پـنجرہ

نام فاطمہ تھا…مگر سب اُسے زہرہ پُکارتے تھے…خوبصورت روح اُورجسم کی مالکہ زہرہ، خوش لباس بھی تھی…
زہرہ اب عمر کے بیسویں برس میں آچکی تھی البتہ اُس کے حلیہ پرایک گہرے دُکھ کی پر چھائی تھی… اسلئے کہ اس کی زندگی میں آتی خوشیوں کواچانک موت کے اٹل فرشتے نے نگل لیا۔۔۔۔۔۔ جس شحص کے ساتھ ٹھیک دودن بعد اس کی شادی ہونی طے پائی تھی وہ ایک واردات میں ہلاک ہو گیا۔
ماں کے ساتھ زہرہ کو بڑا لگائو تھا، وہ اکثر اسکے پاس بیٹھاکرتی، مگر کچھ راحت محسوس نہ کرتی…اسکی آرزو تھی کہ کوئی ہوتا جو اس کی تنہائی کو دور کرتا۔۔۔۔۔۔۔مگر نہیں۔۔۔۔۔۔  اکثر وہ اکیلے میں روتی ،سسکیاں لیتی،آہیں بھرتی،اور فریاد کرتی رہتی… وہ خود کو منحوس سمجھنے لگی تھی۔
اسکے اس رویے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آنکھ کھولتے ہی اسکی ماں اللہ کو پیاری ہوگئی… باپ نے دوسری شادی کیا کی کہ وہ بھی اپنی پہلی بیوی کے پاس چلاگیا… پانچویں بہار دیکھی تو بھائی بھی اللہ کو پیارا ہوگیا۔دسویں برس میں بہن نے بھی ساتھ چھوڑدیا…یوں ایک ایک کرکے اپنوں کے دور چلے جانے کا بہت دکھ تھا… مگر عمر ایسی تھی کہ جلد ہی سنبھل گئی…سنبھلنا اور بھی مشکل ہوتااگرماں کا شفقت بھرا ہاتھ سرپہ نہ ہوتا جو بظاہر سوتیلی تھی…لیکن اب اس تازہ حادثے نے اُس شفقت میں بھی اثر نہ رکھا… سب زخم جاگ اٹھے،جنہوںنے اِسے اوربھی اکیلا کردیا۔
دن ہفتوں اور ہفتے مہینوں میں بدلتے رہے، جن کے ساتھ ساتھ اسکے روشن لمحے بھی تاریکی  میںاوجھل ہوگئے۔ کمرے کی چار دیواری اسکی دنیا تھی… کوئی بھی اُس کے پاس آتا تو وہ اُکتا جاتی… کسی سے زیادہ گفتگو نہ کرتی…ہمیشہ گم سم…
کمرے کی بائیں جانب کھڑکی کے پاس لگی کرسی پہ بیٹھتی اور وہیں رکھے پنجرے میں قید طوطے کو دیکھاکرتی…اس کے سا تھ باتیں کرتی، اسی کی خاطر میں وقت بِتاتی… یہ اس کی  زندگی کاواحد مشغلہ تھا…
’’اگر راہیں کٹھن ہو ںتو سفر بھی آرام سے طے نہیں ہوتے…اور اگر سفر زندگی کا ہوتو اوربھی مشکل ہوجاتاہے‘‘۔ 
ـزہرہ کی ماں اکثر اِسے سمجھاتی…مگر ساری کوششیں رائیگاں جاتیں…
ایک دفعہ تو اُس نے رورو کے اتنا بُرا حال کر لیاکہ سب ڈر گئے۔اُسے دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ جیسے کوئی میت پڑی ہو…اُس پر عجیب یہ کہ کسی کو کچھ بتاتی بھی نہیں۔کوئی کوشش کرتاتو پتھر بن جاتی۔
زہرہ کی اس حالت سے ایک اور شخص بہت پریشان تھا۔اور وہ تھا اس کا ماموں… دُبلاپتلا، مگر بہت ہی پھرتیلا شخص… خوش خلقی اس نے وراثت میں پائی تھی۔ جتنی محبت اُسے اپنی بہن سے تھی اتنی ہی بھانجی سے بھی کرتا…زہرہ کو تو وہ اپنی بیٹی سے بڑھ کر سمجھتا تھا… اسکی یہ کیفیت دیکھ کر بڑا ہی فکر مند رہتا…اپنی گڑیاسی بھانجی کو اس تذبذب سے نکالنے کیلئے اُس نے بڑے جتن کئے … کتنے ہی ڈاکٹروں ، حکیموں اور نہ جانے کتنے فقیروں کے پاس بھی پہنچا… مگر سب بے سود…
آخری حربے میں اُس نے زہرہ کو کالج کا داخلہ فارم لاکر تھمایا…اس غرض سے کہ یہ اس چار دیواری سے باہر کھلے ماحول میں رہے، جہاں اسکا دل لگے اور اکیلے پن سے کچھ راحت نصیب ہو… جب اس نے داخلہ فارم زہرہ کو دیا تو اسکا چہرہ خوشی سے کھلا ہواتھا… زہرہ نے فارم تو لیا مگر بجائے اُسے پُر کرنے کے طوطے کے پنجرے کے نیچے رکھ دیا…یہ رویہ دیکھ کر ماموں کا کِھلا ہوا چہرہ یک دم ماند پڑگیا… چہرے پہ آئی رونق فوراً کافور ہوگئی… یوں لگ رہاتھا کہ جیسے کسی بچے نے رونی صورت بنالی ہو…
