صبح سویرے گاوں میں ہلچل مچی تھی ۔ ماسٹر حمیدُاللہ کو پنچایت کے سامنے حاضر کیا گیا ۔زونل ایجوکیشن آفیسر بھی وہیں پہ موجود تھا ۔ ماسٹر حمیدُاللہ پہ الزام تھا کہ وہ بچوں کو غلط پڑھاتے ہیں ۔ ماسٹر حمیدُاللہ خان کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ دو سال پہلے ڈی آر بی سے سلیکٹ ہو کر اپنے ہی گاوں میں پوسٹنگ ہوئی تھی۔ گھر کی مُرغی دال برابر کے مصداق کچھ لوگ انہیں خاطر میں ہی نہیں لاتے تھے۔ گاوں میں چند لوگ ان سے خار کھاتے تھے۔ وہ اس لیے کہ وہ گاوں کا اکیلا لڑکا تھا جو اس ٹیچر کے اس عہدے کے لئے انٹرویو میں پاس ہوا تھا اور اس پر مصیبت یہ کہ اسی گاوں میں پوسٹنگ بھی ہوئی تھی ۔ گاوں کے بڑے اور امیر لوگوں کے لڑکے شہر میں اچھے اسکولوںسے پڑھ کر آئے تھے لیکن پھر بھی وہ اس انٹرویو میں کامیاب نہیں ہوئے تھے اس کے باوجود گاوں میں حمیدُاللہ کے چاہنے والوں کی بھی کمی نہیں تھی۔
نائب سرپنچ بختاور اسی طاق میں رہتا کہ کسی طرح ماسٹر جی کے کام میں نقص نکالے۔ وہ دن میں ایک یا دو بار اسکول میں ضرور حاضر ہوتا ۔ماسٹر جی پہ فکرے کستا ، نقائص نکالتا لیکن ماسٹر جی ان تمام باتوں کی طرف توجہ بھی نہیں دیتا اور بچوں کے ساتھ مگن رہتا۔ آج کی کاروائی بھی اُسی کا کارنامہ تھا ۔ آج انہیں ثابت کرنا تھا کہ حمیدُاللہ بچوں کو غلط پڑھاتا ہے۔
بختاور بچوں کی کچھ کاپیاں لیکر حاضر ہوا ۔ پہلی کاپی عمران نامی لڑکے کی تھی، جو چوتھی جماعت کا طالب علم تھا ۔ جمع تفریق کے کئی سوالات غلط کیے تھے اور ماسٹر جی نے ان کی کاپی میں Good لکھ کر سائن کر دیا تھا۔
’’دیکھ لیجئے ہمارے ماسٹر جی کا کارنامہ !بچے نے جمع کے سوالات غلط کیے ہیں اور اُستاد نے انہیں درست کرنے کے بجائے Goodلکھدیا ہے ‘‘
زونل ایجوکیشن آفیسر کا سر شرم سے جھک گیا ۔
دوسری کاپی تیسری کلاس کے رحمت کی تھی ۔ جو گاوں کے نمبردار کا بیٹا تھا۔ کاپی میں انگریزی حروف تہجی لکھے ہوئے تھے ۔ جن میں بیشتر حروف غلط تھے اور اسی لڑکے کی حساب کی کاپی بھی پیش کی گئی۔ لڑکے نے ایک سے پچاس تک کی گنتی میں تیس اعداد غلط لکھے تھے اور ماسٹر جی نے Good لکھ کے سائن کر دیا تھا ….
