پروفیسر سہدیو کمار کی کتاب

پروفیسر   سہدیوکمار کی کتاب پر کچھ گفتگو کرنے سے پہلے میں آپ کی خدمت میں بھگت کبیر کی ایک نظم کا ترجمہ پیش کرتا ہوں جو علی سردار جعفری کی کتا ب ’’کبیر بانی‘‘ میں شامل ہے:’’میں نے شونیہ کے (خلاؤں میں معلق) آسن پر بیٹھ کر سادھنا کے ناقابلِ بیان رس کا پیالہ پیا
 اب میں اسرار کا محرم ہوں اور وحد ت کے راز سمجھنے والا
 راہ کے بغیر چل کر میں اس شہر میں پہنچ گیا ہوں جہاں کوئی غم نہیں ہے
جگدیو کا رحم اور کرم آسانی سے نصیب ہو گیا ہے
 میں نے دھیا ن دھر کے دیکھا تو وہ بغیر آنکھوں کے نظر آگیا جو لامحدود ہے
 جسے نارسائی کی منزل کہتے ہیں، یہ مقام غموں سے آزاد ہے۔
یہاں پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے
 جس نے غم پایا وہی بے غم ہو گیا
 یہاں عجب آرام ہے
 دانش مند وہ ہے جس نے یہ مقام دیکھا ہے
دانش مند وہ ہے جس نے اس کا گیت گایا ہے
یہ وہ مقام ہے جہاں کبیر کے قول کے مطابق: س
ورج ، چاند اور ستاروں کے چراغ جل رہے ہیں
 پریم، راگ ، بیراگ (بے نیازی)کے تال اور سر پر بلند ہورہا ہے
 فضاؤں میں رات دن نوبت بج رہی ہے
 میرا پریتم آسمانوں میں بجلی کی طرح چمک رہا ہے
وہاں لمحے بھر کی اور پل بھر کی آرتی کہاں
 سارا سنسار دن رات آرتی اُتارتا ہے، اور گیت گاتا ہے
 طبل اور نشان بج رہے ہیں
 جھلمل جیوتی کی غیبی جھالر جگمگاررہی ہے
 غیب کے گھنٹوں کی آواز آرہی ہے
رات اور دن وہاں اپنے چراغوں کو گردش دے رہے ہیں
 جگت کے تخت پر جگت کا مالک بیٹھا ہوا ہے
 سارا سنسنا ر کَرَم اور بھَرَم ( کام اور مغالطے ) میں مبتلا ہے۔
ایسے پریمی جو پریتم کو پہچانتے ہیں کم ہیں
 اصل عاشق وہ ہے جو اپنے دل میں پریم ( نیاز) اور بیراگ ( بے نیازی) کی لہروں کو اس طرح ملا لیتا ہے
 جیسے گنگا اور جمنا کے دھارے مل جاتے ہیں
 تب کہیں جاکر جنم اور مرن، موت اور زندگی کا انت (خاتمہ ) ہوتا ہے۔
میں نے یہاں بھگت کبیر کا حوالہ دینا یوں ضروری سمجھا کہ ،یہ سہدیو کمار کی بات اور کتاب سمجھنے کے لیئے لازم ہے۔ وہ یوں کہ سہدیو کمارخود بھگت کبیر کی فکر کے طالبِ علم اور اُستاد ہیں۔ان کی کتا ب تفصیلی مطالعہ طلب کرتی ہے لیکن اس کی کنجی ’’کبیر بانی ‘‘ میں چھپی ہے۔ میرے خیال میں وہ بھی حقیقت (Absolute Reality) اور راہِ معرفت (Gnosis) کے سالک یا مسافر ہیں۔ اور گیان کی تلاش میں کشٹ اٹھاتے ہیں۔ ہم ابھی یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ وہ معرفت حقیقت کی معراج کو پہنچ گئے ہیں یا اُنہوں نے ’’عارف‘ ‘ کا درجہ پا لیا ہے۔ان کی کتاب کا صرف ایک طائرانہ جائزہ ہی یہ بتا تا کہ اس سنسار میں آزادی کے سات ارب درجوں سے آزادی کی خواہش کے باجود انسان یا مخلوق، حقیقی پریتم کے پریم یا عشق سے آزاد نہیں ہے۔ دراصل یہی وہ عشق اور پریم ہے کہ وہ اگر حاصل ہو جائے اور پریتم اس کو اپنا لے تو انسان کی ہر غم اور دُکھ سے مکتی اور نجات ہو جاتی ہے یعنی سب آزادیوں کے بعد بھی آپ کو ایک غلامی قبول کرنا پڑتی ہے۔ اقبال نے اس حقیقت کو یوں بیان کیا تھا کہ ع
 وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
 ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات 
سہدیو کمار کی کتاب کا سارا سَت یا ساری روح اس کے باب، Freedom and Will of God میں موجود ہے۔ بالخصوص اس طویل حصہ میں جس میں وہ گاندھی کی فکر کا تفصیلی ذکر کرتے ہیں بلکہ یہ بھی سمجھاتے ہیں کہ عصرِ حاضر میں آزادی کے دو جید رہنما، مارٹن لوتھر کنگ، اور نیلسن منڈیلا بھی گاندھی ہی کی فکر کے تابع تھے۔ اس حصہ کو بغور سمجھنے سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ گاندھی کو معرفت وبصیرت نصیب تھی اور وہ ایک وحدتِ حقیقی کا پرچار کرتے تھے جس میں سب مذہب ایک ہوجاتے ہیں۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ مذہب ہی کی زنجیر تھی جو ان تین عظیم مفکروں کو مربوط رکھتی تھی۔اگر ہم ایک بار پھر کبیرؔ سے رجوع کریں تو وہ اسی فکر کا پرچار کرتے تھے جو ایک ازلی اور ابدی فکر تھی۔ کبیرؔ نے کہا:دنیا کے دو مالک ( جگدیش ) کہاں سے آئے؟ تجھے اس بھرم میں کس نے مبتلا کر دیا۔ اللہ، رام ،اور رحیم، الگ الگ کیسے ہو سکتے ہیں؟ ایک سونے سے سب زیور بنائے گئے ہیں۔ توہمات کو اپنے وجود سے دور کردے۔ وہی مہا دیو ہےجو برہما ہے، اسی کو آدم کہنا چاہیے۔ کوئی ہندو کہلاتا ہے اور کوئی مسلمان ، لیکن رہتے ہیں ایک زمین پر۔ ایک وید کی کتابیں پڑھتا ہے اور ایک قرآن۔ ایک مولانا کہلاتا ہے اور ایک پنڈت۔ نام الگ الگ رکھ لئے ہیں۔ ویسے برتن سب ایک ہی مٹی کے ہیں۔ غرض یہ کہ سنسار میں آزادی کے سات ارب درجوں کی خواہش رکھتے ہوئے بھی انسان ایک خدا کی حد سے آزاد نہیں ہیں۔ اس آزادی کے لئے بڑا جگر اور بڑی ہمت چاہیے۔ وہ ہمت کہ جس کے بارے میں جو ن ایلیاؔ نے کہا تھا کہ: ہم نے خدا کا رد لکھا ، نفی بہ نفی لا بہ لا۔۔۔ ہم ہی خدا گزیدگاں، تم پہ گراں گزر گئے۔۔۔
(یہ مضمون ٹورونٹو میں ’’ فیملی آف دی ہارٹ‘‘ کی نشست میں پڑھا گیا۔)