’’میں نے تو کوئی مشکل کام کرنے کو نہیں بولا زہرہ… میں تو تمہیں خوش دیکھنا چاہتاہوں،میں ہی کیا سب تمہیں خوش دیکھنا چاہتے ہیں…آخر کب تک تم خود کو اور ہم سب کو یوں تکلیف دوگی… برداشت نہیں ہوتی تمہاری یہ حالت… تم ہمیں بہت عزیز ہو میری بچی…‘‘
اتنا کہہ کر وہ کمرے سے باہر نکل آیا…زہرہ اپنے ماموں کی طرف لپکی اُسے اپنا وہ زمانہ یاد آیا جب مامو ںماموں کرتی،اُنہیں کھلونے لانے پر اصرار کرتی تھی…
تھوڑی دیر یادوں کے جھولے جھولنے کے بعد زہرہ پھر گمُ سمُ سی ہوگئی…اور زاروقطار رونے لگی… سب پریشان ہوگئے… اسے یوں روتا دیکھ ماں کی آنکھوں سے بھی اشکوں کی دھار بہنے لگی… اُسے شک ہوا کہ کہیں اسکی بیٹی کا دماغی توازن تو نہیں بگڑگیا؟…مگر جلد ہی یہ خلل دور ہوا، جب اسکے بھائی نے بتایا کہ زہرا کی ساری رپورٹس ٹھیک ہیں…زہرہ کے ایسے رویے سے کوئی بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوتا کو وہ پاگل ہے… و ہ سوتیلی ہی سہی پر ماں تو تھی…
ساون کے مہینے کی پہلی تیز بارش پڑنا شروع ہوئی… زہرہ اپنے کمر ے میں بیٹھی سوچوں کے سمندر میں غوطے کھارہی تھی، کالے بادلوں کی چھت نے دن کو بھی رات جیسا بنالیاتھا… زہرہ اپنے واحد ساتھی اُس طوطے کو یوں اس پنجرے میں قید پھڑ پھڑا تے دیکھ، اپنا محاسبہ کرنے لگی کہ کس طرح اسکی زندگی بھی طوطے کی طرح قید ہے۔ آج اسکا پھڑ پھڑا نااسکی توجہ کا خاص مرکز بن چکاتھا…بے ساختہ بولی…
’’ تمہاری زندگی بھی میری ہی طرح ہے نا… فرق صرف اتنا ہے کہ تمہاری قید یہ پنجرہ ہے۔اور میری قید ؟…میری قید تو زندگی کی قید ہے،جسے صرف موت ہی آزاد کرسکتی ہے…لیکن اے میرے ساتھی جا آج تجھے میںتمہاری قید سے آزاد کرتی ہوںــــــــــــــــ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ـــ  
اتناکہہ اُس نے پنجرے کا دروازہ کھول دیا اور عجیب سی خوشی محسوس کرتے ہوئے دوسری جانب ہولی…
اسکی خوشی کی وجہ یہ بھی تھی کہ آج وہ نہ سہی ،پر  اسکا ساتھی تو قید سے آزاد ہوا۔لیکن اس کی یہ خوشی زیاد دیر ٹک نہ سکی…چہرہ پھر ماند پڑگیا اور بے ساختہ پنجرے کی طرف لپکی …لیکن یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اسکا وہ ساتھی جسے اُس نے آزاد کردیاتھا…ابھی وہیں پنجرے میں ہی ہے…زہرہ کو اُسے آزاد کرنے کی خوشی تھی یاغم؟… مگر جو بھی تھا اُسے واپس وہیں پاکر وہ خوش ہوئی اور بولی …
’’تم بھی اس دنیا سے بیزا ر ہونا… ظالم دنیا…! دیکھو آسمان میں یہ کالے بادل، یہ کالی رات سا سماں… کتنا سنسان ہے نا سب کچھ…بالکل تمہاری اور میری زندگی کی طرح…تم اور میں ایک ایسی دنیا میں ہیںجہاں تاریک راتیں اور بے رنگ زندگی ہے، اور آج تم نے یہ ثابت کردیا کہ یہ بے سکون زندگی اور اکیلا پن ہی ہمارا مقدر ہے…
اتنا کہہ وہ اسکی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگی…
تیز ہوائوں نے کھڑکی کا رُخ کیا…آسمان سے کالے بادل ہٹنے لگے اور باہر پیڑوں کی آڑ سے کئی پرندے ہوا میں پُھر پُھر اُڑنے لگے…زہرہ وہاں متوجہ ہوئی ہی تھی کہ طوطا بھی انہیں دیکھ کر پر پھڑ پھڑا نے لگا اور کھلے پٹ سے زہرہ کی آنکھ کے سامنے سے  تیز اڑان بھری اور جا کر اُس جھرمٹ میں مل گیا…اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہوگیا…زہرہ دیکھتی رہ گئی…
کئی دیر تک زہرہ گہری سوچ میں ڈوبی رہی…پھر اچانک اپنے ساتھی کا پنجرہ اٹھاکرکھڑکی سے باہر پھینکا، اُس کے نیچے رکھا داخلہ فارم ہاتھ میں لیا اور اُسے پُر کرنے لگی…
���
ولی وار لار گاندربل،کشمیر
موبائل نمبر؛9697394893