ہے ۔نہایت خود اعتمادی کے ساتھ آدم نے کہا چلو ابھی کے ابھی سارے مکان کا جائزہ لیتے ہیں۔ ٹیم اس جوڑے کو لے کر مکان کے طول و عرض کی جانچ کرنے لگی۔ آدم نے کہا ’میں جو کہہ رہا ہوں یہاں کچھ بھی نہیں ہے ،کوئی واقعی اس جوڑے کے ساتھ مذاق کر رہا ہے‘۔ باتیں کرتے ہوئے سارے لوگ مکان کی اوپر والی منزل کی جانب بڑھنے لگے اورآدم نے آگے بڑھتے ہوئے چیخ چیخ کر کہا ’کوئی ہے؟ اگر ہے تو سامنے آو، سنا ہے بڑے مذاق کرتے پھرتے ہو ،ہم کو بھی ہنساؤ ‘۔جائزہ لینے کے تھوڑی دیر بعد جب وہ واپس چلنے ہی والے تھے کہ اچانک آدم کی پینٹ ڈھیلی ہوکے خود بخود ٹانگوں سے نیچے اُتر گئی۔ٹیم نے زور دار قہقہہ لگایا ،پر اچانک ان پر لرزہ سا طاری ہو گیا۔ وحشت، مذاق اور شرمندگی کے ملے جلے ردعمل سے آدم کی حالت خراب ہو گئی ۔وہ برآمدے کی طرف دوڑنے لگا اور باقی لوگ بھی طوفانی رفتار سے اس کے پیچھے ہو لئے۔
آدم کو اس تجربے نے جھنجھوڑ کر تو رکھ دیا، لیکن ساتھ ہی اس کی شخصیت میں ایک ٹھہراو سا آنے لگا۔ مگر وہ پھر اپنے کام میں مصروف ہوا۔
آج آدم کو کئی مہینوں کے بعد گھر جانا تھا ۔ اس کو دوست کی باتیں یاد آنے لگیں کہ فرشتے ، روحیں اور جنات وغیرہ موجود ہیں اور اپنے دائرے میں رہتے ہیں۔
وہ کام میں اتنا مصروف رہا کہ اسے دوست شہیر کو میسیج کرنے کی بھی فرصت نہیں ملی اور اس بات کا آدم کو شدید افسوس تھا۔خیر وہ گھر کے لئے روانہ ہوا،ٹرین لیٹ ہونے کی وجہ سے وہ دیر رات کو گھر کی طرف روانہ ہوا ۔ راستہ کافی سنسان تھا اور گہرے اندھیرے میں ٹھیک سے کچھ دکھائی بھی نہیں دیتا تھا، جس کی وجہ سے وہ کافی خوفزدہ ہو گیا ، لیکن پھر بھی وہ خود کو سنبھالتے ہوئے خراماں خراماںمنزل کی جانب بڑھتا گیا۔ کچھ دور چل کر اچانک اس کو پیچھے سے کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی ، پھر چلنے کی آواز دھیمی ہوتی گئی اور پھر کچھ دیر چل کر اچانک اس کو لگا کہ کوئی قریب آرہا ہے۔ آدم کا دل زور سے دھڑکنے لگا۔ اس نے اپنی دھڑکنوں کو قابو کر کے آہستہ سے اپنی دائیں جانب دیکھا تو وہ چونک گیا کیونکہ یہ اسکا دوست شہیر تھا ۔ شہیر کو دیکھ کر آدم کی جان میں جان آئی۔دونوں نے مسکراتے ہوے ہاتھ ملایا۔آدم نے کہا ’شکر ہے ،تم مل گئے اب سفر آسان ہو جائے گا‘ ، آدم نے پوچھا تم اتنی رات گئے کدھر تھے؟ شہیر نے کہا ’بعد میں بتاوں گا،۔ پہلے بتاو سفر کیسا رہا‘۔ آدم نے کہا شکر ہے سفر اچھا رہا۔چلتے ہوئے آدم کو لگا شہیر کا قد لمبا ہو گیا ہے، اس نے کہا یار تم آج لمبے دکھائی دیتے ہو۔ شہیر نے کہا اندھیرے کی وجہ سے لگ رہا ہے۔ راستے میں آدم کئی ساری باتیں کرتا رہا اور شہیر مشکل سےہوں یا ہاں میں جواب دیتا رہا۔آدم کو یقین تھا کہ شہیر اسے بہت ناراض ہے کیونکہ مہینوں سے اس نے شہیر کو فون یا میسیج تک نہیں کیا تھا۔گھر کے نزدیک پہنچنے پر آدم نے شہیر کو اپنے گھر ٹھہرنے کوکہا پر شہیر نے کہا’میں بھی تو گھر پہنچ گیا ‘۔آدم نے کہا کل ضرور آنا، کہیں گھومنے چلیں گے مجھے تمہارے ساتھ ڈھیر ساری باتیں کرنی ہیں۔ سارے شکوے دور کروں گا۔شہیر نے کہا ٹھیک ہے۔
کسی کی نیند خراب کئے بغیر آدم گھر پہنچنے پر سیدھے اپنے کمرے میں جاکر سو گیا۔
صبح اٹھنے کے بعد آدم نے ماں اور بابا کے ساتھ ناشتہ کیا اس کے بعد ماں نے چائے کا کپ بڑھاتے ہوئے کہا۔ بیٹا چائے کے بعد شہیر کے والدین سے ملنے جانا، ان کے اوپر غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے ۔ آدم نے کہا ان کو کیا ہوا ہے ،سب خیریت تو ہے۔ماں نے دبی ہوئی آواز میں کہا،’کہ تمہارے جانے کے چند روز بعد ہی شہیر کی سڑک حادثے میں موت ہوگئی، وہ اب اس دنیا میں نہیں ہے ،ہمیں آپکو یہ خبر دینے کی ہمت نہیں ہوئی‘۔ آدم نے اپنا سر پکڑ کر آواز پہ زور دیتے ہوئے کہا ’ماں ٹھیک سے بتا کیا ہوا ہے‘۔ ماں نے دوبارہ وہی بات دہرائی۔ آدم کے ہاتھ سے چائےکاکپ گر گیا اور کہا ، کیا؟ ش…. شہیر وہ… تو…پھر…کل ….رات …..میرے….ساتھ….. ، وہ اپنی بات پوری کیئے بغیر بے ہوش ہو گیا۔
���
وزیر باغ، سرینگر