پاکستانی قومی اسمبلی میں نئے وزیر اعظم کیلئے ووٹنگ آج

یواین آئی
پی ٹی آئی باغی اراکین کو عہدے سے ہٹانے کی خواہاں

 

اسلام آباد//پاکستان کی قومی اسمبلی میں آج نئے وزیراعظم کے انتخاب کیلئے ووٹنگ ہوگی جس کے لئے دوامیدواروں پاکستان مسلم لیگ(ن) کے صدرشہبازشریف اور پاکستان تحریک انصاف کے شاہ محمودقریشی نے اتوار کواپنے کاغذات نامزدگی داخل کئے۔اس دوران پاکستان کی سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی گئی ہے جس میں سابق وزیراعظم عمران خان اوران کی کابینہ کے کچھ وزراء کانام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کی مانگ کی گئی ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے بھی اتوار کو نیشنل اسمبلی  کے اسپیکر اسد قیصر کے عہدہ چھوڑنے سے  پہلے انہیں اپنے 20 باغی اراکین پارلیمنٹ کی برخاستگی کے تحت ان (اراکین  پارلیمنٹ) کے خلاف شکایت حوالے کی  ہے۔ نئے  پاکستان کی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں نیشنل اسمبلی میں پیریعنی آج نئے وزیر اعظم کے لیے ووٹنگ کے لیے اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ الجزیرہ نے یہ رپورٹ دی ہے۔اتوار کی صبح تک جاری رہنے والی کارروائی  میں، حکمراں جماعت کے ارکان اور اسپیکر کی غیر موجودگی میں ایوان میں  ہوئی ووٹنگ کے بعد عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حق میں 174 ووٹ ڈالے گئے۔ جس کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔اسمبلی کے قائم مقام اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ امیدوار اتوار کو مقامی وقت کے مطابق صبح 11 بجے تک کاغذات نامزدگی داخل کر سکتے ہیں۔ عمران خان اور اتحادیوں نے اعتماد کا ووٹ کھو دیا۔ انہیں تباہ حال معیشت اور اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہنے کا قصوروار ٹھرایا گیا۔اس دوران پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کے صدر شہباز شریف اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے شاہ محمود قریشی نے اتوار کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرادئیے۔قبل ازیں اتوار کی رات گئے اپوزیشن کی جانب سے عمران خان کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی۔ 342 رکنی ایوان میں 174 ارکان نے تحریک کے حق میں ووٹ دیا۔نئے وزیراعظم کے انتخاب کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس آج یعنی پیردوپہر 2 بجے ہوگا۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ 28 مارچ کو متحدہ اپوزیشن کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار شہباز شریف نے اسمبلی میں  خان کے خلاف ایک قرارداد پیش کی۔قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے قبل 12 گھنٹے سے زائد بحث جاری رہی۔اس کے ساتھ ہی عمران خان پہلے پاکستانی وزیراعظم بن گئے جنہیں عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے اقتدار سے ہٹایا گیا۔ادھر پاکستان میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک عرضی  دائر کی گئی ہے جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کے کچھ وزراء زراء کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں رکھنے کی مانگ کی گئی ہے تاکہ انہیں ملک سے باہر جانے سے روکا جا سکے۔مقامی اخبار ’دی نیوز‘ نے اتوار کو یہ اطلاع دی۔ عدالت آج درخواست پر سماعت کرے گی۔ہفتہ کی رات پاکستان کی قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی منظوری کے نتیجے میں عمران خان کو وزیر اعظم کے دفتر سے  باہر ہونے اور وزیر اعظم کی رہائش گاہ سے باہر نکلنے کے بعد مولوی اقبال حیدر نے یہ عرضی دائر کی۔حیدر نے آئی ایچ سی سے سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری اور اسد مجید کے ساتھ سابق پاکستانی وزرائے خارجہ شاہ محمود قریشی اور فواد چودھرری کا نام بھی ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست کی ہے۔درخواست میں مبینہ دھمکی آمیز خط کی جانچ اور اس معاملے میں سابق وزیراعظم اور دیگر وزراء کے خلاف تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔اس دوران پاکستان کی نیشنل اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر ہفتے کو ہوئی ووٹنگ میں عمران خان کے وزیراعظم کے عہدے سے دستبردار ہونے کے بعد  خالد جاوید نے بھی اٹارنی جنرل کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔اپنا استعفیٰ پیش کرتے ہوئے  جاوید نے کہا ’’میں فروری 2020 سے پاکستان کے اٹارنی جنرل کے طور پر خدمات انجام دے رہا ہوں۔ میں اس اعزاز اور خصوصی اختیار کے لئے  وزیراعظم عمران خان کا تہہ دل سے شکر گزار رہوں گا۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اتوار کو نیشنل اسمبلی  کے اسپیکر اسد قیصر کے عہدہ چھوڑنے سے  پہلے انہیں اپنے 20 باغی اراکین پارلیمنٹ کی برخاستگی کے تحت ان (اراکین  پارلیمنٹ) کے خلاف شکایت حوالے کی  ہے۔یہ شکایات سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے دائر کی گئی ہیں اور ایوان میں پارٹی کے چیف وہپ عامر ڈوگر نے اسپیکر کو جمع کرائی ہیں۔یہ شکایات پاکستانی آئین کے آرٹیکل 63-اے کے تحت درج کی گئی ہیں جس میں وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ یا انتخاب کے دوران پارلیمانی پارٹی کی ہدایات پر عمل نہ کرنے پر انحراف کی بنیاد پر رکن قومی اسمبلی کو اعتماد کے ووٹ کے دوران نااہل قراردیتا ہے۔شکایات میں کہا گیا ہے کہ ‘بڑے پیمانے پر نشر ویڈیو’ کے ذریعے یہ انکشاف ہوا ہے کہ باغی پی ٹی آئی چھوڑ کر وزیر اعظم پاکستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لیے اپوزیشن میں شامل ہو گئے تھے اور انحراف کی کارروائیوں کے لئے کوئی تردید بھی جاری نہیں کیا گیا تھا۔ باغی اراکین پارلیمنٹ کو شوکاز نوٹس بھجوائے گئے تھے کہ ان کے خلاف قومی اسمبلی سے ان کی برطرفی کا اعلامیہ کیوں نہ جاری کیا جائے لیکن وہ ان کا جواب دینے یا اپنے موقف کی وضاحت کرنے میں ناکام رہے۔انہوں نے کہا کہ اراکین اپنا ‘مقدس فرض’ ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں اور دوسری پارٹی سے وفاداری دکھا کر پی ٹی آئی، ووٹرز اور عوام کے اعتماد کو توڑا ہے اور ‘جمہوری نظام اور تحریک انصاف کے مقصد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے’۔ .انہوں نے اسپیکر سے درخواست کی کہ وہ آرٹیکل 63-اے کے تحت ان اراکین کو ہٹانے کے لیے کارروائی شروع کریں کیونکہ وہ پی ٹی آئی سے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں۔