’’صاحب پتا نہیں ایسے لوگ کیسے انٹرویو میں سلیکٹ ہوتے ہیں ۔ جناب اس ٹیچر کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ایک سے پچاس تک کی گنتی کیسے لکھی جاتی ہے ۔ بختاور نے زونل ایجوکیشن آفیسر کے سامنے ایک اور بچے کی کاپی پیش کرتے ہوے کہا۔
تیسری کاپی گاوں کے سرپنچ کے لڑکے کی تھی، جو دوسری کلاس کا طالب علم تھا ۔ ایک سے دس تک کی گنتی میں نو حروف غلط لکھے تھے لیکن اُستاد نے Good لکھ کے سائن کر دیا تھا ۔ دوسرے صفحے میں بھی نو حروف غلط لکھے تھے ۔ تیسرے صفحے میں سات حروف غلط لکھے تھے اور تین حروف صحیح لکھے گئے تھے اور اُستاد نے V.Good لکھ کے سائن کر دیا تھا ۔ چوتھے پیج میں پانچ صحیح لکھے تھے اور پانچ غلط اُستاد نے Excelentلکھ کے سائن مار دیا تھا ۔ ان تمام کاپیوں کو دکھانے کے بعد نائب سرپنچ بختاور خان سے مخاطب ہوا۔’’صاحب یہ ہے اس ان پڑھ اُستاد کا کارنامہ۔ بچہ غلط لکھ رہا ہے اور یہ القاب سے نواز رہا ہے ۔ اس سے بھی بُرا حال پڑھانے میں ہے ۔ ہماری آپ سے مودبانہ گزارش ہے کہ اس اُستاد کو جلد سے جلد معطل کیا جائے اور ہو سکے تو برطرف کیا جائے کیونکہ ایسے اساتذہ سماج کے ماتھے پر کلنک ہیں ‘‘
گاوں کے تمام لوگ اس تماشے میں شریک ہوئے ۔ زونل ایجوکیشن آفیسر کا سر شرم سے جھک گیا ۔ اُنہوں نے حمیدُاللہ کی طرف حقارت بھری نظروں سے دیکھا اور بختاور سے مخاطب ہو کر کہا ۔
’’سرپنچ صاحب آپ فکر نہ کریں میں ان کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کر دوں گا ۔ فی الحال میں انہیں اسکول سے ہٹا کر آفس میں اٹیچ کر لیتا ہوں ۔ اور آپ کے اسکول میں دوسرا ٹیچر تعینات کیا جائے گا ‘‘۔
بختاور خان زیر لب مسکرایا اور زونل ایجوکیشن آفیسرکا شکریا ادا کیا۔
ماسٹر حمیدُاللہ چاہتا تھا کہ اُنہیں بھی صفائی کا موقع ملے لیکن اُنہیں یہ موقع نہیںملا ۔ مجلس برخواست ہوگئی ۔ حمیدُاللہ کسی طرح ضبط کر کے گھر پہنچ گیا ۔گھر پہنچ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔ بیوی بچوں نے یہ حالت دیکھی تو وہ بھی رو پڑے ۔ اب حمیدُاللہ کا گاوں میں رہنا مشکل ہو گیا ۔ جہاں بھی جاتا اُنہیں دیکھ کر لوگ ہنسنے لگتے، اُس کا مذاق اُڑاتے ۔
اسکول میں دوسرا ٹیچر پہنچ گیا تھا ۔ گاوں کے نائب سرپنچ کی زبان اُن کی تعریفیں کرتے تھکتی نہیں تھی۔ اور ہر مجلس میں حمیدُاللہ کی بُرائیاں کرتے کہتے کہ بڑا گندہ تھا، ڈسپلن نہیں تھا ۔ بالکل ان پڑھ تھا وغیرہ ۔
حمیدُاللہ کا تبادلہ کسی دوسرے گاوں کے اسکول میں ہوا ۔ اس اسکول میں صرف دس بچے زیر تعلیم تھے ۔ پہلے ہی سال پانچ بچوں کا اضافہ ہوا ۔ حمیدُاللہ جی جان لگا کر پڑھاتا ۔ آہستہ آہستہ حمیدُاللہ کے اسکول میں بچوں کی تعداد پچاس تک پہنچ گئی ۔ بس پھر کیا تھا حمیدُاللہ کے اسکول میں داخلے کے لیے لوگ اپنے بچوںکو دور دور سے لے آتے ۔ بچوں کے رش کی وجہ سے حمیدُاللہ نے ایڈمیشن روک دیا تھا ۔ اب لوگ حمیدُاللہ کے اسکول میں ایڈمیشن کے لیے بڑے بڑے لوگوں کی سفارش لے کر آ جاتے ۔ آس پاس کے پرائیوٹ اسکولوں میں رول گھٹنا شروع ہوا ۔حمیدُاللہ کی اس قدر شہرت دیکھ کر سارے لوگ دنگ تھے ۔اسی سال حمیدُاللہ کے لیے ریاستی حکومت کی طرف سے بیسٹ ٹیچر ایوارڑ بھی دیا گیا ۔
حمیدُاللہ کی بُرائیاں کرنے والے اب ندامت سے سر جھکا کر چلتے تھے ۔ اب بھی وہ حمیدُاللہ کی بُرائیاں کرتے لیکن اُن کی کوئی نہیں سُنتا ۔ گاوں کے عام لوگ بختاور خان کو کوستے کہ ایک اچھے اُستاد کو خواہ مخواہ گاوں کے اسکول سے بھگا دیا ۔ ایک دن گائوں کے لوگ سرپنچ کی سربراہی میں زونل ایجوکیشن آفس پہنچے اور حمیدُاللہ کو واپس گاوں بھیجنے کی درخواست کی ۔ لیکن زونل ایجوکیشن آفیسر ہنسے اور کہا آپ کو ہیرے کی پرکھ نہیں ہے ۔ ہیرے کو پرکھنے کے لیے جوہری چاہیے ۔ اور آپ سب لوہار ہیں ۔
���
لمرر گوشن دراس ڈسٹرکٹ کرگل جموں و کشمیر
موبائل نمبر؛9419399487, 9622221748
ای میل؛[email protected]