اسلام آباد //پاکستان نے کہا ہے کہ پلوامہ حملے کی ابتدائی تحقیقات میں پاکستان کا واقعہ سے کسی بھی قسم کا تعلق ثابت نہیں ہوا اور حملے کے حوالے سے بھارتی ڈوزیئر میں جیش محمد سربراہ مولانا مسعود اظہر کا کوئی ذکر نہیں۔دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں کہا کہ پاکستان نے تمام تنازعات کے حل کے لیے بھارت کو مذاکرات کی بارہا پیشکش کی تاہم بھارت نے مثبت جواب نہیں دیا۔دفترخارجہ ترجمان نے کہا کہ پلوامہ حملے سے متعلق بھارت کی جانب سے موصول ڈوزئیر کا جائزہ لیا گیا، بھارت کی جانب سے اٹھائے گئے تمام سوالات کے جوابات دیئے گئے۔ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا کہ بھارتی دستاویز میں جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کا ذکر تک نہیں، پلوامہ حملے سے مسعود اظہر کے کسی بھی تعلق کا دعویٰ نہیں کیا گیا ہے۔بعد میںغیر ملکی سفیروں کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ بھارت کی جانب سے دیئے جانے والے شواہد ناکافی ہیں۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان میں موجود غیر ملکی سفرا کو بتایا گیا کہ پلوامہ حملے کے بعد بھارت کی جانب سے ڈوزیئر 27 فروری کو موصول ہوا۔پاکستان نے بھارتی ڈوزیئر موصول ہونے کے بعد ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی، تفتیش کے لئے بڑی تعداد میں گرفتاریاں کی گئیں، سماجی رابطے کی ویب سائٹز پر موجود مواد کا تکنیکی جائزہ لیا گیا جو بھارتی ڈوزیئر کی بنیاد تھا۔سفرا کو بتایا گیا کہ بھارت کی جانب سے موصول ہونے والے 91 صفحات پر مشتمل ڈوزیئر کے 6 حصے تھے، جس میں حصہ نمبر 2 اور 3 پلوامہ حملے سے متعلق تھے جبکہ بقیہ حصے دیگر معمولی الزامات پر مشتمل تھے۔پاکستان نے دنیا کے مختلف ممالک کے سفرا کو واضح کیا کہ پاکستان نے ڈوزیئر کے صرف ان ہی حصوں پر توجہ دی جس میں پلوامہ حملے سے متعلق الزامات لگائے گئے۔سفرا کو بتایا گیا کہ پاکستان نے بھارت کی جانب سے دی جانے والے معلومات، عادل ڈار کی اعترافی ویڈیو ،جس میں اس نے حملے کی ذمہ داری قبول کی، ویڈیو کو شیئر کرنے والے واٹس ایپ اور ٹیلی گرام نمبروں، 90 مشتبہ افراد اور مبینہ ٹریننگ کیمپوں سے متعلق ،جن 22 جگہوں کی نشاندہی کی گئی تھی، ان کا مشاہدہ کیا گیا۔یہ بھی بتایا گیا کہ موبائل سروس فراہم کرنے والی پاکستانی کمپنیوں اور واٹس ایپ کے لئے امریکی حکومت سے معلومات کی فراہمی کی درخواست بھی کی گئی ہے۔
دفتر خارجہ نے سفرا کو بتایا کہ اب تک 54 گرفتار افراد سے پوچھ گچھ کی گئی ہے اور ان میں سے کسی کا بھی پلوامہ حملے سے تعلق ثابت نہیں ہو سکا، اسی طرح بھارت کی جانب سے دیئے جانے والے 22 مقامات کی معلومات پر ان جگہوں کا دورہ کیا گیا لیکن وہاں کوئی بھی دہشت گرد کیمپ موجود نہیں ہے۔اس کے علاوہ پاکستان نے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسے 'درخواست' کی گئی تو وہ غیرملکی سفرا کو ان مقامات کا دورہ کروانے کی اجازت بھی دے گا۔دفتر خارجہ نے سفرا سے کہا کہ اس تفتیش کو جاری رکھنے کے لیے بھارت کی جانب سے مزید دستاویزات کی ضرورت ہوگی کیونکہ اس کی جانب سے دیئے جانے والے شواہد ناکافی ہیں، جبکہ یہ بھی کہا کہ پاکستان اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے پرعزم ہے۔