پاکستانی نژاد خواتین کا پر یس کالونی میں احتجاج

 سرینگر //کشمیر میں جدائی کا کرب سہ رہی پاکستانی نژادخواتین نے کل ایک بارپھر شہریت کے حقوق اور سفری دستاویزات کی درخواست کرتے ہوئے دونوں اطراف کی حکومتوں سے مداخلت کی اپیل کی ہے۔سال2010میں باز آبادکاری پالیسی کے تحت سابق جنگجوئوں کے ہمراہ کشمیر آئی پاکستانی خواتین نے پریس کالونی میں احتجاجی مظاہرہ کیا اور مانگ دوہرائی کہ اُن کو اُس پار اپنے والدین کے پاس جانے کیلئے سفری دستاویزات فراہم کئے جائیں ۔خواتین کا کہنا تھا کہ وہ کشمیر میں ایک پنجرے میں رہتی ہیں کیونکہ ہم سفر کے دستاویزات کی عدم موجودگی کی وجہ سے اپنے والدین، بہن بھائیوں اور رشتہ داروں سے ملنے کے قابل نہیں ہیں۔یاد رہے کہ 1990 یا اُس کے ٌ بعد اسلحہ کی ٹریننگ حاصل کرنے سرحد پار چلے گئے کشمیر نوجوانوں کو واپس لانے کیلئے سابق سرکار نے سال2010میں ایک باز آباد کاری پالیسی عمل میں لائی جس کے تحت سینکڑوں کی تعداد میں سابق جنگجواپنے بچوں اور بیویوں کے ہمرہ نیپال اور دیگر راستوں سے ہو کر کشمیر پہنچے تاہم اُن کے مطابق یہ کشمیر اُن کیلئے قید خانہ سے کم نہیں ہے ۔پاکستانی خواتین نے سابق حکومتوں پر الزام عائد کیا کہ اْن کے ساتھ کئے گے وعدوں کو 9سال بعد بھی عملی جامہ نہیں پہنایاگیا ۔ سال 2012 میں نیپال کے راستے اپنے خاوند اور دو بچیوں کے ساتھ کشمیر آئی فریدہ بیگم نامی ایک خاتون نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ انہوں نے کئی بار حکام سے مطالبہ کیا کہ اُن کو سفری دستوزات فراہم کئے جائیں تاکہ وہ سرحد پار اپنے والدین سے مل سکیں اور فوت ہو چکے افراد کی قبروں پر جا کر فاتحہ خوانی کر سکیں لیکن اُن کی آواز کشمیر سے باہر نکل نہیں پاتی ۔کراچی کی نائدہ یوسف نامی خاتون نے بتایا کہ وہ 2014میں نیپال کے راستے اپنے چار بچوں اور خاوند کے ساتھ شالیمار سرینگر پہنچی لیکن اب اُن کا سکون ہی اُن سے چھن گیا ہے ۔اُس کا کہنا تھا کہ سال2010میں جب یہاں کی سرکار نے باز آبادکاری پالیسی شروع کی تو سینکڑوں کی تعداد میں سابق جنگجوئوپاکستان کے کونے کونے سے اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ نیپال اور دیگر راستوں سے وادی آئے اور ان افراد کے ساتھ 5سو خواتین بھی یہاں پہنچیںلیکن یہاں انہیں مصیبتوں اور پریشانوں کے سواء کچھ نہیں ملا اور نہ ہی 9برسوں میں اْن کی باز آباد کاری ہو سکی۔نسرین ناصر نامی خاتون کے مطابق وہ 2012میں کراچی سے یہاں آئی ’’اُس نے آہ بھرتے ہوئے کہا کہ وہاں ہم بادشاہ تھے اور یہاں آکر مسافر ہو گئے کیونکہ ہمیں نہ ہی سفری دستاویزات فراہم کئے جارہے ہیں اورنہ ہی پاسپورٹ ،جبکہ ہمارے لئے اس ملک میں کوئی شناختی کارڈ بھی نہیں ہے۔انہوں نے ہند پاک وزرائے اعظم نریندر مودی اور عمران خان سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں انسانی جذبہ کے تحت سرحد پار جانے کی اجازت دی جائے۔